نقطہ نظر

غزہ میں کمسن بیٹے کی سرکٹی لاش اٹھایا باپ مغرب کی توجہ کیوں حاصل نہیں کرتا؟

'اسرائیلی عسکریت پسندی اور امریکا کی حمایت کے لیے اسرائیلی بچوں کے سر قلم ہونے کا جھوٹ ہی سب کچھ ہے جبکہ دوسری جانب فلسطینی بچوں کے سر قلم ہونے کی حقیقت کوئی معنی نہیں رکھتی'۔

’آپ دوسروں پر مظالم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے وہ بھی صرف اس لیے کیونکہ آپ خود ایک وقت میں ظلم کا شکار ہوچکے ہیں، اس کی ایک حد ہونی چاہیے‘۔

ایڈورڈ سیڈ نے یہ جملہ آج سے تقریباً 50 سال پہلے لکھا تھا لیکن انہوں نے جو حدود متعین کی تھیں، اسرائیل کی پروپیگنڈا مشین بہت عرصے پہلے ہی انہیں پار کرچکی ہے جبکہ اس معاملے میں مغربی میڈیا ان کی حمایت میں پیش پیش رہا ہے۔

اگر ایسا نہیں تو پھر آپ 40 بچوں کے سر قلم کرنے کی جھوٹی کہانی پھیلانے کی وضاحت کیسے کریں گے جو ایک سال قبل حماس کے کفار عزا کبوتز نامی اسرائیلی قصبے پر حملے کے بعد سامنے آئی؟ یہ بہت جلد ہی عالمی میڈیا کی شہ سرخی بن گیا اور عالمی سطح پر اس مبینہ واقعے کی مذمت کی گئی جن میں امریکی صدر جو بائیڈن بھی شامل تھے جن کی انتظامیہ نے انہیں اس کہانی کا ذکر کرنے کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔

اس کے باوجود بائیڈن نے ان کی تنبیہات پر کان نہیں دھرا اور کہا کہ انہوں نے بچوں کی تصاویر دیکھی ہیں لیکن بعدازاں انہیں اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ جب تاریخ میں کبھی دوبارہ اس لمحے کا ذکر ہوگا تو ممکنہ طور پر اسے جو بائیڈن کی زائد عمر اور ذہنی کیفیت کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا۔ تاہم ہم میں سے بہت سے لوگ واقف ہیں کہ ’ہمیں‘ کس طرح دکھایا جاتا ہے اور ’وہ‘ صرف ہمارے بدترین پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

جیسا کہ ایڈورڈ سیڈ نے 1975ء میں شائع اپنی کتاب اورینٹلزم میں لکھا، ’میڈیا کی تصاویر اور ویڈیوز میں ہمیشہ عربوں کو بڑی تعداد یا گروپ کی صورت میں دکھایا جاتا ہے۔ انہیں انفرادیت، ذاتی خصوصیات یا تجربات کے اعتبار سے تقسیم نہیں کیا جاتا۔

’زیادہ تر تصاویر بڑے پیمانے پر غصے اور مصائب یا غیر معقول رویوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان تصاویر کو دکھانے کے پیچھے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جہاد کو ایک خطرے کے طور پر دکھایا جائے۔ اس کا نتیجہ اس خوف کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ مسلمان (یا عرب) دنیا پر غلبہ حاصل کرلیں گے‘۔

یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عربوں کو قابو میں رکھنا ہوگا۔

اگرچہ موجودہ اور متوقع امریکی صدور اسرائیل کی سنائی گئی کہانیوں پر بہت جلد ہی اعتبار کرلیتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حیران کُن تھا کہ مئی میں رفح میں کی گئی اسرائیلی بمباری سے ہونے والی شدید تباہی کا دفاع کس طرح کیا گیا حالانکہ اس حملے میں بڑی تعداد میں بچوں کی شہادت ہوئی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو رفح میں اپنی جارحیت روکنے کا حکم دیا تھا۔ اسرائیل نے اسے اپنی ’سنگین غلطی‘ قرار دیا۔

40 بچوں کے سر قلم کرنے کی خیالی کہانی کے بجائے رفح میں ہمارے سامنے وہ حقیقی مناظر آئے کہ جن میں ایک باپ اپنے کمسن بچے کی لاش کو اٹھائے ہوئے تھا جس کا سر دھڑ سے جدا تھا لیکن یہ دل دہلا دینے والا منظر مغربی میڈیا کی شہ سرخی نہیں بنا۔

عرب یا مسلم اکثریتی ممالک سے روابط رکھنے والے نامور مصنفین نے اس معاملے پر قلم اٹھایا وہ بھی اپنے ذاتی بلاگز یا سوشل میڈیا پر جبکہ بائیں بازو کے نظریات کی جانب جھکاؤ رکھنے والے دی گارڈین جیسے چند اخبارات نے رفح واقعے پر کالمز شائع کیے۔

اگر سوشل میڈیا یا موبائل فونز غزہ میں جاری ظلم کے مناظر عکس بند نہ کررہے ہوتے تو ہم اسرائیل کے جھوٹ پر انحصار کررہے ہوتے۔ وہ ایسا حمایت، اپنی پالیسی ترتیب دینے کے لیے کرتا ہے۔ وہ یہ یقینی بناتے ہیں کہ فلسطینیوں سے ہمدردی کو فوری طور پر اس سوال سے منسلک کردیا جائے کہ ’کیا آپ حماس کی حمایت کرتے ہیں؟‘ اس مقصد میں انہیں بڑے پیمانے پر مغربی میڈیا، اسکالرز اور انفلواینسرز کی حمایت حاصل ہے۔

قانون کے پروفیسر خالد بیدون نے رفح کے قتل عام کے بعد لکھا، ’اسرائیلی عسکریت پسندی اور امریکا کی غیرمشروط حمایت کے لیے اسرائیلی بچوں کے سر قلم ہونے کا جھوٹ ہی سب کچھ ہے جبکہ دوسری جانب ان کے لیے فلسطینی بچوں کے سر قلم ہونے کی حقیقت کی کوئی اہمیت نہیں‘۔

حماس کو دہشتگرد قرار دینے اور یہ دعویٰ کرنے کے وہ شہریوں کے درمیان یا ہسپتالوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، حماس کی جانب سے جنسی استحصال کے دعوے یا غزہ میں انسانی بحران کو درست طریقے سے دستاویز کرنے میں ناکامی کے علاوہ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات سے ہوئی کہ مغربی میڈیا نے بچوں پر مرتب جنگ کے اثرات کے حوالے سے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق مارچ 2024ء تک اسرائیل کی جانب سے تقریباً 13 ہزار بچوں کو شہید کیا گیا لیکن اس کے باوجود عالمی میڈیا نے اپنے لب سی لیے۔ ایک مطالعے میں سامنے آیا کہ 7 اکتوبر سے 25 نومبر تک ایک ہزار 100 نیوز آرٹیکلز شائع ہوئے جن میں سے صرف دو میں نوجوان مظلوم فلسطینیوں کا ذکر کیا گیا۔ مذکورہ مدت کے دوران کم از کم 6 ہزار فلسطینی بچے شہید ہوئے۔ یہ ناقابلِ بیان حد تک حیرت انگیز اور ناقابلِ قبول ہے۔

فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک

ایڈورڈ سیڈ نے اپنی تحریر میں فلسطینیوں کے ساتھ غیرانسانی رویے کے حوالے سے خبردار کیا تھا اور ظاہر کیا تھا کہ کیسے فلسطینیوں کی شناخت کو مسخ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن موجودہ منظرنامے میں جس طرح فلسطینیوں کی لاشوں کو اعداد میں تولا جارہا ہے، اس انسانیت سوز سلوک پر شاید ایڈورڈ سیڈ بھی مایوسی کا شکار ہوجاتے۔

برطانوی ڈیٹا جرنلسٹ مونا شلابی ہمیں بتاتی ہیں کہ فلسطینیوں کی کوریج کیسے کی جارہی ہے، انہوں نے انسٹاگرام پر لکھا، ’ایک جانب اسرائیلی متاثرین کو اس طرح دستاویز کیا جاتا ہے کہ جیسے ان لوگوں سے سب پیار کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب موت کے معاملے میں بھی فلسطینیوں کی شناخت کو مسخ کیا جارہا ہے‘۔

مونا شلابی نے ڈیٹا ترتیب دیا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی تشدد اور مغربی میڈیا اسرائیل کی کہانی کو پھیلانے میں کس طرح معاونت کررہا ہے۔ ’فلسطینیوں کی اموات کو انتقام کے تناظر میں دکھایا جاتا ہے (مذکورہ ڈیٹا میں ’بدلہ‘ یا ’جوابی کارروائی‘ جیسے الفاظ کا 190 بار ذکر کیا گیا) جبکہ اسرائیل کی اموات یا یرغمالیوں کے برعکس فلسطینی متاثرین کے نام شاذ و نادر ہی لیے جاتے ہیں‘۔

اسرائیل با مقابلہ فلسطین، بی بی سی نیوز کی زبان کے حوالے سے کیے گئے اپنے تجزیے میں مونا شلابی نے بتایا کہ ’اسرائیلی حماس کی جانب سے شہریوں کو مارنے کے طریقے اور اپنے فضائی حملوں میں فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کے درمیان کسی بھی موازنے کو قبول نہیں کرتا‘۔

بی بی سی نے جس تعصب سے کام لیا اس کے لیے اس کا خصوصی ذکر کیا جانا چاہیے جو اس نے 10 اکتوبر سے 2 دسمبر 2023ء تک اپنی تحقیقاتی اسٹوریز میں روا رکھا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے لیے کتنی بار ’قتل عام‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے (اسرائیلیوں کے لیے 23 بار جبکہ فلسطینیوں کے لیے محض ایک بار ان کا استعمال ہوا)۔

تعجب کی بات نہیں کہ فلسطینیوں کے لیے ان کا رویہ معتصبانہ ہے۔

تاہم بہت سے آزاد انفرادی میڈیا آؤٹ لیٹس نے امریکا کی معتصب میڈیا کوریج کو بھی اجاگر کیا۔ مثال کے طور پر دی انٹرسیپٹ نے کہا، ’فلسطینیوں کی اموات کی تعداد اسرائیلیوں سے کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود نیو یارک ٹائمز، واشگٹن پوسٹ اور لاس اینجلس ٹائمز میں اسرائیل اور اسرائیلیوں کی تکرار زیادہ دکھائی دیتی ہے‘۔

ڈان مینا میڈیا تنظیم جو سعودی صحافی جمال خاشقجی نے 2018ء میں استنبول میں اپنے ہولناک قتل سے قبل قائم کی تھی، اس میں ولیمز یومنز ایک مطالعہ کا ذکر کرتے ہیں جس میں انہوں نےوسط اکتوبر اور وسط جنوری کے عرصےمیں امریکی ٹی وی شوز جیسے میٹ دی پریس (این بی سی)، فیس دی نیشن (سی بی ایس)، دس ویک (اے بی سی) اور فاکس نیوز سنڈے (FOX) کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے پایا کہ ان ٹاک شوز میں غزہ کو بڑے پیمانے پر اس عینک سے دیکھا گیا جوکہ اسرائیل کی حمایت یافتہ ہیں’۔

انہوں نے کیبل نیوز پر ایک اور تحقیق کا حوالہ دیا جس میں ’اسرائیل نواز فریمنگ اور بیانیے کو مراعات دینے کے شواہد پائے گئے‘۔ انہوں نے یہ بھی پایا کہ نومبر کے اوائل تک غزہ میں 11 ہزار فلسطینی شہید ہوئے لیکن غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالی ’اب بھی امریکی کیبل ٹی وی کی خبروں میں زیادہ توجہ حاصل کررہے تھے‘۔

ولیمز یومنز نے نشاندہی کی کہ مغربی میڈیا میں رپورٹ کیا جاتا ہے کہ ’فلسطینیوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے‘ لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ ایسا کر کون رہا ہے اور یہ ’اسرائیل کے جرم کو کم کرتا ہے‘۔

اپریل میں دی انٹرسیپٹ میں ریان گرائمز کی اسٹوری میں بھی کچھ اسی طرح کے نتائج سامنے آئے۔ وہ لوگ جن کے لیے معلومات کا ذریعہ صرف کیبل ہے وہ ’اسرائیل کی جنگی کاوشوں کے حامی ہیں اور اسرائیل کی جانب سے جنگی جرائم کے ارتکاب، اور مجموعی طور پر جنگ میں ہی کم دلچسپی رکھتے ہیں‘۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو سوشل میڈیا، پوڈ کاسٹ یا یوٹیوب سے معلومات حاصل کرتے ہیں، وہ ’فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم اور نسل کشی کا مرتکب ہے اور اس معاملے کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں‘۔

اپریل میں دی انٹرسیپٹ میں شائع رپورٹ میں نیویارک ٹائمز کا ادارہ جاتی میمو سامنے آیا کہ جس میں اسٹاف کو ہدایت کی گئی کہ وہ فلسطین لفظ کا استعمال کم سے کم حد تک محدود کریں اور ’صرف انتہائی غیرمعمولی صورت حال میں‘ اس کا استعمال کریں۔ میمو میں اسٹاف سے کہا گیا کہ وہ ’نسل کشی‘ اور ’نسلی امتیاز کی بنا پر لوگوں کو بےدخل کرنے‘ اور فلسطینی زمین کا ذکر کرتے ہوئے ’مقبوضہ خطے‘ جیسے الفاظ کے استعمال سے اجتناب کریں۔ نیویارک ٹائمز کے اسٹاف نے دی انٹرسیپٹ کو بتایا کہ ایسا ’معروضیت‘ کو برقرار رکھنے کی آڑ میں کیا گیا تھا۔

نیویارک ٹائمز کے نیوز روم میں موجود ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی انٹرسیپٹ کو بتایا کہ ’میرے خیال میں اس طرز کا اقدام اس وقت پیشہ ورانہ یا منطق پر مبنی لگتے ہیں کہ جب آپ کو فلسطین-اسرائیل تنازع کی تاریخ کا علم نہ ہو۔ لیکن اگر آپ اس سے واقف ہیں تو آپ کو احساس ہوجائے گا کہ یہ مؤقف اسرائیل کے لیے کتنا جانبدار ہے‘۔

یہ محض دکھاوے کے اصول نہیں ہیں۔ ان میں استعمال کی جانے والی اصطلاحات سے واضح ہے کہ جھکاؤ واضح طور پر اسرائیل کی جانب ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر کیوں ’قتلِ عام‘ اور ’خونریزی‘ جیسی اصطلاحات اسرائیلیوں کے لیے تو استعمال کی جاتی ہیں لیکن فلسطینیوں کے لیے نہیں؟

مغربی میڈیا کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ دہائیوں تک غیرانسانی سلوک روا رکھا گیا جس کا نتیجہ بلآخر غزہ میں نسل کشی کی صورت میں سامنے آیا۔ میں اسے نسل کشی صرف اس لیے نہیں کہہ رہی کیونکہ میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہوں یا میں یہ دیکھ سکتی ہوں کہ جابر کون ہے یا پھر میں نے رفح میں ایک باپ کو اپنے کمسن بچے کا بنا سر کا جسم اٹھائے دیکھا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے بھی اسے نسل کشی ہی قرار دیا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ یہ عالمی رہنماؤں، اقوام متحدہ، عالمی عدالتوں یا پالیسی سازوں وغیرہ کے لیے اہمیت نہیں رکھتی۔ امریکی صدارتی مباحثے میں ہم نے دیکھا کہ کیسے دونوں امیدوار اسرائیل کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے۔ لیکن بہت سے عرب اور مسلمان امریکیوں کے لیے غزہ تنازع انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ وہ نومبر کے انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کے حوالے سے تیاری کررہے ہیں۔

خاموش رہنا بھی جرم میں شراکت داری ہے

بہت سی کتابوں میں اسرائیل کی جانب میڈیا کے جھکاؤ کے حوالے سے لکھا جاچکا اور لکھا بھی جائے گا۔ لیکن موجودہ دور میں جس طرح اس جانبداری پر تنقید ہورہی ہے اس نے یہ آشکار کیا کہ آج کے دور کی آڈیئنس خبر کو کس طرح سے لیتے ہیں۔ یہ نیوز رومز میں تنوع کی کمی کے ایک دیرینہ مسئلے کو بھی اجاگر کرتا ہے جو صرف مختلف نسلوں کے لوگوں کو ملازمت دینے کے بارے میں نہیں بلکہ گلوبل ساؤتھ کی نمائندگی نہ ہونے کے بارے میں بھی ہے۔

اکتوبر 2023ء میں بی بی سی کے دو صحافیوں نے متعصب کوریج کا الزام عائد کرتے ہوئے ادارے سے استعفیٰ دیا۔ نیویارک ٹائمز کی میگزین ایڈیٹر جازمین ہیوز نے نومبر 2023ء میں غزہ میں جنگ کے خلاف مصنفین کی جانب سے ایک پٹیشن پر دستخط کرنے پر اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔

امریکا میں مقیم تقریباً ایک ہزار صحافیوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے جس میں مغربی ایڈیٹرز سے مطالبہ کیا گیا کہ ’وہ مخصوص اصطلاحات استعمال کریں جن کی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے تشریح کی گئی ہے جن میں نسل پرستی، نسلی امتیاز کی بنا پر زمین سے بےدخل کرنا اور نسل کشی شامل ہیں‘۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر کو اس کے آجر نے کہا کہ وہ درخواست سے اپنا نام ہٹوائے۔ اسی معاملے پر آرٹ فورم میگزین کے ایڈیٹر ڈیوڈ ویلاسکو کو ایک خط شائع کرنے اور ہزاروں فنکاروں کے دستخط کروانے پر برطرف کر دیا گیا۔ سیمافور میڈیا کے مطابق لاس اینجلس ٹائمز نے اپنے اسٹاف کے تین اراکین سے کہا کہ وہ اس صورت میں غزہ کے معاملے میں رپورٹنگ کرنے سے روک دیں گے کہ اگر وہ اسرائیل پر سخت تنقید کرنے والے اس خط پر دستخط کرتے ہیں۔

ایک فلسطینی امریکی فری لانسر صحافی ملک سلمیٰ نے اس سال جنوری میں الجزیرہ کے لیے ایک تحریر میں اس بارے میں لکھا کہ انہوں نے امریکا میں صحافت کیوں چھوڑی۔ ’میں نے وہ صحافت دیکھی جس کا میں حصہ بننا چاہتی تھی اور یہ ممکن تھا کہ میں اس کا حصہ بن جاتی لیکن مجھے ادراک ہوا کہ اس کے معیارات کا اطلاق میرے لوگوں پر نہیں کیا ہوسکتا۔

’میں نے ان کوششوں کو دیکھا جو حقائق کی تصحیح کرنے اور مقامی یوکرینی آوازوں کو توجہ دینے کے لیے کی گئی تھیں۔ میں نے وہاں رہتے ہوئے دیکھا کہ جو دوسروں کے لیے ممکن تھا، فلسطینیوں کے لیے نہیں تھا‘۔

میڈیا کے دوہرے معیار نے آڈیئنس میں بےاعتمادی کو ہوا دی۔

وال اسٹریٹ جرنل جیسے مایہ ناز اخبار نے جنوری میں ایک اسٹوری شائع کی تھی جس میں حماس اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کے 12 کارکنان کے درمیان روابط کا اشارہ دیا گیا تھا۔

اخبار نے اسرائیلی شواہد کا حوالہ دیا جن میں حملے میں 12 ارکان کے ملوث ہونے کی بات ہوئی۔ تاہم جیسا کہ سیمافور نے رپورٹ کیا یہ دعویٰ غیر مصدقہ تھا۔ دعووں کا جواب دیتے ہوئے اخبار کی ایڈیٹر ایلینا چرنی نے لکھا، ’حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی دعووں کے ٹھوس شواہد کی حمایت نہیں کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری رپورٹنگ غلط یا گمراہ کن تھی کہ ہم نے اسے واپس لے لیا، یا یہ کہ غلطی کی تصحیح کی جاسکتی ہے‘۔

اس اسٹوری کے اہم اثرات مرتب ہوئے جن میں کئی ممالک کی جانب سے غزہ کے لیے 45 کروڑ ڈالرز کی امداد روک دی گئی وہ بھی اس وقت کہ جب غزہ کو اس کی اشد ضرورت تھی۔ اشد ضرورت تو اب بھی ہے۔

تاہم جہاں اخبار اپنی اسٹوری پر قائم رہا اس کے سابق ایڈیٹر رچرڈ بوڈروکس نے تسلیم کیا کہ وال اسٹریٹ جنرل کا ’اسرائیل پر بہت زیادہ جھکاؤ تھا اور اس نے عرب نقطہ نظر بہت کم شامل کیا‘۔

بالکل اسی طرح اسرائیل کے قبضے کو جائز قرار دیا جاتا رہا اور فلسطینیوں کی شہادت کی رپورٹنگ کی جاتی رہی۔

جنریشن زی تبدیلی لائے گی

تاہم ولیمز یومنز لکھتے ہیں کہ رائے عامہ نے متوازی خبروں کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے عروج کی وضاحت کرتا ہے کیونکہ نوجوان معلومات کے لیے اب پرنٹ، ٹی وی یا کیبل استعمال نہیں کرتے۔ وہ جان اولیور یا جون اسٹیورٹ کے شوز دیکھتے ہیں کیونکہ وہ متبادل نقطہ نظر فراہم کرتے ہیں۔

نوجوان نسل نے امریکا بھر کی جامعات میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہروں کی قیادت کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہ بھی اس کے باوجود کہ ان مظاہروں کے سخت نتائج سامنے آئے اور میڈیا کی جانب سے انہیں خطرناک قرار دیا گیا۔ مظاہرین، یونیورسٹی کے منتظمین، پولیس حتیٰ کہ نیویارک کی سٹی یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈ کی مخالفت میں کھڑے ہوئے کہ جس نے علی الاعلان کہا کہ وہ نسل کشی کی حمایت کرتے ہیں اور ’تم سب لوگوں کو مار رہا ہے‘۔

اگرچہ گارڈ کو کالج نے معطل کردیا تھا لیکن اس واقعے کو بہت کم توجہ دی گئی بلکہ کولمبیا کے ایک مظاہر پر بار بار بات کی گئی کہ جس نے کہا تھا کہ ’صہیونی زندہ رہنے کے لائق نہیں ہیں‘۔ یونیورسٹی نے کہا کہ انہوں نے اس طالب علم پر پابندی لگا دی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ مذکورہ بالا دونوں میں سے کس کو معاشرے کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہوگا؟

اس نوجوان نسل کی استقامت قابل ذکر ہے۔ انہوں نے شیڈو بیننگ جیسے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ انہوں نے بائیکاٹ کے لیے مصنوعات کی فہرستیں تیار کی ہوئی ہیں، وہ فلسطین کے حق میں اپنی آوازوں کو مسخ کرنے کی تمام ترکوششوں کو مسترد کر رہے ہیں۔

مغربی میڈیا تو گریٹا تھیونبرگ کو فلسطین کی حمایت میں آواز اٹھانے کی وجہ سے ان کے خلاف ہوگیا۔ انہیں گزشتہ ماہ کوپن ہیگن میں ایک فلسطینی ریلی کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

اگر مغربی میڈیا اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بالخصوص نوجوان نسل میں اعتماد بحال کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنی رپورٹنگ میں بدلاؤ لانا ہوگا۔ YouGov اور دی اکانومنسٹ کی جانب سے جنوری میں منعقدہ ایک پول میں سامنے آیا کہ 2020ء میں جو بائیڈن کو ووٹ دینے والے نصف ووٹرز آج تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہے۔ صرف 20 فیصد نہ اس سے انکار کیا۔ یہ تمام مذکورہ بالا میڈیا کے تعصب اور ادارہ جاتی اصولوں کے باوجود ہوا جن کے تحت غزہ کی متعصب رپورٹنگ کی جارہی ہے۔

میڈیا صرف امریکی خارجہ پالیسیز نہیں دہرا سکتا جوکہ کافی حد تک اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔ انہوں نے جارج ڈبلیو بش کے دور میں عراق جنگ کے حوالے سے بھی یہی کیا تھا کہ جہاں بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے معاملے کے حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ (اور) ایمبیڈڈ صحافت کر رہے ہیں جس میں محض انصاف کے لیے فلسطین کے حوالے سے دو یا تین اسٹوریز شائع یا نشر کردی جاتی ہیں۔

ایڈورڈ سیڈ نے لکھا کہ اسرائیل فریب کی حالت میں مبتلا تھا۔ ’کچھ تناظر میں یہ سچ ہے کہ ایک نئی ریاست کے طور پر اسرائیل کی ابتدائی تاریخ ایک یوٹوپیائی فرقے کی تھی جو خود کو اردگرد کے ماحول سے لاتعلق رہ کر ایک نڈر مشن میں مصروف رہتے تھے۔ یہ اجتماعی فریب کتنا نقصان دہ اور کتنا المناک تھا، ہر دن گزرنے کے ساتھ یہ مزید واضح ہوتا جائے گا۔ بیداری میں کتنا وقت لگے گا اور مکمل طور پر شعور آجانے تک آخر کتنے درد سے گزرنا پڑے گا؟‘

کچھ تو تبدیل کرنا ہوگا۔ بس میں یہ نہیں جانتی کہ کہاں اور کب ایسا ہوتا ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مونا خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔