1700ء میں اگر کراچی کا شہر یا بندرگاہ موجود تھی تو اس پر کس کا کنٹرول تھا؟ خون بہا کے طور پر کراچی اور اس کی بندرگاہ قلات کو دینے میں کتنی صداقت ہے؟
شائع29 نومبر 202403:02pm
کلہوڑوں نے اپنی حکومت کے دوران 700 کے قریب نہریں کھدوائیں جن کی وجہ سے سندھ میں زراعت کو خوب ترقی کی مگر ماحولیاتی تبدیلی دبے پاؤں آ دھمکی اور موسم گرم ہونے لگا۔
کلہوڑوں نے ان دنوں کی ریاستوں سے لڑنے کی کوشش کی اور سمندر کنارے یا کوہستانی پٹی میں رہنے والے قبائل کو آپس میں لڑوایا تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے وہ اپنی طاقت کو اور وسعت دے سکیں۔
کبھی کبھی اناؤں کے ریگستان اتنے پیاسے ہوتے ہیں کہ ایک دو لوگوں کے خون سے ان کی پیاس نہیں بُجھتی، قدیم کراچی میں لڑی جانے والی قبائلی جنگیں اس کی مثال ہیں۔
قدیم کراچی میں کلمتی بلوچ، جوکھیا اور بُرفت قبائل آپس میں لڑتے ضرور تھے لیکن تاریخ کا مطالعہ کرکے خیال آتا ہے کہ ان کی کہیں نہ کہیں آپس میں اچھی کیمسٹری تھی۔
مکران سے ملیر اور ملیر سے میرپور ساکرو تک بنی ہوئی اُن شاندار چوکنڈی قبرستانوں کی تخلیق کے سفر کی سیکڑوں کہانیوں میں سے ایک مختصر سی کہانی کا ذکر کرتے ہیں۔
چھ متاروں نے موکھی سے ضد کہ وہ اسے شراب پلائیں حالانکہ مے خانے میں شراب ختم ہوچکی تھی، تھک کر موکھی نے ایک پرانے مٹکے سے انہیں شراب دی جس کی تہہ میں ایک مرا ہوا سانپ موجود تھا۔
اوبھایو کے منع کرنے کے باوجود اس کے چھ بیٹے 'کلاچی جو کُن' میں شکار کرنے نکل پڑے جہاں انہیں ان کے جال میں منگر مچھلی پھنسی اور اسے جال سے نکالتے ہوئے ان تمام بھائیوں کو منگر نگل گئی۔
تاریخ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ مکافات عمل انسان کے اعمال کے بیجوں سے بننے والا ایک جنگل ہے، وہ حکمران جن کا غرور اوڑھنا بچھونا تھا، انہوں نے اندھیری کوٹھریوں میں ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر حیات سے جھٹکارا پایا۔
تاریخ کے اوراق، بہمن آباد شہر کی وسعت اور خوبصورتی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے لیکن اس شہر کے زوال کے متعلق کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک محقق دوسرے محقق سے اتفاق نہیں کرتا۔
کراچی کی ملیر وادی اس مقام پر موجود ہے جہاں ماضی میں مغرب اور شمال سے آنے والے بیوپاری قافلوں کی قدیمی گزرگاہ ہوا کرتی تھیں اور یہی عشقیہ داستان کے کرداروں سسی اور پنھوں کی گزرگاہ بھی تھی۔
آج کے سفر میں سکندراعظم کے ان حملوں پر بات کریں گے جو اس نے دریائے سندھ کے قرب و جوار بالخصوص مغرب کی طرف بسنے والی مقامی حکومتوں پر کیا تاکہ سکندراعظم کے کراچی تک پہنچنے کو سمجھا جاسکے۔
سکندر اعظم ٹیکسلا سے سکون سے گزرتا آگے بڑھا اور جیسے ملتان کے قریب پہنچا تو اُسے مقامی حکومتوں سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ سکندر کو مقامی لوگوں کا پہلا تیر ملتان کے آس پاس لگا۔
پرانے زمانے کی بستیاں جہاں مٹی سے بنی اور بھٹی میں پکی چوڑیوں کے مقابلے سنکھ سے چوڑیاں بنانا نہ صرف انتہائی مشکل تھا بلکہ انہیں بنانے کے لیے زیادہ صبر، سکون اور ذہانت کی سخت ضرورت تھی۔
لاکھوں یا ہزاروں برس پہلے کے انسانوں کے ملنے والے فوسلز سے پتا چلتا ہے قدیم انسان کبھی بھی قحط یا خوراک کی کمی کا شکار نہیں رہا کیونکہ اُن کے پاس خوراک کی تلاش کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔
انسان کے ارتقائی سفر کے دوران سندھو گھاٹی میں جہاں جہاں بستیاں اپنی معروضی حالت میں پنپ رہی تھیں، درحقیقت انجانے میں وہ آنے والے دنوں کے لیے ایک تہذیب کی تخلیق کررہی تھیں۔
ہمارا آج کا سفر سمندر کنارے اور ان پہاڑیوں کے جنگلات، آبشاروں، غاروں اور قدامت کی ان پگڈنڈیوں پر ہے جہاں سندھو گھاٹی کی قدیم تہذیب اور زرعی بستیاں آباد تھیں۔
قدیم بستیوں کی کھوج سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ نو حجری دور کی ثقافتی باقیات چمکیلے پتھر کے اوزاروں اور ہتھیاروں کی صورت میں وادی لیاری اور دریائے حب تک کے وسیع علاقوں میں باکثرت ملے ہیں۔