عمران خان، بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ محفوظ، پیر کو سنایا جائے گا
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی و سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، جو پیر کو سنایا جائے گا۔
ڈان نیوز کے مطابق بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت اڈیالہ جیل راولپنڈی میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے کی۔
ٹرائل کی آخری سماعت سوا 8 گھنٹے جاری رہی، اس موقع پر عمران خان اور بشریٰ بی بی عدالت میں پیش ہوئے۔
190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران وکیل صفائی سلمان صفدر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ یہ سیاسی انتقام کا ریفرنس ہے، اس سے پہلے ہم ہر مقدمے میں بے گناہ اور معصوم ثابت ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسا ریفرنس ہے جس میں رقم حسن نواز کے لیے جا رہی تھی لیکن وہ ملزم نہیں، ریفرنس مخصوص جوڑے کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا۔
وکیل سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم بننے سے قبل ہی عمران خان سوشل ورکر کے طور پر جانے جاتے ہیں، اربوں روپے کی ڈونیشن اکٹھی کرتے ہیں، نیب کا ریفرنس 50 فیصد تک ملک ریاض کے گرد گھومتا ہے لیکن وہ ریفرنس میں شامل تفتیش نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی انتقام اس حد تک اندھا ہو گیا کہ سوشل ورک کو بھی نشانہ بنا دیا گیا، ملزمان کی جیب میں ایک دھیلا تک نہیں گیا، نیب نے ریفرنس میں اپنا مؤقف تبدیل کرلیا ہے۔
وکیل صفائی نے مزید کہا کہ اب نیب نے اپنا مدعا تبدیل کرکے مفادات کے ٹکراؤ کا ریفرنس بنا لیا ہے، اس ریفرنس میں ذاتی فائدہ لیا گیا نہ ریاست کو نقصان ہوا، بلکہ رقم پاکستان آئی۔
ان کا مؤقف تھا کہ بشری بی بی سیاسی خاتون نہیں نہ ہی پبلک آفس ہولڈر ہیں، جتنے پیسے آئے موجود ہیں، خرد برد ہوئی نہیں، ٹرسٹ چل رہا ہے، اس لیے ریفرنس بریت کا ہے سزا کا نہیں۔
وکیل سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیٹل منٹ ایگریمنٹ موجود نہیں، نہ ہی این سی اے کا کوئی گواہ ہے، بشری بی بی کے نام پر کوئی زمین منتقل نہیں ہوئی۔
نیب کے وکیل امجد پرویز کا اس موقع پر کہنا تھا کہ نیب اپنے ریفرنس سے پیچھے نہیں ہٹا، نہ ہی الزام کے بارے مؤقف بدلا، کیا مجبوری تھی کہ کابینہ سے منظوری کے لیے رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کی گئی؟
امجد پرویز کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم رقم کی پاکستان میں غیر قانونی آمد کی منظوری دی، ہمارا یہ مؤقف نہیں کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے ذاتی مالی فائدہ لیا، ہمارا موقف ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے غیر قانونی سیٹلمنٹ کی منظوری دی۔
امجد پرویز نے دلائل دیے کہ پراسیکیوشن نے 2کابینہ اراکین کو بطور گواہ پیش کیا، ملزم کے پاس موقع تھا کہ باقی کسی کابینہ رکن کو اپنے دفاع میں پیش کرتے۔
امجد پرویز کا کہنا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی، فرح گوگی سے تعلق سے انکاری نہیں، ان کا انکار صرف موہڑہ نور اراضی کی ادائیگی سے ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ فرحت بی بی کو ملک ریاض کیوں قیمتی اراضی دے گا؟ فرحت بی بی کو 53 کروڑ مالیت کی زمین نہ وراثت میں ملی اور نہ ہی کسی ریٹرن میں ظاہر کی۔
ملزمان کے وکلا نے حتمی دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ محفوظ کر لیا، جو پیر کو سنایا جائے گا۔
القادر ٹرسٹ کیس کا ٹرائل عمران خان اور بشریٰ بی بی کی حد تک جاری تھا۔
یاد رہے کہ 6 جنوری 2024 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈز کے القادر ٹرسٹ ریفرنس میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت ریفرنس کے 6 شریک ملزمان کو اشتہاری اور مفرور مجرم قرار دے دیا تھا۔
عدالت کی جانب سے ملک ریاض، ان کے بیٹے علی ریاض ملک، فرحت شہزادی، ضیا الاسلام، شہزاد اکبر، زلفی بخاری کو اشتہاری اور مفرور قرار دیا گیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران نیب وکلا نے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے اور سماعت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی تھی۔
نیب کے وکیل امجد پرویز اور ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے دوران سماعت اپنے دلائل میں کہا تھا کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اور پاکستان کے ایسٹ ریکوری یونٹ کے درمیان 6 نومبر 2019 کو معاہدہ خفیہ رکھنے کا معاہدہ طے پایا، اس وقت کی حکومت کے پاس این سی اے اور نجی کمپنی بحریہ ٹاؤن کے درمیان طے پائے معاہدے کو خفیہ رکھنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ نیشنل کرائم ایجنسی نے 29 نومبر کو پہلی قسط نجی کمپنی کے سپریم کورٹ میں لائیبلٹی اکاؤنٹ میں منتقل کی، اس وقت کے وزیراعظم نے کابینہ سے 2 دسمبر 2019 کو معاہدہ خفیہ رکھنے کے نوٹ کی سرسری منظوری لی۔
انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ میں فریز رقم کی پہلی قسط اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کے بعد کابینہ سے اس معاملے کی رولز سے ہٹ کر منظوری لی گئی، کابینہ میٹنگ سے 7 روز قبل میٹنگ ایجنڈے کی سمری تمام ممبران میں تقسیم کی جاتی ہے، اس معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا، رولز اف بزنس 1973کی خلاف ورزی کی گئی۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ پبلک آفس ہولڈر کسی بھی قسم کا کوئی فنڈ، ڈونیشن لے گا تو وہ ریاست پاکستان کی ملکیت تصور ہوگا، نیب آرڈیننس کی دفعہ 92 کے تحت اگر پبلک آفس ہولڈر کسی بھی قسم کی رقم یا فائدہ لے گا تو وہ رشوت تصور ہوگی۔
انہوں نے استدلال کیا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ اور این سی اے میں رقم کے فریز ہونے سے قبل ہی خط و کتابت کا اغاز ہو چکا تھا۔
اس کے ساتھ ہی نیب وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہوگئے تھے، وکلا نے معاملے سے متعلق پاکستانی ہائی کورٹ اور بھارتی سپریم کورٹ کے 2 فیصلوں کی نقول بھی عدالت میں داخل کروا دی تھیں۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سینکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی۔
یہ کیس القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے مبینہ طور پر غیر قانونی حصول اور تعمیر سے متعلق ہے جس میں ملک ریاض اور ان کی فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ذریعے 140 ملین پاؤنڈ کی وصولی میں غیر قانونی فائدہ حاصل کیا گیا۔
عمران خان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے متعلق حقائق چھپا کر کابینہ کو گمراہ کیا، رقم (140 ملین پاؤنڈ) تصفیہ کے معاہدے کے تحت موصول ہوئی تھی اور اسے قومی خزانے میں جمع کیا جانا تھا لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کیا گیا۔