موسمیاتی تبدیلی: ’ٹرمپ کی واپسی کے بعد انسان کی پیدا کردہ قیامت دور نہیں‘
2020ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری دنوں میں ڈیموکریٹک جماعت کے سینئر رہنماؤں بشمول نینسی پلوسی، عجلت میں امریکی ملٹری جنرلز سے مدد مانگنے گئے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ ٹرمپ ملٹری جنرلز کو اپنا کوئی ایسا فیصلہ سنا سکتے ہیں جس سے ایٹمی جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ڈیموکریٹس کے خدشات کس حد تک درست تھے، اس وقت پوری دنیا عدم استحکام کا شکار تھی۔
اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ تھے لیکن پھر کردار تبدیل ہوگئے۔ بطور صدر جو بائیڈن نے نئے اتحادی بنانے کی کوششیں کی جبکہ انہوں نے اپنے اقدامات سے روس اور چین جیسی اٰبھرتی ہوئی عالمی قوتوں کو اشتعال دلایا۔ اس نے ممالک کو مجبور کیا کہ وہ برکس جیسی تنظیموں کے ذریعے باہمی تعاون کو فروغ دیں۔
بائیڈن اور ان کے سیکریٹری ہر صبح اٹھ کر ایسے ملک کو ہتھیار اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں جو غزہ میں بڑے پیمانے پر خواتین اور بچوں کے قتل عام کا ذمہ دار ہے۔ وہ بھی اس نوعیت کا وحشیانہ قتل عام جو دنیا ایڈولف ہٹلر کے بعد پہلی بار دیکھ رہی ہے۔ تو ڈیموکریٹس نے ووٹرز کو بتایا کہ ان کی پالیسیز، ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ خطرناک ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار امریکی صدر بننے کے بعد انسان کی پیدا کردہ قیامت دور نہیں ہے۔ یہ لوگوں کے لیے یاددہانی ہے کہ انسان کے اپنے پیدا کردہ خطرات کی وجہ سے انسانیت تباہی کے دہانے پر ہے اور ٹرمپ کی جیت کے بعد یہ خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرمعمولی طور پر مثبت رویہ اختیار کیا جو عموماً ان کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آتا۔ انہیں ووٹ دے کر صدارت کی کرسی پر بٹھانے والے مختلف ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے رائے دہندگان کا حوالہ دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم نے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا‘۔
ان کا یہ رویہ ڈیموکریٹس کے لیے پریشان کُن ضرور ہوگا کیونکہ عموماً ٹرمپ یہی تاثر دیتے آئے ہیں کہ وہ سفید فاموں کی نسلی برتری پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹک جماعت، کثیرالثقافتی اقدار پر یقین کو اپنی جماعت کی خصوصیت قرار دیتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے امریکی ووٹ ڈالنے آئے جن میں یونیئنز، نان یونیئنز، افریقی، لاطینی، ایشیائی، عرب، مسلم سب شامل تھے۔ ہم نے مختلف نسل کے لوگوں کو دیکھا جوکہ بہت خوبصورت تھا‘۔
آمریت پسند سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایسے سنہری جملے ہمیشہ پریشان کرتے ہیں۔ کیا ٹرمپ اپنی ذات سے جڑے نسل پرستی کے تصور کو الگ کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ تمام امریکیوں کے لیڈر ہیں؟ اگر واقعی ایسا ہے تو ان کے مخالفین کو سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈومس ڈے کلاک انسان کی پیدا کردہ دنیا کی ممکنہ تباہی کا ایسا تصور ہے جس کے حوالے سے البرٹ آئن اسٹائن نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اگرچہ موجودہ دور میں سب تسلیم کرتے ہیں گلوبل وارمنگ انسانیت کے لیے وجودی خطرہ ہے لیکن نوم چومسکی نے سالوں پہلے اسے ایٹمی بم کی طرح جان لیوا قرار دے دیا تھا۔ اپنے پہلے دورِ صدارت میں ڈونلڈ ٹرمپ دو اہم معاہدوں سے واک آؤٹ کرگئے تھے جس نے دنیا کو اپنی سلامتی کے حوالے سے خدشات میں مبتلا کیا۔
انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم ترین پیرس معاہدے میں شرکت نہیں کی، حتیٰ کہ نارتھ کیرولائنا میں انتخابی مہم کے دوران آنے والے بدترین طوفان ہیلن کو بھی وہ موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ قرار نہیں دیتے۔
ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے بھی پیچھے ہٹ گئے جو ایران پر جوہری پابندیاں عائد کرتا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے آج ایران اور اسرائیل میں جوہری جنگ چھڑنے کا امکان موجود ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تنازع بڑھ جاتا ہے تو جوہری ہتھیاروں کے خلاف فتویٰ واپس لیا جاسکتا ہے۔
اپنی وکٹری اسپیچ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے تصور کے لیے فوسل فیول کی اہمیت پر تبصرہ کیا جس سے رواں ہفتے باکو میں کوپ 29 کے سلسلے میں جمع ہونے والے موسمیاتی کارکنان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہوگی۔
اپنے ایک بیان سے انہوں نے ان تمام ماحولیاتی کارکنان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو سمجھ رہے تھے ٹرمپ کی ٹیم میں رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کی شمولیت کے بعد صورت حال کچھ مختلف ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ عندیہ دیا کہ وہ مشہور ماحولیاتی وکیل اور ویکسین کے مخالف سمجھے جانے والے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کو صحت کا قلمدان سونپ سکتے ہیں۔ انہوں نے رابرٹ کینیڈی جونیئر کو اسٹیج پر بلایا اور کہا کہ ’یہ امریکا کو ایک بار پھر صحت مند بنائیں گے‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ ماحول کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے توانائی کے معاملات سے رابرٹ کینیڈی کو مداخلت کرنے سے روکنا چاہتے ہیں جو صدر منتخب ہونے کے بعد ان کے پہلے بیان سے ظاہر ہوا۔ انہوں نے رابرٹ کینیڈی عرف بوبی کو مخاطب کرکے کہا، ’بوبی تیل کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو! ہمارے پاس دنیا کے کسی بھی ملک بلکہ سعودی عرب سے زیادہ لکویڈ گولڈ (تیل اور گیس) ہے۔ ہم روس سے بھی آگے ہیں۔ بوبی تیل اور گیس سے دور رہو۔ اس کے علاوہ بوبی آپ حکومت میں اچھا وقت گزاریں‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی حیران کُن تھی حالانکہ بہت سے مبصرین نے بھی ان کی جیت کا اشارہ نہیں دیا تھا۔ میری ایک امریکی نژاد کینیڈین دوست نے کہا کہ وہ امریکی شہریت سے دستبردار ہورہی ہیں کیونکہ ٹرمپ ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔
گزشتہ ہفتے منگل کو امریکا کے مشرقی حصے میں پولنگ کے اختتام کے بعد 24 گھنٹوں میں ’کینیڈا منتقلی‘ سے متعلق گوگل سرچ میں ایک ہزار 270 فیصد کا غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح نیوزی لینڈ منتقلی کے حوالے سے گوگل سرچ میں تقریباً 2 ہزار فیصد اضافہ ہوا جبکہ آسٹریلیا کے لیے یہ تناسب 820 فیصد رہی۔ یہ صورت حال بھارت سے مختلف نہیں جہاں نریندر مودی کے آنے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ بھارت چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ بھارتی شہری ہمسایہ ملک پاکستان نہیں آرہے جیسا کہ مودی کے انتہا پسند سرپرست تجویز دیتے ہیں بلکہ وہ ایسے ممالک کا رخ کررہے ہیں جہاں موسمیاتی یا سیاسی چیلنجز زیادہ ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے درجنوں غیرقانونی تارکین وطن کو بھارت ڈی پورٹ کرنا مثال ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں بھارت کے علاوہ دیگر ممالک میں سخت سیاسی ماحول میں رہنا قبول ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے ٹرمپ کے انکار کو بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے مداح نریندر مودی عالمی سطح پر خود کو ماحولیات کے لیے سرگرم قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ دہلی میں حالیہ جی 20 اجلاس میں انہوں نے کہا، ’بھارت صاف ماحولیات اور توانائی کے لیے پُرعزم ہے‘، لیکن یہ اس کے اقدامات سے ظاہر نہیں ہوتا۔ صفر اخراج کے حصول کے لیے بھارت نے 2070ء کو ہدف بنایا ہے جس دوران وہ قابلِ تجدید توانائی کے لیے بھی کام کرے گا۔ یعنی بھارت آنے والی کئی دہائیوں تک کوئلے سے توانائی کی پیداوار کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
مصر میں کوپ 27 سے تین روز قبل بھارت کی وزیرخزانہ نے متضاد بیان دیا۔ دہلی میں ملک کی اب تک کی سب سے بڑی کوئلے کے کانوں کی نیلامی کے آغاز کے موقع پر نرملا سیتارامن نے کہا، ’بھارت کو کوئلے کی پیداوار میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے‘۔ اس موقع پر نیلامی کے لیے 141 سائٹس پیش کی گئیں۔
گلاسگو میں کوپ 26 کے موقع پر بھارت نے یہی روش اپنائی اور آخری موقع پر چین کی سرپرستی میں معاہدے میں کوئلے کے حوالے سے شامل شق کو کمزور کیا۔ پہلے مسودے میں ’توانائی کے لیے کوئلے کے استعمال کو ختم کرنے‘ کا عہد کیا گیا تھا لیکن بھارت نے چین کی مدد سے اسے ’کوئلے سے توانائی کی پیداوار کم کرنے‘ میں تبدیل کردیا۔
بھارت اور چین کے ایسے اقدامات کے نتائج ہمسایہ ممالک اور خطے کے دیگر ممالک پر مرتب ہورہے ہیں۔ سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے مالدیپ جزیرے پر ڈوبنے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اسی طرح سمندر کی سطح میں اضافے کے باعث بنگلہ دیش کے بہت سے ساحلی علاقے بھی غائب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نبرد آزما ہے جو 2022ء کے سیلاب کے بعد سے زیادہ اُبھر کر سامنے آئے۔
وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کا اقوامِ عالم کے سامنے رکھنے کی تیاری کررہی ہیں جبکہ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ تیل اور گیس کے ان ذخائر پر نظر گاڑے بیٹھے ہیں جو انہیں جیت کے بعد وراثت میں ملے ہیں۔
پاکستان کی نمائندگی کرنے والی رومینہ خورشید عالم کو ہندوکش کے قد آور گلیشیئرز پگھلنے کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں جو ٹرمپ کے تصورات کے بالکل متصادم ہے جو ’میک امریکا گریٹ اگین‘ کے لیے اپنے تیل کے ذخائر کو استعمال کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔