کیا حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے تمام راستے بند ہوچکے ہیں؟
جرمن ناول نگار فرانز کافکا کے بقول، ’یہ صرف ان کی حماقت سے ہوا کہ وہ خود پر اتنا زیادہ اعتماد کرتے ہیں‘۔
آدھی رات گزر چکی تھی کہ جب وزیر داخلہ نے ڈی چوک پر کھڑے ہوکر فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ بغیر گولیاں چلائے دارالحکومت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔
ان کے عقب میں وہ کنٹینر بھی دیکھا جاسکتا تھا جس میں کچھ لمحات قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت سوار تھی، شعلوں کی لپیٹ میں تھا جبکہ گاڑیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جوکہ مظاہرین بھاگتے ہوئے یہیں چھوڑ گئے تھے۔ 26 نومبر کی رات کو رونما ہونے والے واقعات وزیر داخلہ کے دعووں کے برعکس انتہائی مختلف کہانیاں سناتے ہیں۔
یہ بلاشبہ خون سے رنگی سب سے بدترین رات تھی جس کی دارالحکومت کے ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ جب سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کی بڑی تعداد کو مبینہ طور پر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ کم از کم 12 افراد اس واقعے میں جان سے گئے۔ لیکن متزلزل حکومت کی اس ’جیت‘ کے لیے انہیں بھاری قیمت چکانا پڑی۔ طاقت کا استعمال کرکے شاید وہ مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں لیکن اس خونریز واقعے نے ملک کو مزید غیرمستحکم کیا ہے اور افراتفری کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے۔
اس واقعے نے پی ٹی آئی کی خرابیوں کو بھی آشکار کیا جوکہ اب مکمل انتشار کی حالت میں نظر آتی ہے۔ عوام کی وسیع تر حمایت کے باوجود پارٹی اندرونی طور پر تقسیم اور انتشار کا شکار ہے۔ لانگ مارچ کا پُرتشدد اختتام اور بڑی تعداد میں کارکنان کی گرفتاری سے بھی پی ٹی آئی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ تاہم دونوں فریقین کو ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ حکومت اس اقدام سے عوام کا اعتماد کھو چکی ہے۔
انتظامیہ کی تردید کے باوجود چند مصدقہ رپورٹس میں جاں بحق افراد کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے بھی کریک ڈاؤن میں ہلاکتوں کا اعتراف کیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے بھی جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں۔
ورچوئل سنسرشپ کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کی وجہ سے اس سے متعلق خبروں کا مکمل بلیک آؤٹ ہے۔ پابندیوں نے میڈیا کو مجبور کیا کہ وہ اس واقعے کے حوالے سے صرف حکومتی بیانیے کا پروپیگنڈا کرے۔ ان تمام عوامل نے آمرانہ دور میں ہونے والی بندشوں کی یاد تازہ کردی ہے۔
سینئر صحافی اور وی لاگر مطیع اللہ جان جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق تحقیقات کررہے تھے، انہیں منشیات رکھنے کے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی گرفتاری نے ظاہر کیا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ 26 نومبر کے واقعے کی رپورٹنگ ہو۔ بعدازاں انہیں ضمانت مل گئی لیکن ان کی گرفتاری نے ان افراد کے لیے تنبیہ کا کام کیا جو اس معاملے کو کریدنا چاہتے تھے۔
سوشل میڈیا کے دور میں آوازوں کو دبانا آسان نہیں، حالانکہ حکومت ڈیجیٹل مواد پر پابندیاں لگانے کے لیے فائروال بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ دوسری جانب سائبرکرائم قانون کو دوبارہ نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے تحت سوشل میڈیا کے گرد حکومت کا شکنجہ تنگ ہوگا۔ لیکن حقائق چھپانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
26 نومبر کے اقدامات کو چھپانے کی کوششوں میں حکومت نے الیکٹرونک میڈیا پر ایک پروپیگنڈا مہم کا آغاز کردیا ہے جس میں پی ٹی آئی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جارہا ہے جس نے افغان تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کی مدد سے داراحکومت پر حملہ کیا۔ اس طرح کی مذموم مہمات سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے۔
اس پورے منظرنامے میں پی ٹی آئی کی محاذ آرائی کی سیاست اور دارالحکومت کے ریڈ زون میں دھاوا بولنے کے منصوبے کو درست قرار دیا جاسکتا ہے، نہ ہی اپوزیشن پارٹی کو دارالحکومت میں ریلی نکالنے کی اجازت دینے سے حکومتی انکار کو سراہا جاسکتا ہے جس کے لیے انہوں نے موٹروے اور ہائی ویز کو بند کیا تاکہ مظاہرین آگے نہ بڑھ سکیں۔ اس فیصلے نے پی ٹی آئی کو خلاف ورزی کرنے پر اکسایا۔ جمہوری حقوق پر پابندیاں لگانے سے صرف انتہا پسندی جنم لیتی ہے جس کے نتائج پُرتشدد جھڑپوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
مبینہ طور پر نہتے مظاہرین کی اموات کے لیے حکومت کا کوئی بھی جواز قابلِ قبول نہیں۔ اس سے توازن مزید بگڑ گیا ہے۔ مظاہرے ختم ہوچکے ہیں لیکن 26 نومبر کی رات رونما ہونے والے واقعات کے طویل مدتی اثرات ہوں گے جو ملکی سیاسی منظرنامے میں ظاہر ہوں گے۔ اس سے بھی تشویش ناک یہ ہے کہ چند وفاقی وزرا کی جانب سے دیے گئے بیانات میں مظاہروں کو نسلی رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ شاید کسی حد تک درست بھی ہو کیونکہ مظاہرین کی بڑی تعداد کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا لیکن پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے بھی افراد نے مظاہرے میں شرکت کی تھی۔ مظاہرے کو تعصب کا رنگ دینا انتہائی سنگین غلطی ہے۔
حکومت کے حالیہ اقدامات کا دفاع کرنے والے یہ قبول کرنے سے قاصر ہیں کہ فروری میں مینڈیٹ کی چوری اور ان کے غیرجمہوری اقدامات جیسے آئین کی پامالی اور سینئر اپوزیشن رہنماؤں کو قید میں رکھنے نے عوام میں حکومت کے لیے عدم اعتماد کو ہوا دی ہے۔ خیبرپختونخوا کے لیے سینیٹ انتخابات ابھی تک نہیں ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہ صوبہ جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، ایوانِ بالا میں نمائندگی سے محروم ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اکثریتی فیصلہ دیے جانے کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں۔
حکومت کی ہٹ دھرمی اور جمہوری ماحول تنگ کرنے کی وجہ سے سیاسی ماحول پُرتشدد ہوتا ہے جوکہ ملکی سیاسی نظام کے لیے سنگین خطرہ بن جاتا ہے۔ ہم نے ماضی میں دارالحکومت میں مظاہرے ہوتے دیکھے ہیں لیکن ریاست نے کبھی ان کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان تصادم کی سنگین صورت حال نے مذاکرات کے وہ تمام راستے بند کردیے ہیں جو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے اور تناؤ پیدا کرنے والے مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے تھے۔
سب سے خطرناک یہ بات ہے کہ حکومت خیبرپختونخوا میں گورنر راج اور پی ٹی آئی پر پابندی لگانے پر غور کررہی ہے۔ یہ دونوں اقدامات ہی اپنے طور پر ملکی اتحاد اور سیاسی استحکام کے لیے تباہ کُن ثابت ہوسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس طرح کے اقدامات کی تجویز دینے سے بھی تنازع بڑھ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے مظاہرے کی ناکامی پر خوش ہونے کے بجائے حکومت کو سیاسی گرما گرمی کم کرنے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔
حکومت کی جانب سے تشدد کے راستے اختیار کرنے سے صورت حال مزید خراب ہوگی۔ وقت ہے کہ پی ٹی آئی تصادم کی اپنی پالیسیز پر نظرثانی کرے اور مذاکرات کی میز پر آئے۔ تشدد کی سیاست سے محض غیرجمہوری قوتیں مضبوط ہوں گی۔ موجودہ حالات کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔