نقطہ نظر افسانہ: ’کمبختو! تم یونہی غریب ہی رہنا‘ اسے ڈر تھا کہ سرکاری اسکول سے پڑھ کر وہ بھی کم آمدنی والے آدمی نہ بن جائیں تو جس قدر ممکن ہو انہیں انگریزی سیکھنی چاہیے۔
نقطہ نظر افسانہ: آخری روتا شخص بھی اب قید ہوگیا شہر ہر کوئی مسکراتا نظر آتا اور لوگ پولیس کو دیکھ کر اونچے اونچے قہقہے لگاتے تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ وہ لوگ اداس نہیں
نقطہ نظر افسانہ: کوئی بھی نام دے دو ’اب بھلا بتائیے اتنے دکھ میں موسم کی کسے پرواہ؟ یہ کیسا عجیب سوال تھا؟ میں اسے کیسے بتاتا کہ مجھے اس سے بہت شکایت تھی‘
نقطہ نظر افسانہ: ایک الجھی ہوئی کہانی ’ہوا کچھ یوں کہ 6 ماہ بعد سلمٰی نے ایک روز شبیر سے کہا کہ اسے شبیر کے دوست یعنی مجھ سے محبت ہے۔‘
نقطہ نظر افسانہ : دو بوڑھے اور بارش کی دعا کچھ پودے واقعی کل سے مرجھائے مرجھائے لگ رہے ہیں۔ میں جو بات بھی کرتا ہوں بس چپ کھڑے ہوکر سنتے ہیں، پہلے ایسا نہیں تھا۔
نقطہ نظر افسانہ: ’میں‘ ’میں‘ کی گمشدگی یکدم نہیں ہوئی بلکہ یہ گمشدگی قسطوں میں ہوئی تھی۔ بتدریج گُم ہوتا ’میں‘ آج مکمل طور پر کہیں کھو گیا
نقطہ نظر افسانہ: چابی یہ ضرور تجوری کھولنا چاہتاہے، بڈھا مجھے جیل پہنچا کر ہی دم لےگا، کچھ ہوجائےمیں جیل نہیں جاؤں گا، اس نے دل ہی دل میں سوچا
نقطہ نظر افسانہ: روتا ہوا کتا اور قہقہ لگاتے انسان! ’جی بھائی کرامت بہت شکریہ‘ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، اس نے 2 سال میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ گاؤں واپس جاسکےگا
نقطہ نظر افسانہ: یادداشت کی تلاش میں وہ روزانہ دفتر جانے کے لیے 8 کلو میٹر چلتا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے 15 روپے بچ جاتے ہیں جس سے دودھ کا چھوٹا پیکٹ آجاتا ہے
نقطہ نظر افسانہ: چوزا، شگفتہ اور وینٹی لیٹر مشین اگلے ہی دن وہ دکان پر بیٹھا تھا گریبان کے بٹن جو ہر وقت کھلے رہتے تھے اب بند تھے، جوئے والی گلی سےگزرنا بھی چھوڑ دیا تھا
Zahid Hussain ’آج بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہماری دہائیوں کی ناقص پالیسیز کا نتیجہ ہے‘ زاہد حسین