پاکستان

ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث افراد کی نشاندہی کیلئے ٹاسک فورس تشکیل

چیئرمین پی ٹی اے وزیراعظم کی تشکیل کردہ جوائنٹ ٹاسک فورس کی سربراہی کریں گے جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ریاست کے خلاف مذموم پروپیگنڈے میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لیے 10 رکنی مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دینے کی منظوری دے دی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) جوائنٹ ٹاسک فورس کی سربراہی کریں گے۔

فورس میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے نمائندے، جوائنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے۔

اس کے علاوہ جوائنٹ ٹاسک فورس میں جوائنٹ سیکریٹری داخلہ، جوائنٹ سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات، ڈائریکٹر سائبر ونگ ایف آئی اے، ڈائریکٹر آئی ٹی وزارت جوائنٹ ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے۔

جوائنٹ ٹاسک فورس کے لیے ٹی او آرز بھی طے کرلیے گئے، ٹی او آر کے مطابق ٹاسک فورس حالیہ احتجاج کے پیش نظر جھوٹا پروپیگینڈا کرنے والے عناصر کی نشاندہی کرے گی۔

ٹاسک فورس 10 دنوں میں اپنی سفارشات مرتب کرکے حکومت کو پیش کرے گی، ٹاسک فورس بدنیتی پر مبنی مہم چلانے والے ملک کے اندر اور باہر عناصر کی نشاندہی کرے گی۔

اس کے علاوہ بدنیتی پرمبنی مہم چلانے والوں کےخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، ٹاسک فورس پالیسی میں خامیاں پر کرنے کے لیے اقدامات تجویز کرے گی، ٹاسک فورس جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے والے عناصر کی شناخت کرے گی۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے مستقبل میں شرپسندوں کی اسلام آباد میں آمد کو روکنے، گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت میں انتشار و فساد پھیلانے والوں کی نشاندہی، ان کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں بھی ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی۔

وزیر اعظم آفس سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت امن و امان کی صورتحال سے متعلق اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا، اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ وزیرِ اعظم نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں انتشار و فساد پھیلانے والوں کی نشاندہی اور ان کے خلاف مؤثر کارروائی کے لیے وزیرِ داخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کی۔

اعلامیے کے مطابق وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیرِ اقتصادی امور احد خان چیمہ، وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ اور سیکیورٹی فورسز کے نمائندے بھی اس ٹاسک فورس میں شامل ہوں گے۔

اس میں کہا گیا تھا کہ تشکیل کردہ ٹاسک فورس یہ یقینی بنائے گی کہ 24 نومبر کو انتشار پھیلانے میں ملوث مسلح افراد اور پر تشدد واقعات میں ملوث افراد کی نشاندہی کرے تاکہ انہیں قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم کا ملک میں آئندہ کسی بھی قسم کے انتشار و فساد کی کوشش کو روکنے کے لیے وفاقی انسداد فسادات (رائٹس کنٹرول فورس) بنانے کا فیصلہ کیاگیا۔

اس میں کہا گیاکہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ انسداد فسادات فورس کو بین الاقوامی معیار کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور سازو سامان سے لیس کیا جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس کے دوران وفاقی فورینزک لیب کے قیام کی منظوری دی گئی، وفاقی فورینزک لیب میں ایسے واقعات کی تحقیقات و شواہد اکٹھا کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنایا جائے گا۔

اس میں بتایا گیا تھا کہ اجلاس میں اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بھی فیصلہ کیاگیا، اس کے علاوہ اجلاس میں وفاقی پراسیکیوشن سروس کو مضبوط کرنے اور افرادی قوت بڑھانے کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحٰق ڈار، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزرا خواجہ آصف، احد خان چیمہ، اعظم نذیر تارڑ، عطا تارڑ، مشیر وزیرِ اعظم رانا ثنا اللہ، وزیرِ اعلی پنجاب مریم نواز شریف، سینئیر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی تھی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ خیبرپختونخوا سے آنے والے جتھے نے اسلام آباد میں تباہی پھیلائی، وہ ایک سیاسی جماعت نہیں، فتنہ ہے اور تخریب کاری کا ایک جھتہ اور گروہ ہے، اس کے لیے اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ احتجاج اور دھرنوں سے ملک کو یومیہ 900 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، 2014 میں 126 دن معشیت کی تباہی کی گئی۔

ان کا کہنا تھاکہ شرپسندوں کے حملوں میں سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچا، وفاق کے خلاف یہ چوتھی لشکر کشی تھی، ایسے ناپاک عزائم کا 2014 سے پہلےکوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

شہباز شریف نے کہا کہ دنیا کے سامنے جو تماشا لگایا گیا، اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا، پی ٹی آئی کے احتجاج کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے، یہ سب الگ تھلگ نہیں ہو رہا۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ دودھ، شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، لیکن بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں، مہنگائی کم ہو رہی ہے، اسٹاک مارکیٹ ایک لاکھ کی سطح سے اوپر گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ دشمنان پاکستان اگر اس صورتحال کو خراب کرنا چاہتے ہیں تو کیا ہم انہیں ایسا کرنے دیں، ہمیں ہر چیز وہ کرنی چاہیے جس سے ہم دشمنان پاکستان کے ہاتھ نہ صرف روکیں بلکہ ان کو توڑ دیں۔

واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کی منظوری کے لیے پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘

گرفتار شرپسندوں کا تیزی سے ٹرائل، سخت سزائیں دیکر مثال قائم کریں گے، عطا تارڑ

اسلام آباد کو شرپسندوں سے محفوظ رکھنے کیلئے ردالفساد فورس قائم کرنے کا فیصلہ

پی ٹی آئی کا احتجاج کے دوران کارکنوں کی مبینہ اموات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ