نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (اکیسویں قسط)

کلہوڑوں نے ان دنوں کی ریاستوں سے لڑنے کی کوشش کی اور سمندر کنارے یا کوہستانی پٹی میں رہنے والے قبائل کو آپس میں لڑوایا تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے وہ اپنی طاقت کو اور وسعت دے سکیں۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


آپ نے کبھی رات کی خاموشی میں گزرے زمانوں کے متعلق پڑھتے ہوئے یہ سوچا ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کی ان پگڈنڈیوں پر خون کی سرخی اتنی زیادہ کیوں بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ پوری دنیا کی تاریخ پڑھ لیں، آپ کو وہاں پر تیز سرخ خون ہی نظر آئے گا۔

انسان کا زندگی کے ساتھ جو دوستی کا رشتہ رہا ہے، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ ان دونوں کی یہ دوستی گھاٹے کا سودا ثابت ہوئی ہے۔ آپ دنیا میں بسنے والے انسانوں اور ان پر سے گزرے ہوئے سالوں کی تاریخ کے اوراق پڑھ لیجیے تو وہاں ہنسی کم اور جنگ کے میدانوں میں تلواروں سے کٹتے ہوئے سروں اور ان سے بہتے ہوئے گرم گاڑھے خون کی پھوار زیادہ نظر آئے گی۔ اس لیے گزرے زمانوں کی کوکھ میں آپ کو گھروں کے آباد آنگنوں سے زیادہ قبرستان ملیں گے۔

ارغونوں، ترخانوں اور مغلوں (1520ء سے 1737ء تک) جن کی حکومت کا مرکز جنوبی سندھ رہا چونکہ ٹھٹہ کے شمال میں دور دور تک کوہستان کی پہاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں جہاں قدیم قبیلوں کے ساتھ بلوچ قبائل آباد تھے جن کے ذریعہ معاش کے متعلق ہم گزشتہ قسط میں تفصیلی ذکر کرچکے ہیں، ٹھٹہ کے مغرب اور جنوب میں سمندری کنارے کے ساتھ ساتھ ’کَچھ جو رن‘ تک مختلف قبیلوں کی مضبوط ریاستیں پھیلی ہوئی تھیں جن کی اکثر حکومت سے مڈبھیڑ چلتی رہتی تھی۔

ان ریاستوں اور مقامی قبائل کی لڑائیوں کا ذکر اس قسط میں کریں گے۔ اس سے پہلے ایک مختصر سیاسی خاکہ کلہوڑا دور کا بھی بناتے چلیں جن کا دور حکومت (1681ء سے 1783ء) تقریباً 100 برس تک قائم رہی۔ جنوبی سندھ میں کلہوڑوں کی حکومت شمالی سندھ کی حکومت کے بہت برسوں بعد قائم ہوئی تھی، اس لیے مغل اور کلہوڑا دور کا ذکر زیادہ تر تاریخ میں ساتھ ساتھ پڑھنے کو ملتا ہے۔

تاریخ کے صفحات میں کلہوڑا حاکموں کے سلسلے کا آغاز ہمیں میاں نصیر محمد (1681ء) کے نام سے ملتا ہے جس نے 11 برس حکومت کی اور 1692ء میں وفات پائی۔ میاں نصیر کے زمانے میں بکھر (شمالی سندھ) میں مغلوں کے آخری نواب کے حوالے سے ہمیں میر محمد اکرم حکیم کا نام ملتا ہے جو 1679ء میں بکھر میں حاکم مقرر ہوا اور 1681ء میں اس کی مدت پوری ہوئی۔

ننگر ٹھٹہ پر 93ویں پر آخری نواب صادق علی خان کا نام ملتا ہے جو 1732ء میں مقرر ہوا اور اس نے 1739ء میں ٹھٹہ کی حکومت کلہوڑوں کے حوالے کی۔ اس تاریخی حقیقت سے ایک اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ کلہوڑوں کی مرکزی حکومت ابتدا میں شمال میں رہی جس کے بعد بہت برسوں بعد جنوبی سندھ ان کے قبضے میں آیا۔

میاں نصیر کے بعد اس کا بڑا بیٹا میاں دین محمد کلہوڑو 1692ء میں تخت پر بیٹھا اور 1700ء میں اسے شہزادے معزالدین نے ملتان میں پھانسی دے دی۔ اس کے بعد میر نصیر کا ایک اور بیٹا میاں یار محمد 1701ء میں تخت پر بیٹھا جس نے 18 برس حکومت کی اور 1719ء میں یہ جہان چھوڑا۔ اسی کے دور حکومت میں قلات کے حاکم محراب کان کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔

میاں یار محمد کے بعد اس کا بڑا بیٹا میاں نور محمد ’خدا یار خان‘ کا لقب مغل سلطنت سے لے کر نومبر 1719ء میں تخت پر بیٹھا۔ سندھ کے زمینی اور سیاسی حالات کے لیے میاں نور محمد کی 34 برس کی حکومت کا عرصہ انتہائی اہم رہا۔ ان برسوں نے سندھ کے سیاسی حالات کے ساتھ ساتھ معاشی حالات اور آنے والے برسوں کے لیے نئی راہیں کھولیں۔ میاں نور محمد کے زمانے میں جو اہم تاریخی واقعات ہوئے جو میں آپ کو مختصراً بتاتا ہوں۔

اسی طرح کلہوڑوں کی حکومت کی تقریباً ایک صدی مکمل ہوئی اور اس صدی میں جو اُتھل پُتھل ہوئی وہ آپ نے پڑھ لی ہوگی۔ اب ہم آتے ہیں اس ایک صدی کے اُن برسوں میں جب کلہوڑوں نے اپنی طاقت اور حکومت کی سرحدیں خاص طور پر جنوبی سندھ میں بڑھانے کے لیے ان دنوں کی ریاستوں سے لڑنے کی کوشش کی اور ناکامی کی صورت میں سمندر کنارے یا کوہستانی پٹی میں رہنے والے قبائل کو آپس میں لڑوانا شروع کیا تاکہ ان جھگڑوں کی وجہ سے وہ اپنی طاقت کو اور وسعت دے سکیں۔

ارغون، ترخان اور مغل زمانوں سے ہمیں کراچی سے مشرق جنوب کی طرف سمندر کنارے سیکڑوں ریاستوں کا ذکر ملتا ہے جیسے انتہائی مشرق میں ونگو کی طرف سمیجوں، اس سے مغرب کی طرف آئیں تو ماندھر کی طرف مندھروں، سوڈھوں، جاتی کے نزدیک ککرالو کے جاموں پھر تھوڑا شمال مغرب میں رانوں اور بھڑچوں کی ریاستوں کا ذکر ملتا ہے جو اپنے زمانے میں انتہائی طاقتور ریاستیں تھیں۔

ککرالو، نگامروں (رانو) اور بھڑچوں کی ریاست ٹھٹہ سرکار کی حدود میں تھیں۔ بدین اور اس سے جنوب مشرق میں چاچکان پرگنہ، اس سے مغرب میں یعنی دریائے سندھ کے دو (مشرقی اور مغربی) مرکزی بہاؤں کے اندر ٹھٹہ پرگنہ اور مغربی گھارو والے بہاؤ سے مغرب، شمال اور جنوب والا علاقہ ساکرہ کہلاتا کراچی کی بستیاں حب نئے تک، اس ساکرہ پرگنو میں آ جاتی تھیں۔

اب ذکر ان ریاستوں اور قبائل کا جو ساکرہ اور ٹھٹہ سرکار میں بستے تھے۔ سب سے پہلا ذکر ہم ’نگامرہ ریاست‘ کا کرتے ہیں جو کراچی کے بالکل نزدیک اور جنوب مشرق کی طرف تھی۔ اسے ’رانوں کی ریاست‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان نگامروں کا ذریعہ معاش، کشتیاں چلانا، ماہی گیری اور ساحلی کناروں پر کشتیوں کے راستے بیوپار کرنا تھا جس کی وجہ سے یہ ایک خوشحال قبیلہ تھا۔

کچھ محققین کے مطابق، 7ویں سے 13ویں صدی عیسوی تک ان سمندری کناروں پر یہ ایک طاقتور قبیلہ تھا۔ چچ نامہ کے فارسی ترجمہ کرنے والے علی کوفی نے ان کا ذکر کیا ہے اور ساتھ ہی یہ شک بھی ظاہر کیا ہے کہ جن لوگوں (جنہیں میدے بھی کہا جاتا تھا) نے مسلمانوں کی کشتیوں کو لوٹا تھا اور جن کی وجہ سے حجاج بن یوسف نے سندھ پر حملہ کرنے کے لیے محمد بن قاسم کو بھیجا، ان کا تعلق بھی شاید نگامرہ قبیلے سے ہی تھا۔

سومرا دور حکومت میں ہمیں ایک مشہور عشقیہ داستان پڑھنے اور سننے کو ملتی ہے جس کا نام ’جام اُڈھو اور ھوتھل پری‘ کا قصہ ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ صاحب کی تحقیق کے مطابق، ھوتھل پری نگامروں کی شہزادی تھی اور جام اُڈھو، ککرالہ ریاست کا کیہر جام تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد بڑی تعداد میں نگامرا مسلمان ہوگئے۔

مغل دور میں نگامروں کی ریاست کا حکمران رانو عبید تھا اور مغلوں کے آخری زمانے میں ان کے حکمران کا نام رانو اجمال تھا اور کلہوڑوں کی جنوبی سندھ میں حکومت قائم ہونے تک اس قبیلے کی حکمرانی اجمالی خاندان کے پاس رہی۔ ان کا مرکزی کوٹ یا قلعہ پہلے کُٹی کوٹ اور پھر رتو کوٹ اور آکر میں ان کا مرکز دھاراجا ہوا۔ میاں نور محمد اور میاں غلام شاہ کے زمانے میں نگامروں کی ریاست زیادہ وسیع نہیں تھی مگر جہاں تک بھی ان کی ریاست کا پھیلاؤ تھا وہ معاشی حوالے سے مضبوط اور کامیاب ریاست تھی۔ ان زمانوں میں اس ریاست کا حکمران رانو ارجن تھا۔

’تحفتۃ الکرام‘ ہمیں ایک اہم معلومات دیتا ہے خاص طور پر دھاراجا کے رانو ارجن کے متعلق قانع لکھتے ہیں کہ کچھ وقت کے لیے ٹھٹہ کا انتظام، مغلوں کے شاہی وکیل نے دھاراجا کے راںو اور ارباب ساجن کے حوالے کیا تھا۔ بہرحال میاں نور محمد اپنی طاقت اور اپنی حکومتوں کی سرحدیں وسیع کرنے کے لیے نگامروں کی ریاست پر حملے کرکے اُن کو ڈرانا چاہتا تھا۔ ان حملوں کے تسلسل کی وجہ سے رانو ارجن نے مجبور ہوکر 1747ء میں کوہستان کے جنگجو قبیلوں کے 300 یا 400 آدمیوں کی مدد سے ننگر ٹھٹہ اور اس کی پسگردائی میں لوٹ مار کی۔

ان دنوں ٹھٹہ پر میاں نور محمد کی طرف سے مسُو فقیر ننگر ٹھٹہ کے انتظامات سنبھالتا تھا۔ رانو ارجن کے اس حملہ کو پسپا کرنے کے لیے مسُو فقیر نے مکلی کے مغرب میں ان لوٹ کھسوٹ کرنے والے لوگوں پر حملہ کیا مگر حملہ کامیاب نہ ہوا۔ شکست کی خبر سننے کے بعد میاں نور محمد کا بیٹا، محمد خداداد خان لشکر لے کر ٹھٹہ پہنچا اور مسو فقیر کی جگہ بلاول فقیر نائچ کو ٹھٹہ پر مقرر کیا۔

جب ٹھٹہ سرکار نے رانو کی ریاست پر حملہ کیا تو رانو اپنے لشکر کو اپنے قلعے میں چھوڑ کر دریا کے بہاؤ دوسری طرف مغرب میں چلا گیا۔ قلعہ میں موجود لوگوں نے خداداد کے لشکر سے بہادرانہ مقابلہ کیا مگر خداداد نے آخر میں انہیں جعلی دستاویز دکھا کر قلعہ پر قبضہ کر لیا۔

اس واقعہ کے بعد ٹھٹہ کے نائب شکراللہ نے بجار جوکھیو کو بلا کر اسے رانو ارجن کو ختم کرنے کے لیے کہا۔ رانو کو قتل کرنے کے لیے پلان بھی تیار کر لیا گیا تھا مگر 1151ء میں شکراللہ کو سمندر کے راستے مسقط جانا پڑ گیا جہاں مرادیاب خان رہتا تھا۔ اس کو نادر شاہ افشار ضمانت کے طور پر ساتھ لے گیا تھا جب افشار کو اپنے رشتہ دار نے قتل کردیا گیا تو مرادیاب خان نے واپسی پر مسقط میں شادی کرلی تھی۔ مگر شکراللہ کی سانسوں نے مسقط جاتے ہوئے کشتی میں ہی بے وفائی کی جس وجہ سے رانو ارجن کے قتل کرنے کا خواب ادھورا ہی رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ رانو ارجن کو غلام شاہ کلہوڑو نے اپنی دور حکومت میں قتل کروادیا۔

ڈاکٹر بلوچ تحریر کرتے ہیں کہ ’جب ٹھٹہ میاں نور محمد کلہوڑو کو ملا تو نئی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے اس نے ریاستوں کے سرداروں کو منانا شروع کیا اور جو ماننے سے انکار کرتے تو ان پر جنگی حملوں یا سیاسی دباؤ سے کام لیتا۔ جہاں تک رانو ارجن کا تعلق ہے تو نگامروں کا، کلمتی بلوچ سرداروں سے دوستی کا رشتہ تھا اور رانو کے لشکر میں نگامروں سے زیادہ کلمتی لڑنے والے تھے۔ اس لیے میاں نور محمد نے پہلے کلمتیوں پر لشکر کشی کی تھی جبکہ میاں غلام شاہ کلہوڑو نے جوکھیوں کو اپنے قریب رکھا کہ اس طرح سے کلمتیوں کا دبدبہ کم ہوگا۔ جب کلمتیوں کا دبدبہ کم ہوگا تو نگامرے خود بخود کمزور ہو جائیں گے۔

’ملیر میں کلمتیوں کا سردار ملک طوطا تھا۔ ملیر پر کلہوڑوں کا خداآباد سے بھیجے ہوئے ایک لشکر کا حملہ پہلے ہو چکا تھا۔ بجار جوکھیو سوچ بچار کے بعد ملک طوطا کے پاس گیا اور بتایا کہ اس پر رانو ارجن کے حوالے سے میاں کے دیے گئے حکم کا بوجھ ہے اس لیے میں رانو ارجن پر حملہ کروں گا۔ اس لیے آپ نہ اس کی مدد کریں گے اور نہ کوئی اور قدم اُٹھائیں گے۔ ’

’ملک نے سوچ بچار کے بعد بجار جوکھیو کی بات مانی اور اس طرح بجار جوکھیو نے اپنے آدمیوں سے رتو کوٹ میں ارجن رانو کو قتل کروادیا۔ اس کے بدلے میں میاں غلام شاہ نے بجار جوکھیو کو ’جام‘ کا لقب دیا اور جوکھیوں کا سردار مقرر کیا جس کے بعد جام بجار ایک طاقت بن کر اُبھرا اور کلمتیوں اور کلمتیوں سے لڑائیاں بھی لڑیں‘۔

کلہوڑا دور حکومت کی ایک صدی سندھ کے لیے بہت سارے حوالوں سے اہم تھی۔ اگر کہا جائے کہ موجودہ سندھ کے معروضی حالات کی تصویر ان شب و روز میں بُنی گئی تو شاید غلط نہ ہوگا کیونکہ اس زمانے میں دریا سندھ نے جو پرانے راستوں کو چھوڑ کر نئے راستے بنائے اُس نے خاص کر جنوبی سندھ کا لینڈاسکیپ بدل کر رکھ دیا۔

اس پر بھی اگلی قسط میں تفصیل سے بات کریں گے اور یہ وہ زمانہ تھا جس میں قلات اور کراچی کے ناموں کی وقت کے میدان میں غلط معلومات کے بگولے اُٹھتے نظر آتے ہیں اور ساتھ میں تلفظ اور الفاظ کی تھوڑی سی تبدیلی کی وجہ سے بہت بڑی غلط فہمیاں حقیقت کے درخت پر آکاس بیل کی طرح اُگ پڑتی ہیں جن کے خوبصورت ہلکے پیلے رنگ میں حقیقت کا درخت بالکل نظر نہیں آتا۔

چلیے کوئی بات نہیں کیونکہ ہمارا یہ سفر ان غلطیوں، غلط فہمیوں اور ابہاموں پر باتیں کرنے اور تاریخ سے مدد لے کر کوئی بہتر نتیجہ نکالنے کے لیے ہی ہے۔ چلیے جلد ملتے ہیں ریاستوں اور حکومتوں کی آپس میں کھیلی جانے والی شطرنج کی بساط پر جہاں ایک پیادہ ساری بازی پلٹنے کی طاق میں ہر وقت اپنی آنکھیں کھُلی رکھتا ہے۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔