سخت سیکیورٹی حصار میں ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کی قبرکشائی، لاش کا کیمیائی تجزیہ
مقامی عدالت کے حکم پر ایک خصوصی میڈیکل بورڈ نے توہین مذہب کے الزام میں دوران حراست 19 ستمبر کو میرپور خاص میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کی قبر کشائی کر کے ان کی لاش کو نکالا اور عمرکوٹ سے 17 کلومیٹر دور جنہیرو گاؤں میں سخت حفاظتی انتظامات میں کیمیائی تجزیے کے لیے نمونے جمع کیے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق میڈیکل بورڈ میں حیدرآباد کے قائم مقام پولیس سرجن ڈاکٹر وسیم (بورڈ کے سربراہ)، لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد کے اے ایم ایس (میڈیکو لیگل) ڈاکٹر طاہر قریشی، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے فارنزک ماہر پروفیسر ڈاکٹر واحد ناہیون، پیتھالوجسٹ ڈاکٹر راحیل خان اور دیگر ڈاکٹروں نے لاش کے 13 نمونے اکٹھے کیے، جوڈیشل مجسٹریٹ عامر راجپوت کی موجودگی میں پوری لاش کا ایکسرے کیا اور بعد ازاں لاش کو دوبارہ دفن کردیا۔
بورڈ کے اراکین نے میڈیا کو بتایا کہ ڈاکٹر شاہنواز کے جسم سے لیے گئے نمونے کیمیائی تجزیے کے لیے متعلقہ لیبارٹری میں بھیجے جائیں گے جہاں رپورٹ کے کے نتائج ایک ماہ کے اندر جاری ہونے کی امید ہے۔
قبر کشائی کے دوران سیکیورٹی کی نگرانی کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو قبر کے قریب جانے سے روکنے والے عمرکوٹ کے ایس ایس پی عزیر احمد میمن نے بتایا کہ اب تفتیش پوسٹ مارٹم رپورٹ کی روشنی میں آگے بڑھے گی۔ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ اور سول سوسائٹی پوسٹ مارٹم کے نتائج کی بے صبری سے منتظر ہے جس سے کیس کی تفتیش میں کافی مدد مل سکتی ہے۔
تشدد، دوران حراست موت، مبینہ جعلی مقابلے اور لاش کو جلانے کے دعوؤں کی روشنی میں مقامی عدالت نے حیدرآباد پولیس کے سرجن اور ڈائریکٹر جنرل آف ہیلتھ کو معاملے کی تحقیقات کے لیے قبر کشائی کر کے لاش نکالنے کا حکم دیا تھا۔
ڈاکٹر شاہنواز کے والد نے بتایا کہ اگر رپورٹ نتائج سے دوران حراست تشدد اور موت کی تصدیق ہوتی ہے تو ایف آئی آر میں مزید افراد کو شامل کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ نے قتل کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ اگر ڈاکٹر شاہنواز کو قتل کرنے کے بعد موت کی وجہ چھپانے کے لیے جعلی مقابلے کے الزامات درست ثابت ہو جاتے ہیں تو انکوائری کا دائرہ وسیع کیا جانا چاہیے۔
لواحقین نے شبہ ظاہر کیا کہ لاش کو جلانے کا مقصد بھی تشدد کے ثبوت کو ختم اور موت کی اصل وجہ کو چھپانا کی کوشش کرنا تھا۔
ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے قتل کیس میں شکایت کنندہ ابراہیم کنبھر نے کہا کہ وہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور وہ فی الحال اس عمل پر بھروسہ کریں گے حالانکہ اہل خانہ کو پہلے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی پہلے سے اطلاع دی گئی تھی، انہوں نے کہا کہ ٹیموں کے گاؤں پہنچنے کے بعد ہی ہمیں قبر سے لاش نکالنے کے بارے میں پتا چلا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتظار کریں اور دیکھیں کہ آگے کیا ہوتا ہے، اگر ہمیں کسی غلط چیز کا شبہ ہوا تو ہم سخت احتجاج کریں گے۔
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہنواز کی موت کے حوالے سے مختلف دعوؤں کی بھرمار ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں کہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر ان کی موت کی اصل وجہ چھپانے کے لیے انکاؤنٹر کرایا گیا، کچھ شہریوں کا ماننا ہے کہ تشدد کے شواہد کو مٹانے کے لیے لاش کو جلایا گیا۔