پاکستان

آخری کارڈ اب بھی میرے پاس ہے جسے ابھی استعمال نہیں کروں گا، عمران خان

اسلام آباد میں اموات کے معاملے پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ سب سے پہلے ایف آئی آر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے خلاف درج کرائیں، علیمہ خان کی سابق وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک آخری کارڈ اب بھی ان کے پاس ہے جسے وہ ابھی استعمال نہیں کریں گے۔

بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کل ہمیں عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور آج جب ہم یہاں آئے تو 2 کلومیٹر دور ایک ٹرک کھڑا تھا، دائیں اور بائیں سے گاڑیاں جا رہی تھیں، ہماری گاڑی کو وہاں روک دیا گیا تھا، ہمیں گزرنے نہیں دے رہے تھے، وہاں سے جج صاحب جا رہے تھے اپنے پروٹوکول کےساتھ، جب انہوں نے ٹرک سائیڈ پر کیا تو ہم ججوں کے پروٹوکول کے ساتھ اپنی گاڑی لگا کر یہاں تک پہنچے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی صحت کے حوالے سے کافی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں، جب ہم نے انہیں یہ بتایا تو اس پر سابق وزیراعظم مسکرائے اور کہا کہ کیا باتیں کر رہے ہو، میری صحت بالکل ٹھیک ہے، میں ورزش بھی کر رہا تھا، لیکن انہوں نے مجھے 40 سے 50 گھنٹوں کے لیے بند کر دیا تھا، لیکن اخبار اور پی ٹی وی تک رسائی بھی بند کردی تھی، انہیں 23 نومبر سے کل صحافیوں، وکلا کے جانے تک کوئی معلومات نہیں مل رہی تھی۔

علیمہ خان نے بتایا کہ ہم نے عمران خان کو ہونے والی کافی چیزوں کے بارے میں بتایا، جو سانحہ ہوا جسے ہم اسلام آباد قتل عام کہتے ہیں اس کے بارے میں معلومات دیں، تفصیلات دیں تو اس کے بارے میں عمران خان کافی صدمے میں تھے، وہ بار بار پوچھ رہے تھے کہ کیا بات کر رہے ہو، ان کو بتایا کہ 10 سے 12 اموات کا فگر آرہا ہے، کیونکہ لوگ لاپتا ہیں یا گرفتار ہیں، یہ واضح نہیں ہے، ہمیں بتایا جا رہا ہے 5، 5 ہزار لوگوں کے فگر کا، لوگ اپنے رشتے داروں کو جیلوں میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں، لاشیں لاپتا ہیں۔

علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے کہا کہ ہسپتالوں میں جائیں، ہم نے کہا کہ اگر لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں تو انہیں اٹھالیا جاتا ہے، انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں، عمران خان نے وہاں موجود وکلا کو کہا کہ سب سے پہلے ایف آئی آر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے خلاف درج کرائیں۔

علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد میں جو کارروائی کی گئی، وہ سانحہ لال مسجد سے بھی بڑا سانحہ انہوں نے کردیا ہے، 71 میں یحیٰ خان نے کیا، اس کےبعد اکبر بگٹی کے ساتھ سانحہ کیا گیا، آپ سمجھتے ہیں کہ بندہ ختم کردیں تو چین آجائے گا، اس چیز کو بلوچستان میں آج تک بھولا نہیں گیا، اس طرح کی کارروائی سے غصہ، رنجشیں ختم نہیں ہوتیں، اس سے غصہ بڑھے گا، اس وقت غصہ بہت زیادہ بڑھے گا۔

بقول علیمہ خان، عمران خان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے بعد لوگ صدمے اور خوف میں تھے، 8 فروری کے انتخاب کے بعد ووٹ سے لوگوں کو پتا چلا کہ جمہوریت میں ہمارا حق ہے، جب لوگوں کا حق چھینا گیا تو اس پر لوگوں کو غصہ ہے، اب کیے جانے والے ظلم پر غصہ ہے، بھول جائیں کہ لوگ ظلم سہیں گے، وہ ظلم کو کبھی نہیں بھولیں گے۔

علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ ایک آخری کارڈ ہے وہ میرے پاس ہے، اس کا کسی کو نہ بتاؤں گا، نہ پتا چلے گا لیکن وہ میرے پاس ہے، وہ ابھی استعمال نہیں ہوگا۔

عمران خان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے ابھی عدالتوں میں جانا ہے، سپریم کورٹ میں جانا ہے، آپ نے اپنے غیر مسلح لوگوں کو اسنائپرز کے ساتھ مارا ہے، عالمی اداروں کے پاس انسانی حقوق کی پامالی کی رپورٹس، اس طرح کی چیز دنیا میں نہیں دیکھی گئی، آپ چھپا نہیں سکیں گے، یہ سب کچھ باہر آئے گا، ہم اس کی پیروی کریں گے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لوگوں کو ہدایت کروں گا کہ اس کو مقامی سطح پر اور عالمی سطح پر بھرپور طرح سے اجاگر کریں۔

علیمہ خان نے بتایا کہ احتجاج کے دوران وہ لوگوں سے کہہ رہی تھیں کہ پیچھے ہٹ جائیں، گولیاں چل رہی ہیں لیکن لوگ آگے جا رہے تھے، وہ لوگوں کو روکنے میں ناکام رہیں، بشری بی بی نے لیڈ کیا، باقی قیادت کو بھی آگے آنا چاہیے تھا۔

عمران خان کی رہائی تمام معاملے کے حل کے لیے جادو کی کنجی ہے، علی محمد خان

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علی محمد خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی اس تمام معاملے کے حل کے لیے جادو کی کنجی ہے، عمران خان نے کہا کہ وہ باہر نکل کر انتقام نہیں لیں گے، ڈی چوک یا سنگجانی ہمارا اندر کا معاملہ تھا ہمیں کوئی نہ بتائے، ہمارا سوال ہے کہ گولی کیوں چلائی۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے یہ پی ٹی آئی کارکنان نہیں پاکستان کے شہری تھے، شہیدوں کو یقین تھا کہ انھیں گرفتار یا لاٹھی چارج ہو گا، گولی نہیں ماری جائے گی، اس معاملہ پر جوڈیشل کمیشن بنے اور اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔

یاسمین راشد کا چیف جسٹس کو خط، ڈی چوک واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کی اپیل

دھرنوں میں اہلکاروں کو شہید اور زخمی کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں، وزیراعظم

ڈی چوک احتجاج: کچھ پتا نہیں کس نے کہاں سے فائرنگ کی، پارلیمانی کمیشن بننا چاہیے، رانا ثنا اللہ