دنیا

بائیڈن کا جنگ بندی کے لیے نیتن یاہو پر زور، غزہ معاہدے تک پہنچنے کے امکانات معدوم

معاہدے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن قاہرہ میں جمعہ اور ہفتہ کو مذاکرات کے انعقاد کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اسرائیلی رپورٹ میں دعویٰ

غزہ میں 10 ماہ سے جاری جنگ میں سیز فائر کی امیدیں ہر گزرتے دن کے ساتھ موہوم ہوتی جا رہی ہیں اور امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم پر جنگ بندی کے لیے زور دیے جانے کے باوجود غزہ معاہدے تک پہنچنے کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔

10 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے بعد امریکا اور مذاکرات کے ثالث مصر اور قطر کے حکام اس ہفتے قاہرہ میں مذاکرات کے ایک نئے دور کے لیے ملاقات کرنے والے ہیں لیکن ابھی اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔

اسرائیل کے وحشیانہ حملوں اور بمباری نے تقریباً غزہ کو تباہ کر دیا ہے جس سے اس کی تقریباً تمام آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور محصور فلسطینی علاقے میں ایک انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔

اسرائیلی اخبار یدیوتھ اہرونوتھ نے مذاکرات سے باخبر عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نیتن یاہو کی جانب سے تجویز قبول کرنے کے بلنکن کے بیان کے حوالے سے امریکا نے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا ہے۔

اسرائیلی روزنامہ نے کہا کہ معاہدے کے امکانات بہت کم ہیں لیکن قاہرہ میں جمعہ اور ہفتہ کو مذاکرات کے انعقاد کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور مشرق وسطیٰ کے امریکی ایلچی بریٹ میک گرک کو پہلے ہی وہاں بھیجا جا چکا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق میں صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور معاہدے کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو منطقی انجام تک پہنچانے پر زور دیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ بائیڈن نے امریکا کی جانب سے مکمل تعاون دلاتے ہوئے کہا کہ وہ ایران اور اس کے اتحادیوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کی مدد کریں گے۔

حماس نے اتوار کو اپنے بیان میں امریکا پر معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی تجویز نیتن یاہو کی شرائط کے عین مطابق ہے۔

اسرائیل کے ہاتھوں اسمٰعیل ہنیہ اور فواد شکر کی شہادت کے بعد جنگ کے پورے خطے میں پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا جس کو روکنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جنگ بندی کے حوالے سے معاملات میں پیش رفت کے لیے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا تھا لیکن گزشتہ روز وہ کسی پیشرفت کے بغیر وطن واپس لوٹ گئے تھے۔

انٹونی بلنکن نے اپنے دورے کے دوران قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات نہیں کر سکے تھے اور اسے لیے انہوں نے ان سے ٹیلیفونک گفتگو کی۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے جنگ بندی کی حالیہ کوششوں پر تبادلہ خیال کیا اور اس بات کی توثیق کی کہ خطے میں کسی بھی فریق کو معاہدے تک پہنچنے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے اقدامات نہیں اٹھانا چاہیے۔

معاہدے میں ڈیڈ لاک کی سب سے بڑی وجہ غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کا حماس کا مطالبہ ہے لیکن اس پر رضامند نہیں۔

نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل مصر سے متصل فلسطینی سرحد پر فوجیں رکھنا چاہتا ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں فلڈیلفیا راہداری سے اسرائیل کی دستبرداری کے حوالے سے رپورٹس کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگ کے مقاصد کے حصول کے لیے خزہ کی جنوبی سرحد کا تحفظ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

حکومتی ترجمان ڈیوڈ مینسر کا کہنا ہے کہ حماس اس راہداری کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتا ہے۔

انٹونی بلنکن نے اپنے دورے کے دوران دوحہ میں گفتگو کے دوران فلڈیلفیا کا براہ راست ذکر کیے بغیر کہا تھا کہ امریکا، اسرائیل کے غزہ پر طویل مدتی قبضے کو قبول نہیں کرتا۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے جاری اس جنگ میں اب تک اسرائیل بمباری میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔