دنیا

غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات اگلے ہفتے تک موخر

گزشتہ ہفتے ہونے والے معاہدے کے نکات کی روشنی میں امریکا نے نئی تجویز پیش کی تاکہ کسی معاہدے پر تیزی سے عمل درآمد ممکن ہو سکے، بیان

غزہ میں سیز فائر کے لیے امریکا سمیت دیگر ثالثوں کی زیر نگرانی جاری مذاکرات کو اگلے ہفتے تک موخر کردیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے امریکا، قطر اور مصر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے معاہدے کے نکات کی روشنی میں امریکا نے نئی تجویز پیش کی تاکہ کسی معاہدے پر تیزی سے عمل درآمد ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ ثالث آنے والے دنوں میں اس تجویز پر کام جاری رکھیں گے۔

انہوں نے بیان میں کہا کہ جانیں بچانے، غزہ کے لوگوں کو راحت کی فراہمی اور علاقائی کشیدگی میں کمی کے لیے راستے کا تعین کیا جا چکا ہے۔

ایک اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ دوحہ میں ہمارا وفد جمعے کو وطن واپس جا رہا ہے اور توقع ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پیر کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات کریں گے۔

غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے کئی ماہ سے جاری مذاکرات کا نیا دور جمعرات کو شروع ہوا تھا جس میں اسرائیل اور ثالث شریک ہوئے تھے جبکہ حماس نے براہ راست مذاکرات میں شرکت نہیں کی البتہ انہیں مذاکرات کی تمام پیش رفت سے کیا جاتا رہا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ کے روز کہا کہ ہم جنگ بندی کے معاہدے سے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں، ہم نے ابھی معاہدہ نہیں کیا کیونکہ خطے میں بات چیت اگلے ہفتے تک موخر کردی گئی ہے۔

وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی معاہدے تک نہیں پہنچے لیکن ہم تین دن پہلے کے مقابلے میں معاہدے کے کہیں زیادہ قریب ہیں۔

حماس کے سینیئر عہدیدات سامی ابو زہری نے جمعے کے روز رائٹرز کو بتایا کہ امریکی انتظامیہ خراب مثبت ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ غزہ میں جنگ روکنے کا کوئی حقیقی ارادہ نہیں رکھتی اور صرف زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

حکام نے جمعہ کو اے ایف پی کو بتایا کہ حماس اسرائیل کی طرف سے دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے دوران پیش کی گئی نئی شرائط کو قبول نہیں کرے گا۔

ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ اسرائیل کی نئی شرائط میں مصر کے ساتھ متصل سرحد کے ساتھ غزہ کے اندر فوجیوں کو رکھنا شامل ہے۔

حماس کے ایک سینیئر عہدیدار عزت الرشق نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیل نے اس سے قبل ہونے والی بات چیت میں جن نکات پر اتفاق کیا تھا اس کی پاسداری نہیں کی۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے ٹیلی ویژن پر گفتگو میں کہا کہ دوحہ سے واپس آتے ہوئے ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن ابھی یہ صرف ایک قدم آگے ہے، اس سلسلے میں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ امن صرف اسی صورت میں ممکن ہو گا جب حماس کو تباہ کر دیا جائے جبکہ حماس عارضی جنگ بندی کے بجائے مستقل جنگ بندی پر مصر ہے۔

دیگر مشکلات میں معاہدے کی ترتیب، اسرائیلی یرغمالیوں کے ساتھ رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی تعداد اور شناخت، غزہ اور مصر کے درمیان سرحد پر کنٹرول اور غزہ کے اندر فلسطینیوں کی آزادانہ نقل و حرکت شامل ہیں۔

7 اکتوبر سے جاری اس جنگ میں گزشتہ 8 ماہ کے دوران 40ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں تاہم ماہرین کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔