دنیا

غزہ معاہدے کے حوالے سے گیند حماس کے کورٹ میں ہے، انٹونی بلنکن

حزب اللہ کے خاتمے کے بعد ایران کی اہم سپلائی لائن تباہ ہوگئی, خطے میں امن، استحکام کے لیے ایران کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے، امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے فنڈز منجمد کرنے کا اسرائیلی فیصلہ ناقابل قبول ہے جب کہ غزہ معاہدے کے حوالے سے ’ گیند حماس کے کورٹ میں ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے انٹونی بلنکن نے کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ سب کچھ گنوانے کے بعد ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے خاتمے کے بعد ایران کی اہم سپلائی لائن تباہ ہوگئی ہے۔

انٹونی بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں امن، استحکام کیلئے ایران کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی پر مہر لگانا حماس پر منحصر ہے، جب کہ حتمی تجویز قطر میں مذاکرات کی میز پر ہے، گیند اب حماس کے کورٹ میں ہے۔

انتونی بلنکن نے اگر حماس قبول کر لیتا ہے تو یہ معاہدہ طے پانے اور اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔

یاد رہے کہ انٹونی بلنکن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ روز قطر نے اسرائیل اور حماس کو غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کا حتمی مسودہ پیش کر دیاتھا۔

مذاکرات سے آگاہ ایک عہدیدار نے بتایا کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی نے بھی بات چیت میں شرکت کی، جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مسودہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں طے کیا گیا جس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں موساد اور شین بیٹ کے سربراہان، قطر کے وزیر اعظم اور نامزد امریکی سفیر اسٹیو وٹکوف بھی شامل تھے، خیال کیا جاتا ہے کہ سبکدوش ہونے والی امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں نے بھی بات چیت میں شرکت کی ہے۔

عہدیدار نے کہا تھاکہ معاہدے تک پہنچنے کے لیے اگلے 24 گھنٹے اہم ہوں گے، اسرائیل کے کان ریڈیو نے ایک اسرائیلی عہدیدار کے حوالے سے پیر کو خبر دی تھی کہ قطر میں اسرائیلی اور حماس کے وفود کو ایک مسودہ موصول ہوا ہے اور اسرائیلی وفد نے اسرائیلی رہنماؤں کو بریفنگ دی ہے۔

ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے کہا تھا کہ اگر حماس کسی تجویز کا جواب دیتی ہے تو چند دنوں میں ایک معاہدے پر دستخط کیے جاسکتے ہیں۔

مذاکرات سے وابستہ ایک فلسطینی عہدیدار نے کہا تھا کہ دوحہ سے ملنے والی معلومات ’بہت امید افزا‘ ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ’خلا کو کم کیا جا رہا ہے اور اگر آخر تک سب کچھ ٹھیک رہا تو معاہدے کی طرف ایک بڑی پیش قدمی ہے۔‘

امریکا، قطر اور مصر غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سال سے زیادہ عرصے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کی 20 جنوری کی حلف برداری کو اب خطے میں ایک آخری مہلت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، امریکا کے نومنتخب صدر نے کہا تھا کہ ان کے عہدہ سنبھالنے تک حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو اس کی قیمت چکانی پڑے گی جبکہ صدر جو بائیڈن بھی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل کسی معاہدے کے لیے سخت کوششیں کر چکے ہیں۔

عہدیدار نے بتایا تھا کہ مصر کی جنرل انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ حسن محمود رشاد بھی مذاکرات میں شرکت کے لیے قطر کے دارالحکومت میں موجود تھے۔

ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نومبر کے اواخر سے اب تک متعدد بار قطر اور اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں، وہ جمعے کو دوحہ میں تھے اور دوحہ واپسی سے قبل ہفتے کے روز وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل گئے تھے۔