پاکستان

حکومت سندھ کی ڈاکٹر شاہنواز قتل کی عدالتی تحقیقات کیلئے ہائی کورٹ سے باضابطہ درخواست

انکوائری کی درخواست وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار کی جانب سے کی گئی، معاملے کی ہائی کورٹ کے موجودہ جج سے انکوائری کرائی جائے، درخواست

حکومت سندھ نے سندھ ہائی کورٹ سے باضابطہ طور پر ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے متنازع قتل کی عدالتی تحقیقات کرانے کی درخواست کردی۔

انکوائری کی درخواست وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن لنجار کی جانب سے کی گئی جس میں 18 ستمبر 2024 کو تھانہ سندھڑی، میرپور خاص کی حدود میں ہونے والے قتل کے پس پردہ محرکات کا پتا لگانے کی استدعا کی گئی۔

ڈاکٹر کنبھر کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-سی کے تحت توہین مذہب کے الزامات کا سامنا تھا اور واقعے سے ایک دن قبل ان کے خلاف مذکورہ دفعات کے تحت عمرکوٹ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر شاہنواز فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے اور ان کے خلاف تعزیرات پاکستان اور سندھ آرمز ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

تاہم آئی جی سندھ کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ڈاکٹر شاہنواز کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا جس سے عوام میں غم و غصہ پیدا ہوا اور انہوں نے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔

قتل کے بعد ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کی لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی اور لاش کی بے حرمتی نے عوام کو مزید مشتعل کردیا اور ان واقعات کے بعد عمرکوٹ میں تعزیرات پاکستان، انسداد دہشت گردی ایکٹ اور 2022 کے دوران حراست تشدد اور موت کی روک تھام و تحفظ کے ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

27 ستمبر 2024 کو ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے خاندان نے مبینہ طور پر واقعے میں ملوث پولیس افسران کے خلاف قتل، اغوا اور دوران حراست تشدد کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کرائی تھی اور اب بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر محکمہ داخلہ سندھ اب ذمہ دار اہلکاروں کے احتساب اور انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے عدالتی تحقیقات پر مصر ہے۔

محکمہ داخلہ نے استدعا کی کہ حقائق کا پتا لگانے اور سوگوار خاندان کو انصاف کی فراہمی کے لیے معاملے کی ہائی کورٹ کے موجودہ جج سے انکوائری کرائی جائے۔

ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کا جعلی پولیس مقابلے میں قتل

واضح رہے کہ 19 ستمبر کو ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف عمرکوٹ پولیس نے مبینہ طور پر مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد فیس بک پر ’گستاخانہ مواد‘ پوسٹ کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس تمام واقعے سے ایک دن قبل ڈاکٹر شاہ نواز نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے اور وہ گستاخانہ مواد شیئر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

اس کے بعد اطلاعات سامنے آئی تھیں ملزم کراچی فرار ہو گیا ہے لیکن عمرکوٹ پولیس نے اسے گرفتار کر کے میرپورخاص منتقل کردیا جہاں مبینہ طور پر اسے سندھڑی پولیس نے ایک ’انکاؤنٹر‘(پولیس مقابلے) میں ہلاک کر دیا تھا۔

سندھڑی کے ایس ایچ او نیاز کھوسو نے ملزم کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر نے ’ساتھیوں‘ کے ساتھ مل کر پولیس پر فائرنگ کی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ جوابی کارروائی میں ملزم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ اس کا مبینہ ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

تاہم ڈاکٹر شاہنواز کے اہلخانہ نے اسے جعلی پولیس مقابلہ قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا تھا اور حکام سے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

واقعے کے ایک ہفتے بعد وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی پولیس مقابلہ میں مارا گیا اور مقابلے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انکوائری میں الزام درست ثابت ہونے پر اہلکاروں کو معطل کیا گیا اور یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا جب کہ متاثرین جسے ذمہ دار قرار دیں گے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائےگی۔

اس کے بعد ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کا مقدمہ درج کر کے اس میں ڈی آئی جی جاوید جسکانی ، ایس ایس پی چوہدری اسد اور دیگر کو نامزد کیا گیا تھا۔