نقطہ نظر

گریٹر اسرائیل: اب آگے کیا ہونے والا ہے؟

فلسطینیوں کی نسل کشی نے بہت سی چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں کیونکہ اس المیے میں عالمی قوانین، معاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔

یہ واضح ہوچکا کہ اسرائیل کی جنگ، صرف حماس کے خلاف نہیں تھی بلکہ وہ تو ’گریٹر اسرائیل‘ بنانے کے اپنے پروجیکٹ پر کارفرما تھا۔ چند بہادر اور مزاحمتی فلسطینیوں کے علاوہ تو غزہ اب مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔ مغربی کنارے کی آبادی پر بھی اپنی زمینیں چھوڑنے کے لیے دباؤ ہے۔ اگرچہ لبنان میں بھی خاموشی ہے لیکن مشکلات کا سامنا کرنے والی حزب اللہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اردن کی سلطنت تو پہلے ہی امریکی-یورپی طاقتوں کے زیرِ اثر ہے۔

دوسری جانب شام کے دفاعی نظام کو بھی مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ہے جبکہ ملک جزوی طور پر قبضے میں ہے۔ ایک بار پھر اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ ’دریا سے سمندر تک‘ علاقے کو کنٹرول کررہا ہے، وہ زمین جو حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو تحفے میں دی تھی۔ تاہم اسرائیل نے یہ زمین تشدد کے سہارے حاصل کی ہے۔

اسرائیل کی کامیابی کا سہرا امریکا کی فراہم کردہ فضائی قوت کو بھی جاتا ہے جوکہ خطے میں سب سے طاقتور فضائی فورس ہے اور اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اسرائیل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ سلامتی کونسل میں امریکا اور یورپی ممالک کی حمایت حاصل کرکے اسرائیل نے نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ انہوں نے اسرائیل کو عسکری اور مالیاتی امداد فراہم کیں جوکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

صرف امریکا ہی سالانہ بنیادوں پر اسرائیل کو اربوں ڈالرز کے دفاعی ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے 12 ماہ میں امریکا نے اسرائیل کو 17.9 ارب ڈالرز کی فوجی معاونت فراہم کی۔ دوسری جانب نسل کشی میں امریکا کے کرادر کو دیکھتے ہوئے سوڈان کے قحط، عراق اور شام میں غیرقانونی جنگ میں امریکی کردار کے حوالے سے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

تاہم نسل کشی نے بہت سی چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں۔ اس پورے المیے میں عالمی قوانین، معاہدوں اور بین الاقوامی اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ سیکولرازم اور انسانی حقوق جوکہ بین الاقوامی قانون کی بنیاد ہیں، ان کی خلاف ورزی کی گئی جس کی وجہ سے دنیا میں شمال اور جنوب کی بنیاد پر شدید تقسیم پائی جاتی ہے۔

یہ تو واضح ہوچکا ہے کہ سفید فام اکثریت رکھنے والے مغربی ممالک اب اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ دنیا کی قیادت کرسکیں۔ یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ یہود-مخالف اور ہولوکاسٹ کے قوانین صہیونیوں اور اسرائیل کو تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ جن کے تحت ان پر تنقید کرنے والوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا بلکہ انہیں ٹرول کیا جاتا ہے۔

یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ اب مغربی میڈیا قابلِ بھروسہ نہیں رہا۔ یہ سفید فاموں کا ساتھ دیتا ہے جبکہ ان کی جانبداری کھل کر سامنے آچکی ہے۔ بہت سے لوگ مغربی میڈیا پر الزامات لگاتے ہیں کہ یہ جھوٹ بولنے کے لیے رشوت لیتے ہیں جبکہ ان کے نمائندگان امریکا اور یورپ سے مفادات کے عوض جھوٹی کہانیاں گھڑتے ہیں۔ اسرائیل-غزہ جنگ سے یہ بھی واضح کیا کہ مسلم ممالک کو اسلامی دنیا کے تصور کو فروغ دینے کے بجائے صرف اپنے قومی مفادات سے غرض ہے۔

مغربی ممالک بالخصوص امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے انتخابات اور پالیسیز اسرائیل کی حمایت کرنے والی بڑی عالمی کمپنیز سے متاثر ہیں جبکہ امریکی خارجہ پالیسی بڑی حد تک اسرائیل کے مفادات پر مبنی ہے۔ عوام بالخصوص امریکا میں مایوسی بھی پائی جاتی ہے کیونکہ شہریوں کا گمان ہے کہ ان کے ٹیکس کی رقوم اسرائیل کو مالی امداد اور ہتھیاروں کی فراہمی میں استعمال ہو رہی ہے۔

اتنے عرصے میں یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ امریکا میں نوجوانوں کی اکثریت، اسرائیل کی نسل کش مہم کے خلاف ہے جبکہ امریکا اور یورپی ممالک کے مرکزی شہروں میں واقع کالجز کے کیمپسز اور سڑکوں پر جس طرح نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے، اس نے مغربی نوجوانوں کی سوچ کی عکاسی کی۔ یہ مظاہرے مغربی ممالک کی تاریخ میں منفرد اہمیت کے حامل ہیں۔

نوجوان اس بات پر بھی برہم ہیں کہ اسکول اور یونیورسٹیز میں انہیں جن اقدار کا درس دیا جاتا ہے، دنیا تو ان سے رہنمائی لیتی ہی نہیں۔ وہ اب رہنمائی کے لیے کسی نئے متبادل کی تلاش میں ہیں۔ دوسری جانب پرانے سیاست دان میڈیا کے تعاون سے معاملات جیسے ہیں، انہیں ویسے ہی رکھنے کی کوششوں میں ہیں۔

مغرب کے لیے نسل کشی کی حمایت کا مقصد ’گریٹر اسرائیل‘ کا قیام تھا جوکہ مشرقِ وسطیٰ اور اس کے بےپناہ وسائل کو کنٹرول کرے۔

تاہم ’گریٹر اسرائیل‘ ایک ایسی آبادی پر مشتمل ہوگا جہاں اکثریت اسرائیل اور مغرب کی پالیسیز کے خلاف ہوگی جبکہ وہ ایک متبادل عالمی آرڈر کی تلاش میں ہوں گے۔ جغرافیائی طور پر اسے عرب ممالک اور مشتعل نوجوان نے گھیرا ہوگا جنہوں نے قتل ہوتے دیکھے ہیں، جن کی تذلیل کی گئی ہے اور جنہیں زد و کوب کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے تعلیمی نظام اور صحت عامہ کے انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر تباہ ہوتے دیکھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا حالات یونہی جاری رہیں گے؟ اگر نہیں تو حالات کس طرح مختلف ہوں گے؟ جبکہ اس میں شامل مختلف گروہوں اور قوتوں کے کردار کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کیسے آئے گی؟


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عارف حسن

لکھاری آرکیٹکٹ ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس arifhasan37@gmail.com ہے۔ ان کی ویب سائٹ وزٹ کریں: www.arifhasan.org

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔