سیکیورٹی خدشات والے علاقوں میں وائی فائی، موبائل ڈیٹا بندش کا تعین کیا جائے گا، وزارت داخلہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عمران خان کی رہائی اور مطالبات کی منظوری کے لیے کل (24 نومبر) ہونے والے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں داخلی اور خارجی راستوں سیل ہیں جبکہ وزارت داخلہ نے ’سیکیورٹی خدشات‘ والے علاقوں میں موبائل ڈیٹا، وائی فائی سروس بندش کا عندیہ بھی دے دیا۔
ڈان نیوز کے مطابق احتجاج کے باعث پی ٹی آئی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے، ڈی چوک پر رینجرز، پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے دو روز قبل کہا تھا کہ احتجاج سے نمٹنے کے لیے حکومت متعدد سیکیورٹی اور حفاظتی اقدامات کررہی ہے، بیلا روس کے وفد کی آمد پر اسلام آباد میں موبائل سروس بند رہے گی۔
آج ترجمان وزارت داخلہ کے انٹرنیٹ سروسز کے حوالے سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیکیورٹی خدشات کے حامل علاقوں میں موبائل ڈیٹا اور وائی فائی کی بندش کا تعین کیا جائے گا جبکہ ملک کے باقی حصوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معمول کے مطابق رہے گی۔
تاہم ڈان کے نمائندے نے بتایا ہے کہ اسلام آباد کے ایف 11 مرکز میں انٹرنیٹ اور وائی فائے سروسز میں تعطل ہے۔
اسلام آباد میں فیض آباد انٹرچینج، اڈیالہ جیل جانے والی سڑکیں، ایران ایونیو، مارگلہ روڈ اور مری روڈ فیض آباد پر کنٹینر لگا کر بند کردی گئی ہیں اور ریڈ زون کو مکمل سیل کردیا گیا۔
علاوہ ازیں، شہر اقتدار میں پبلک ٹرانسپورٹ بند اور ہاسٹلز و گیسٹ ہاؤس خالی کروالیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے احتجاج کی وجہ سے گرین لائن، بلیو لائن اور اورنج لائن سروس کو بھی بند کر دیا گیا ہے، پولیس نے راولپنڈی میں مری روڈ، مال روڈ اور راول روڈ پر فلیگ مارچ بھی کیا۔
گرفتاریاں
پاکستان تحریک انصاف کے کے سرگرم کارکنان کو حراست میں لینے کے لیے پولیس کے چھاپے جاری ہیں، سرگرم پی ٹی آئی کارکنان کی لسٹیں پولیس کو فراہم کر دی گئیں ہیں، راولپنڈی سے 110 سے زائد کارکنان کو حراست میں لینے کے بعد مختلف تھانوں میں منتقل کردیا گیا جبکہ ضلعی انتظامیہ نے ضلع بھر میں دفعہ 144 بھی نافذ کر رکھی ہے۔
قبل ازیں اسلام آباد میں سابق ایم این اے نفیسہ خٹک کو گرفتار کرکے تھانہ ویمن منتقل کیا گیا تھا، تاہم انسدادِدہشت گردی عدالت اسلام آباد کے جج طاہر عباس سپرا نے نفیسہ خٹک کو مقدمہ سے ڈسچارج کر دیا تھا۔
اسی طرح شیخوپورہ میں سابق صوبائی وزیر قانون ایم این اے خرم شہزاد ورک کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا۔
ذرائع کے مطابق ان کے بھتیجے اور دیگر 6 رشتہ داروں کو گرفتار کیا گیا، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پی ٹی آئی نائب صدر پنجاب اکمل خان باری اور چوہدری حبیب الرحمٰن کو بھی گرفتار کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق لاہور کے علاقوں شاہدرہ، ملت پارک،گرین ٹاؤن، سول لائنز کے علاقوں میں چھاپے مار کر متعدد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا، یہ گرفتاریاں 24 نومبر کے احتجاج کی کال پر نقص امن کے خدشات پر کی گئی ہیں۔
مختلف علاقوں میں پولیس کارروائیوں کی کلوز سرکٹ فوٹیجز (سی سی ٹی وی) بھی سامنے آئیں ہیں، ناکہ بندی کرکے بھی فہرستوں کے مطابق متحرک کارکنوں کی شناخت کی گئی، حراست میں لیے جانے والے کارکنوں سے شورٹی بانڈز لے کر رہا بھی کیا گیا جب کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں سے امن و امان خراب نہ کرنے کے بیان حلفی بھی لیے گئے ہیں۔
نیکٹا کا الرٹ جاری
قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) نے پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد میں کل ہونے والے احتجاج پر دہشت گردی کے خطرے کا الرٹ بھی جاری کیا ہے۔
نیکٹا کے اعلامیے کے مطابق اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران فتنہ الخوارج کی دہشت گردی کا خطرہ ہے، دہشت گرد تنظیم کے ممبران پاکستان کے بڑے شہروں میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، حملے کی غرض سے کئی حملہ آور پہلے سے ہی پاک-افغان سرحد پار کر چکے ہیں، حملہ آور 19 اور 20 نومبر کی رات مختلف شہروں میں داخل ہوئے۔
دریں اثنا، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر محکمہ داخلہ نے ہائی الرٹ جاری کیا ہے، اعلامیے میں کہا گیا کہ دہشت گرد عوامی جلسے جلوسوں کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں،کسی بھی قسم کی سماجی یا سیاسی سرگرمی کے لیے عوام الناس کے اجتماع سے گریز کیا جائے، خود بھی گھروں میں رہیں اور اپنے پیاروں کو بھی گھروں میں محفوظ رکھیں۔
ادھر پی ٹی آئی کے پشاور میں ہونے والے اہم اجلاس میں کل ہرصورت احتجاج اور ڈی چوک پر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پارٹی رہنماؤں نے تمام رکاوٹیں پار کرکے منزل پر پہنچنے کے عزم کا اظہار کیا، اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیاگیا کہ اس بار کامیابی کے بغیر واپسی نہیں ہوگی۔
پنجاب میں دفعہ 144 نافذ
پنجاب میں بھی اسلام آباد میں احتجاج کے لیے جانے والے پی ٹی آئی کارکنوں کو روکنے کے لیے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں، احتجاج کے پیش نظر صوبائی دارالحکومت لاہور اور گوجرانوالہ سمیت بڑے شہروں میں داخلی خارجی راستے سیل کر دیے گئے ہیں، لاہور میں داخلی اور خارجی راستے بند کرکے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
اسی طرح 6 موٹرویز کو تاحکم ثانی بند کیا گیا ہے، جبکہ صوبے میں 3 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ ہے، جس کے تحت جلسے، جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں پر پابندی ہے جبکہ اٹک خورد چیک پوسٹ پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کرکے مال بردار گاڑیوں کی پکڑدھکڑ جاری ہے۔
دریائے جہلم کے تینوں پلوں پر کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں اور جہلم سے پنجاب جانے والے تینوں راستے بند ہیں جبکہ اندرون شہر رابطہ سڑکیں بھی بند کی گئی ہیں۔
سندھ کی صورتحال
ادھر سندھ کے شہر شکارپور میں پولیس نے حلیم عادل شیخ کی قیادت میں اسلام آباد جانے والے تحریک انصاف کے قافلے میں موجود متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا جبکہ پولیس نے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔
شکارپور پولیس نے پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے پتھراؤ کا دعویٰ بھی کیا، کشیدگی کے باعث انڈس ہائی وے بلاک ہوگئی۔
ہر صورت میں ڈی چوک پہنچنا ہے، علی امین گنڈاپور
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے احتجاج سے متعلق خصوصی ویڈیو پیغام میں کہا کہ عمران خان کو بے گناہ قید کیا گیا، وہ پاکستان اور آئندہ نسلوں کی جنگ لڑ رہے ہیں،کل کے دن سب کو دھرنے کے لیے ڈی چوک پہنچنا ہے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی کے ساتھ ظلم اور فسطائیت جاری ہے، ہم سب پر فرض ہے کہ اس وقت جو ہو رہا ہے، اس کے خلاف نکلیں، جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے اس وقت تک نہیں جائیں گے، ہمارا مطالبہ سب سے پہلے عمران خان ،لیڈر شپ اور کارکنوں کی رہائی ہے اور اس کے بعد ہمارے مینڈیٹ کی واپسی ائین کا تحفظ مطالبات میں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکم کے مطابق جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہم واپس نہیں جائیں گے، ہم حق پر اور سچ پر ہیں جس کے لیے ہر حد تک جائیں گے، یہ جنگ ہم جیتیں گے جہاں جہاں بھی احتجاج ہورہا ہے بھر پور شرکت کرنی ہے، پاکستان کے تمام لوگوں نے ایک ہی منزل ڈی چوک پر ہر صورت میں پہنچنا ہے، جتنی بھی رکاوٹیں ہیں اسکا مقابلہ کرنا ہے، ہم پر شیلنگ، اسٹریٹ فائر جو بھی نقصان ہوتا ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔
کوئی بات چیت یا مذاکرات نہیں ہورہے، عطا تارڑ
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے آج پریس کانفرنس کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ کسی بھی سطح پر کوئی بات چیت یا مذاکرات کرنے کی تردید کی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کبھی یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ بات کریں گے، کبھی کہتے ہیں حکومت کے علاوہ بات کریں گے، اس حوالے سے آنے والی تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔‘
عدالتی حکم کے پابند ہیں، محسن نقوی
ادھر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی آج دو ٹوک انداز میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کو کہا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے پابند ہیں اور دارالحکومت میں کسی جلوس یا دھرنے کی اجازت ممکن نہیں۔
21 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہر کی انتظامیہ کو قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دینے کا حکم دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کی تھی۔
یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے، سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے واضح کیا تھا کہ احتجاج میں رہنماؤں کی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ دیا جائے گا۔
بشریٰ بی بی نے پارٹی رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ احتجاج کے دوران گرفتاریوں سے بچیں جبکہ احتجاج کے لیے مؤثر تحریک اور وفاداری کی بنیاد پر ہی پی ٹی آئی میں ان کے مسقبل کا فیصلہ ہوگا۔
انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ کسی بھی رہنما کی پارٹی کے ساتھ دیرینہ وابستگی بھی انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کی ضمانت نہیں دے گی اگر وہ احتجاج کے دوران توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج آپ لوگوں کی پی ٹی آئی سے وفاداری کا امتحان ہے، ہمارا ہدف عمران خان کی رہائی کو یقینی بنانا ہے اور ہم ان کے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں آئیں گے۔