پاکستان

یاسمین راشد کا چیف جسٹس کو خط، ڈی چوک واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کی اپیل

اسلام آباد میں پاکستان کے مستقبل کی نسل کا قتل عام کیا گیا، اگر حقائق سامنے نہ لائے گئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، رہنما پی ٹی آئی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے ڈی چوک پر پیش آنے والے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کے لیے چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق جیل سے لکھے گئے خط میں ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ 26 نومبر کو پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی، اسلام آباد میں پاکستان کے مستقبل کی نسل کا قتل عام کیا گیا، بطور ماں اس سانحے پر ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنی 74 سالہ زندگی میں آج تک کبھی خود کو اتنا بے یارو مددگار نہیں پایا، پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے بدترین دورسے گزر رہا ہے، ہم بنیادی حقوق کے تحفظ کےلیے چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہے ہیں، وہ نیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ 26 نومبر کو ڈی چوک پر جو ہوا اسکی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، اگر حقائق سامنے نہ لائے گئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، افسوسناک واقعے کے پیچھے ملزمان کی نشاندہی کر کے انہیں سزا دی جائے۔

قبل ازیں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ سیکڑوں اموات کی بات کرنے والوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں، ڈی چوک میں ہمارے 12 کارکن شہید ہوئے، ہم جمہوری جماعت ہیں اور غیر ذمے دارانہ اعداد و شمار نہیں دیتے، ہم نے 12 افراد کے مرنے کا ’آفیشل فگر‘ دیا ہے، اس پر ہم قائم ہیں۔

یاد رہے کہ عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کے لیے دی جانے والی فائنل کال کے بعد بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں اسلام آباد کے لیے احتجاجی مارچ کیا گیا تھا، تاہم 26 نومبر کو مارچ کے شرکا اور پولیس میں جھڑپ کے بعد پی ٹی آئی کارکن وفاقی دارالحکومت سے ’فرار‘ ہوگئے تھے، اس کے بعد علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے متضاد اعداد و شمار پیش کیے تھے۔

اسلام آباد میں احتجاجی مارچ ختم ہونے کے بعد متعدد پی ٹی آئی رہنمائوں نے کارکنوں کی اموات سے متعلق متضاد دعوے کیے تھے، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے پریس کانفرنس میں سیکڑوں کارکنوں، لطیف کھوسہ نے 278 کارکنان، سلمان اکرم راجا نے 20، شعیب شاہین نے 08 کارکنوں کی اموات کے اعداد و شمار مختلف میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیے تھے۔

وفاقی حکومت، اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے حکام نے کہا تھا کہ مظاہرین نے سیکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی، لاٹھیوں، ڈنڈوں اور برچھیوں سے نشانہ بنایا، متعدد مقامات پر پرتشدد احتجاج میں پولیس کے 170 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جو ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔