دنیا

فلسطین میں 40 فیصد کم شہادتیں ریکارڈ، مرنے والوں کی تعداد 64 ہزار سے زائد ہے، تحقیق میں انکشاف

شہدا میں 59.1 فیصد خواتین، بچے اور 65 سال سے زائد عمر کے افراد شامل ہیں، ان میں مرنے والے مزاحمت کار شامل نہیں، غزہ کی آبادی 6 فیصد کم ہوگئی، دی لانسیٹ جرنل

تازہ تحقیق کے مطابق اسرائیل اور حماس کے تنازع میں فلسطینیوں کی براہ راست شہادتیں 40 فیصد کم شمار کی گئیں، مرنے والوں کی اصل تعداد 64 ہزار سے زائد ہے، غزہ کی پٹی میں صحت کی دیکھ بھال کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہونے کے بعد مفصل ریکارڈ نہیں رکھا جاسکا۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’دی لانسیٹ جرنل‘ میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کا جائزہ لندن اسکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن، ییل یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے ماہرین تعلیم نے لیا۔

اعداد و شمار کے ایک طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے اکتوبر 2023 اور جون 2024 کے آخر کے درمیان غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن فضائی اور زمینی مہم کے دوران شہادتوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔

ان کا اندازہ ہے کہ اس عرصے کے دوران 64 ہزار 260 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جو فلسطینی وزارت صحت کے سرکاری اعداد و شمار سے تقریباً 41 فیصد زیادہ ہیں، تحقیق میں بتایا گیا کہ 59.1 فیصد خواتین، بچے اور 65 سال سے زائد عمر کے افراد شہید ہوئے۔

اس تحقیق میں شہید مزاحمت کاروں کا کوئی تخمینہ فراہم نہیں کیا گیا۔

فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق غزہ کے تنازع میں اب تک 46 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ جنگ سے قبل اس کی آبادی 23 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔

ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی مسلح افواج نے شہریوں کی اموات سے بچنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی کسی بھی فوج نے اس طرح کے وسیع پیمانے پر اقدامات نہیں کیے، ان میں شہریوں کو انخلا کے لیے پیشگی وارننگ دینا، محفوظ علاقے بنانا اور شہریوں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے تمام اقدامات کرنا شامل ہیں، اس رپورٹ میں فراہم کردہ اعداد و شمار زمینی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق یہ تنازع 7 اکتوبر2023 کو اس وقت شروع ہوا جب حماس کے مسلح افراد نے اسرائیل کے ساتھ سرحد پر دھاوا بول دیا، جس میں 1200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔

لانسیٹ کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی وزارت صحت کی الیکٹرانک موت کے ریکارڈ کو برقرار رکھنے کی صلاحیت پہلے قابل اعتماد ثابت ہوئی تھی، لیکن اسرائیل کی فوجی مہم کے تحت اس میں کمی آئی ہے، جس میں ہسپتالوں اور صحت کی دیکھ بھال کی دیگر سہولیات پر چھاپے اور ڈیجیٹل مواصلات میں خلل شامل ہے۔

اسرائیل نے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے لیے ہسپتالوں کو ’آڑ‘ کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

تحقیق کے طریقہ کا دیگر تنازعات میں استعمال

غیر معمولی اطلاعات کے مطابق غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں بڑی تعداد میں لاشیں دفن ہیں اور اس وجہ سے انہیں کچھ عمارتوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اس خلا کو بہتر طریقے سے جانچنے کے لیے لانسیٹ کی تحقیق میں کوسوو اور سوڈان سمیت دیگر تنازعات والے علاقوں میں مرنے والوں کی تعداد کا جائزہ لینے کے لیے استعمال ہونے والا طریقہ کار استعمال کیا گیا۔

کم از کم 2 آزاد ذرائع کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے، محققین ایسے افراد کی تلاش کرتے ہیں جو شہید ہونے والوں کی متعدد فہرستوں میں ظاہر ہوتے ہیں، فہرستوں کے کم ملاپ سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ اموات ریکارڈ نہیں کی گئیں، ایسی معلومات جس کا استعمال اموات کی پوری تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔

غزہ پر تحقیق کے لیے محققین نے فلسطینی وزارت صحت کے سرکاری اعداد و شمار کا موازنہ کیا، جو لڑائی کے ابتدائی مہینوں میں مکمل طور پر ان میتوں پر مبنی تھے جو ہسپتالوں میں پہنچیں، لیکن بعد میں دیگر طریقوں کو بھی شامل کیا گیا۔

وزارت صحت کی جانب سے غزہ کی پٹی کے اندر اور باہر فلسطینیوں کو ایک آن لائن سروے تقسیم کیا گیا جن سے فلسطینی شناختی نمبر، نام، موت کے وقت عمر، جنس، موت کے مقام، رپورٹنگ ذرائع، اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے تعزیتی پیغامات کے بارے میں اعداد و شمار فراہم کرنے کو کہا گیا۔

تحقیق کی سربراہ زینا جمال الدین نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ہماری تحقیق سے ایک تلخ حقیقت سامنے آئی ہے کہ غزہ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد رپورٹ سے کہیں زیادہ ہے۔

جان ہاپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ میں سینٹر فار ہیومینیٹیرین ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پال اسپیگل نے بتایا کہ اس تحقیق میں استعمال کیے گئے اعداد و شمار کے طریقوں سے تنازع میں شہادتوں کی تعداد کا مکمل تخمینہ لگایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مطالعے میں صرف شدید زخموں سے ہونے والی اموات پر توجہ مرکوز کی گئی تھی، ڈاکٹر پال اسپیگل (جو گزشتہ سال ایک مطالعہ کے شریک مصنف تھے) نے کہا کہ تنازعات کے بالواسطہ اثرات کی وجہ سے ہونے والی اموات، جیسے صحت کی خدمات میں خلل، ناقص پانی اور گندگی اکثر زیادہ اموات کا سبب بنتی ہیں، جس میں تنازع کی وجہ سے پیدا ہونے والے صحت عامہ کے بحران کی وجہ سے ہزاروں اموات کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

فلسطین کے مرکزی ادارہ برائے شماریات (پی سی بی ایس) کا اندازہ ہے کہ سرکاری شہادتوں کی تعداد کے علاوہ تقریباً 11 ہزار فلسطینی لاپتا ہیں اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ’شہید‘ ہوچکے ہیں۔

پی سی بی ایس نے فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تنازع کے آغاز کے بعد سے غزہ کی آبادی میں 6 فیصد کمی آئی ہے، کیونکہ تقریباً ایک لاکھ فلسطینی بھی علاقہ چھوڑ چکے ہیں۔