فلسطینی عوام کی نسل کشی کو روکنا ہوگا، وزیراعظم کی محمود عباس سے ملاقات
وزیراعظم شہباز شریف نے فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملاقات میں عالمی برادری سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنا ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور فلسطین کے صدر محمود عباس کے درمیان نیویارک میں اہم ملاقات ہوئی جس میں غزہ کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کی گئی۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین کے عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، اسرائیل فلسطین کے عوام کی نسل کشی کررہا ہے، اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کے دل فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، ایک سال کے دوران 41 ہزار مظلوم فلسطینیوں کو شہید کیا گیا، ان کے گھر تباہ کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ صہیونی فورسز نے شہر، دیہات، ہسپتال، اسکول اور بنیادی ڈھانچہ مکمل تباہ کردیا، تاریخ نے ایسی تباہی کبھی نہیں دیکھی جو فلسیطن میں کی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ وقت آگیا ہے سب اکھٹے ہوکر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کریں، اقوام عالم فلسطین کی آزاد ریاست کی تکمیل یقینی بنائے کیوں کہ آزاد فلسطین کے بغیر خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کے معاملے کو طوالت دی گئی جس سے دنیا کا امن تباہ ہوسکتا ہے جب کہ فلسطینی بھائیوں کی قربانیاں، صبر اور استقامت رائیگاں نہیں جائے گا اور ایک وقت آئے گا کہ آزاد فلسطین کا قیام ہوگا۔
فلسطین کے صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان ابتدائی دور 1948 سے پہلے فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان کے لیے جتنا ممکن ہوا فلسطینی بھائیوں کی مدد کی، عالمی برادری کے سامنے بھی پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کی مکمل حمایت کی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے گذشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد غزہ پر ناختم ہونے والی فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد میں فوری جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اسرائیلی حملے گزشتہ 11 ماہ سے جاری ہیں۔
اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے، جس نے جنوبی شہر رفح میں فوجی کارروائیوں کو روکنے کا حکم دیا تھا تاہم اسرائیل نے عالمی عدالت کا حکم مسترد کردیا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 42 ہزار 200 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جب کہ ان حملوں میں 93 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔