نقطہ نظر

مسلم ممالک کا سربراہی اجلاس: ’محض مذمت کرنے سے اسرائیل نسل کشی سے باز نہیں آئے گا‘

چند عرب حکمران خاموشی سے اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں، کیونکہ ان کے پاس موجود امریکی فوجی اڈوں سے ممکنہ طور پر اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل ہورہی ہے۔

گزشتہ ایک سال سے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کو خاموش تماشائیوں کی طرح دیکھنے والے عرب اور مسلم ممالک ایک بار پھر ریاض میں جمع ہوئے جہاں انہوں نے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازع سے متعلق گفتگو کی۔

سعودی عرب کی جانب سے بنائے گئے نام نہاد اتحاد جن کا مقصد فلسطینی ریاست کا قیام تھا، وہ اسرائیلی حملوں سے متعلق کسی طرح کا ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام رہا، جو کہ اب لبنان تک پھیل چکے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تنظیم تعاون اسلامی اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد، اسرائیلی جارحیت کی مذمت تک محدود رہی۔ اس قرارداد میں غزہ میں جاری ظلم کو نسل کشی کے طور پر بھی بیان بھی نہیں کیا گیا جس میں اب تک تقریباً 43 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ شہدا میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

صہیونی افواج کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب کے باوجود اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات رکھنے والے مسلم ممالک کو تعلقات منقطع کرنے کی تجویز نہیں دی گئی۔ غزہ کی پٹی کی مکمل ناکہ بندی کے باعث 10 لاکھ سے زائد افراد بھوک سے لڑ رہے ہیں جبکہ بیماریوں سے ان کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔ محض مذمت سے اسرائیل، غزہ میں جنگ کے نام پر کی جانے والی نسل کشی سے باز نہیں آئے گا۔ یہ فلسطین کی مظلوم عوام کے ساتھ دھوکا دہی کے مترادف ہے۔

درحقیقت مسلم دنیا کے رویے نے صہیونی ریاست کو کھلی چھوٹ دی جو اب پوری مقبوضہ سرزمین کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ 2023ء میں سال کے انہی دنوں ریاض میں سربراہی اجلاس منعقد ہوا تھا جس موقع پر بھی مسلم ممالک کے سربراہان نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی کی مذمت کی تھی۔ وہ اسرائیلی مظالم کو روکنے کے لیے کوئی متفقہ حکمت عملی تیار میں ناکام رہے تھے۔

مسلم ممالک اپنی تیل اور اقتصادی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار نہیں لارہے جن کے ذریعے وہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے ممالک پر جنگ کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ جنگی جرائم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو ایک سال گزر جانے کے باوجود ان کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جسے اگر سر تسلیم خم کرنا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ حالیہ سربراہی اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد پچھلی بار کی طرح غیرمؤثر ہے۔

قرارداد کا چونکا دینے والا یہ حصہ تھا، ’عرب جمہوریہ مصر اور ریاست قطر کی غزہ کی پٹی میں فوری اور مستقل جنگ بندی کے حصول کے لیے امریکی تعاون سے کی جانے والی انتھک کوششوں کی حمایت اور تعریف کا اظہار کیا گیا۔۔۔‘ یہ مضحکہ خیز ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ یہ امریکا کی فوجی امداد ہی ہے جسے اسرائیل جنگ میں استعمال کررہا ہے۔

امریکی حکام کی جانب سے کبھی کبھار اسرائیل کی سرزنش کردی جاتی ہے لیکن امریکا کی جانب سے جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر کوئی باقاعدہ دباؤ نہیں ڈالا جارہا۔ جو بائیڈن انتظامیہ نے تو اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی جانے والی قراردادوں کو دو بار ویٹو کیا تھا۔

یہ خیال بھی پایا جاتا ہے چند عرب حکمرانوں نے خاموشی سے اس کا ساتھ دیا ہے جسے اسرائیل حماس کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے۔ اس کے علاوہ عرب ممالک میں امریکا کے فوجی اڈے ہیں جن کے حوالے سے یہ خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں کہ فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بھی یہیں سے ہورہی ہے۔ ان ممالک نے فوجی اڈوں کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی۔

اہم بات یہ ہے کہ حالیہ سربراہی اجلاس ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے فوری بعد منعقد ہوا ہے۔ کچھ اراکین ممالک نے ان کی جیت کو سراہا، جس سے مبصرین یہ اخذ کرتے ہیں کہ اجلاس کا مقصد آنے والی امریکی انتظامیہ کو پیغام دینا تھا۔ گمان ہوتا ہے کہ ’عالمی اتحاد‘ نئی ٹرمپ انتظامیہ سے امیدیں وابستہ کررہا ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے آمادہ کرے گی اور فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کریں گے۔

مثال کے طور پر سربراہی اجلاس سے ایک روز قبل وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے امید ظاہر کی تھی کہ نئی امریکی انتظامیہ ’مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوششوں کے لیے اپنا کردار ادا کرے گی‘۔ ان کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوا کہ جیسے انہیں ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سخت گیر حکمت عملی کا ادراک نہیں۔ ایسے نومنتخب صدر سے امیدیں لگانا جو بائیڈن سے زیادہ اسرائیل کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں، ہرگز حقیقت پسندانہ نہیں۔ اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے اسرائیل سے کہا کہ وہ اپنی جارحانہ کارروائیاں ختم کرے اور ’کام مکمل کرے‘۔ انہوں نے بیان دیا کہ وہ ’اسرائیل میں ہمارے دوستوں اور اتحادیوں کا ایسا دفاع کریں گے جو پہلے کبھی کسی نہیں کیا ہوگا‘۔

یہ کیسے بھولا جاسکتا ہے اپنے دورِ صدارت میں انہوں نے امریکی قونصل خانے کو مقبوضہ یروشلم میں منتقل کردیا تھا؟ یہ اقدام مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقامات میں شامل یروشلم شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے مترادف تھا حالانکہ اس سے قبل امریکا اسے دارالحکومت تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں ٹرمپ نے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی آبادکاری کی بھی حمایت کی تھی جوکہ عالمی قوانین کے تحت غیرقانونی ہے۔ نام نہاد ’معاہدہ ابراہم‘ کے تحت ٹرمپ نے اسرائیل کی مدد کی کہ وہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرے۔

اگرچہ سعودی عرب نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا لیکن اس نے سلامتی اور اقتصادی فوائد کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ساتھ ہی اس نے اصرار کیا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کریں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ریاض سربراہی اجلاس نے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ خطے میں امریکی مفادات کے لیے ایک مضبوط پارٹنر کے طور پر عرب ممالک پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔ سربراہی اجلاس نے امریکا پر زور دیا کہ وہ جنگ ختم کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔

لیکن ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ آنے والی ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ فلسطینی ریاست کے قیام پر زور نہیں دے گی جیسا کہ ’عالمی اتحاد‘ نے سوچ رکھا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تنازع پر ان کے حالیہ بیانات میں دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ انتخابات جیتنے کے بعد سے ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ایک سے زائد بار بات کی ہے۔ لہٰذا ٹرمپ کے انتخاب کے بعد دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کی جانب سے جنگ کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کیا جانا حیران کُن نہیں ہوگا۔

اپنے حالیہ بیان میں اسرائیلی وزیرخارجہ گیدون سار نے فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کی اور اسے ’غیرحقیقی‘ قرار دیا۔ عرب اور مسلم ممالک جس طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں، اس نے فلسطینیوں کے لیے صورت حال کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔ مشترکہ قرارداد نے تاثر دیا کہ عرب اور مسلم ممالک اسرائیل اور اس کے اتحادیوں پر جنگ کے خاتمے کے لیے اقتصادی دباؤ ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔