نقطہ نظر

اداریہ: ’حکمران اتحاد نے مستقبل میں مظاہروں سے نمٹنے کا معیار طے کردیا ہے‘

کل پی ٹی آئی مظاہرین کی جگہ حکمران اتحاد کی جماعتیں خود ہوسکتی ہیں اور انہیں ریاست کی اسی سختی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک بار پھر ناتجربہ کار سیاست کی قیمت چکانی پڑی ہے۔ بہ ظاہر صورت حال اس نہج کو نہ پہنچتی اگر پہلی بار مظاہرے کی قیادت کرنے والی بشریٰ بی بی مظاہرین پر ڈی چوک جانے کے لیے اصرار کرنے کے بجائے اپنے آس پاس کے لوگوں کا مشورہ مان لیتیں۔

پی ٹی آئی کی قیادت نے بزدلانہ طور پر فرار کا راستہ اختیار کیا جس نے کارکنان کے حوصلے پست کیے۔ کارکنان کی یہ مایوسی پارٹی کی جانب سے دارالحکومت پر مارچ کرنے کا فیصلہ کرتے وقت انتظامات اور ممکنہ چیلنجز کے لیے تیاری میں ناکامی کا نتیجہ ہے۔

اس سے قبل بھی اس بات کی نشاندہی کی جاچکی ہے کہ اسلام آباد کی جانب مارچ کو ’ڈو اور ڈائی‘ کی صورت حال میں تبدیل کرنا پی ٹی آئی کی غلطی تھی اور اگر یہ مارچ پارٹی کی توقعات پر پورا نہیں اترا تو اس کی قیادت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اگرچہ اس تین روزہ مارچ میں پارٹی کی ساکھ کچھ حد تک مضبوط ہوئی لیکن ریاست کی جانب سے بھرپور طاقت کے استعمال نے انہیں پسپا کردیا۔

تاہم حکومت کو اسے اپنی کامیابی سمجھ کر خوش نہیں ہونا چاہیے، نہ اسے یہ سمجھ کر پی ٹی آئی اور اس کے لیڈران کے خلاف طاقت کے استعمال کے رجحان کو بڑھاوا دینا چاہیے کہ اب انہیں مخالفین پر غلبہ حاصل ہوچکا ہے۔ اب بہت ہوچکا ہے۔ عوام میں ریاستی پالیسیز اور خود ریاست کے خلاف پائے جانے والے عدم اعتماد کو کم سمجھنا کوتاہی ہوگی۔

پی ٹی آئی مظاہرین کے خلاف حکام کے سخت اقدامات نے قومی اتحاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کو سخت اقدامات کے ذریعے دبانے کی کوششوں سے وقتی کامیابی تو مل سکتی ہے لیکن اس کے دیرپا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکمران جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مستقبل میں مظاہروں سے کیسے نمٹا جائے گا، اس کے لیے انہوں نے ایک معیار طے کردیا ہے۔

مظاہرین سے نمٹنے کی اس نئی پالیسی سے آج تو وہ فائدہ حاصل کررہے ہیں لیکن کل مستقبل میں ان مظاہرین کی جگہ وہ خود ہوسکتے ہیں اور انہیں ریاست کے اسی سخت رویے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک کو درپیش بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس تنازع کے دونوں فریقین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی حالیہ اقدامات جیسے جبر، سینسرشپ، تشدد اور تواتر کے ساتھ مظاہروں سے ملک کی صورت حال خراب تر ہوگی اور یہ مزید کمزور ہوگا۔

منصفانہ طور پر سیاسی قواعد کی پیروی نہیں کی جائے گی تو سیاسی عمل میں عوام کی شرکت کا دائرہ تنگ ہوتا جائے گا اور یہ تنگ ہونے کی وجہ سے بلآخر تمام سیاسی جماعتیں عوام سے لاتعلق ہوجائیں گی۔ سیاسی مخالفین کو ’کچلنے‘ کا یہ جنون گزشتہ دہائی کے دوران بےقابو ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک ایک تاریک ڈگر پر چل پڑا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ اس عرصے کے دوران جمہوری اقدار کو بار بار سبوتاژ کیا گیا جوکہ اس نئے رجحان کو روک کر تبدیل کرنے کا ایک موقع تھا۔

اب صورت حال کو ٹھیک کرنے کا اختیار مٹھی بھر لوگوں کے پاس ہے۔ قوم ان کے رحم و کرم پر ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ