پاکستان

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا احتجاج کی نگرانی کیلئے ریسکیو 1122 کے ہیڈکوارٹرز میں دفتر قائم

اس اقدام کا مقصد 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کے لیے ایم پی ایز اور ایم این ایز کی قیادت میں جانے والے جلوسوں کی نگرانی کرنا ہے، ذرائع

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سوشل میڈیا ٹیم نے خیبر پختونخوا میں ریسکیو 1122 کے پشاور میں واقع ہیڈکوارٹرز میں اپنا دفتر قائم کرلیا۔ دفتر کے قیام کے لیے مبینہ طور پر چیف سیکریٹری کی ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد 24 نومبر کو اسلام آباد میں احتجاج کے لیے ایم پی ایز اور ایم این ایز کی قیادت میں جانے والے جلوسوں کی نگرانی کرنا ہے۔

ریسکیو 1122 کے حکام کی جانب سے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو دفتر کے قیام کے لیے 3 کمرے اور کانفرنس روم فراہم کیے گئے ہیں۔ 25 رکنی سوشل میڈیا ٹیم کے پاس ڈرونز، لیپ ٹاپس اور جدید مواصلاتی آلات بھی موجود ہیں۔

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی قیادت نعمان افضل کر رہے ہیں جو مبینہ طور پر اس سے قبل سابق وزیر اعظم، بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی سوشل میڈیا ٹیم کی سربراہی کرتے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی اس سوشل میڈیا ٹیم کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ پارٹی کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کی جانب سے احتجاج کے لیے اپنے ساتھ لائے جانے والے مظاہرین کی نگرانی کی جائے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بشریٰ بی بی نے بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر پارٹی کے ہر ایم این اے کو 10 ہزار افراد اور ہر ایم پی اے کو 5 ہزار افراد لانے کی ہدایت کی تھی اور کہا تھا کہ تمام ارکان اپنے اپنے جلوسوں کی وڈیوز بناکر پارٹی کے ساتھ شیئر کریں گے۔

چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا ندیم اسلم چوہدری نے جمعرات کے روز صوبائی حکومت کے افسران کو ہدایات جاری کی تھیں کہ ’کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے سرکاری وسائل، اثاثوں اور اختیارات کے غلط استعمال کے لیے آنے والے دباؤ پر مزاحمت کی جائے۔‘

انہوں نے سرکاری افسران کے لیے جاری ایک خط میں تاکید کی تھی کہ صوبائی حکومت کے تمام افسران بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی سرگرمی کی معاونت نہ کریں اور ایسے کسی بھی عمل سے خود کو دور رکھیں، اپنے ماتحت افسران اور وسائل کو بھی استعمال نہ ہونے دیں۔

چیف سیکریٹری نے افسران پر زور دیا کہ سیاسی قیادت کی جانب سے صرف قانون کے دائرے میں آنے والی ہدایات کی تعمیل کی جائے، افسران پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق اور سیاسی طور پر خود کو غیر جانبدار رکھیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں گزشتہ 9 سال سے حکومت ہے اور اس جماعت نے کئی بار ریسکیو 1122 کے وسائل اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے ہیں۔

اسلام آباد کی جانب 5 اکتوبر کے مارچ کے دوران بھی پنجاب پولیس نے خیبر پختونخوا کے ریسکیو 1122 کے 41 اہلکاروں کو گرفتار کیا تھا اور 1122 کی 17 گاڑیاں تحویل میں لے لی تھیں جو خیبر پختونخوا سے اسلام آباد جانے والے جلوس کا حصہ تھیں۔

1122 کے حراست میں لیے گئے اہلکاروں میں فائر فائٹرز، ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشنز اور ڈرائیورز شامل تھے جنہیں پی ٹی آئی کی پشاور سے اسلام آباد کے ریڈ زون ڈی چوک تک ریلی کیساتھ تعینات کیا گیا تھا جبکہ 1122 کی ضبط کی گاڑیوں میں 7 فائر ٹرک، 3 واٹر باؤزر اور 6 ایمبولینسز شامل تھیں۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ ریسکیو 1122 کی مجموعی طور پر 40 گاڑیاں پشاور سے ڈی چوک تک جانے والے جلوس میں شامل تھیں جبکہ 120 ریسکیو اہلکار بھی اس احتجاج میں ساتھ گئے تھے اور اس احتجاج کی قیادت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کی تھی۔

گرفتار کیے گئے اہلکاروں کو یکم نومبر کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔