دنیا

غزہ میں 40 ہزار سے زائد شہادتوں کے بعد جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے پہلے دور کا آغاز

مذاکرات کے دور کا آغاز ہو گیا ہے، جمعرات کو کسی معاہدے کے ہونے کا امکان کم ہے اور یہ جمعہ کو بھی جاری رہنے کا امکان ہے، جان کربی

غزہ میں 8 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ میں 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے بعد جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے پہلے دور کا آغاز ہو گیا اور مذاکرات کے تمام شرکا جمعہ کو دوبارہ ملاقات کریں گے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور رائٹرز کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے لیے ان مذاکرات کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے جہاں امریکا، مصر اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات میں امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان بھی شریک ہیں۔

وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کے ترجمان جان کربی نے تصدیق کی کہ مذاکرات کے دور کا آغاز ہو گیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ جمعرات کو کسی معاہدے کے ہونے کا امکان کم ہے اور یہ جمعہ کو بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔

ایک اور اہم امریکی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔

اس مذاکرات میں حماس شریک نہیں ہے لیکن اس مذاکراتی عمل میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے فریقین اس حوالے سے دوحہ میں موجود حماس کی مذاکراتی ٹیم سے مشاورت کا ارادہ رکھتے ہیں۔

دفاعی حکام نے بدھ کے روز بتایا کہ اسرائیل کے وفد میں خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا، ڈومیسٹک سیکیورٹی سروس کے سربراہ رونن بار اور فوج کے یرغمالیوں کے سربراہ نطزان ایلون شامل ہیں۔

دوحہ میں قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کی زیر سربراہی ہونے والے مذاکرات میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر بل برنز اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی بریٹ میک گرک کے ساتھ ساتھ مصر کے انٹیلی جنس چیف عباس کامل بھی شریک ہیں۔

اسرائیل اور حماس نے ایک دوسرے پر معاہدے کو ناکامی سے دوچار کرنے کا الزام عائد کیا ہے لیکن جمعرات کو ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں فریقین میں سے کسی نے بھی معاہدے کو مسترد نہیں کیا۔

جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات کاروں کی توجہ بائیڈن کی جانب سے پیش کیے گئے فریم ورک معاہدے پر عمل درآمد پر مرکوز ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج مذاکرات کا اچھا آغاز ہوا ہے، اس معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے اور ہمیں اس عمل کو بند کرنا چاہیے۔

جمعرات کی بات چیت کے آغاز میں حماس نے ثالثوں کو بتایا کہ اگر اسرائیل نے سنجیدہ تجویز پیش کی جو حماس کی سابقہ ​​تجاویز سے مطابقت رکھتی ہوں تو وہ مذاکرات کا حصہ بنیں گے۔

حماس کے سینیئر عہدیدار سامی ابو زہری نے جمعرات کو رائٹرز کو بتایا کہ ہم مذاکراتی عمل کے لیے پرعزم ہیں اور ثالثوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو ان تجاویز پر قائل کریں جس پر حماس نے جولائی کے اوائل میں اتفاق کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگ ختم ہو جائے گی لیکن اس کے لیے غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کے مکمل انخلا کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ یہ مذاکرات اس حوالے سے بھی اہم ہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر جوابی کارروائی کا اندیشہ ہے۔

عالمی برادری میں ایران کی اسرائیل کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی کے حوالے سے کافی ہلچل پائی جاتی ہے اور اس حوالے سے ایران نے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں صرف سیز فائر ہی ایران کو جوابی کارروائی سے روک سکتا ہے۔

ایک ذرائع کے مطابق ایک سینئر ایرانی سیکیورٹی عہدیدار نے کہا تھا کہ اگر غزہ میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں یا یہ تاثر جاتا ہے کہ اسرائیل مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کررہا ہے تو ایران حزب اللہ جیسے اپنے اتحادیوں کی مدد سے براہ راست حملہ کرے گا۔

نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برادری کی شرکت کے لیے ایران میں موجود اسمٰعیل ہنیہ کو تہران میں نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا اور ایران نے اس کارروائی پر سخت جوابی ردعمل کا عزم ظاہر کیا تھا۔

ایران کی ممکنہ جوابی کارروائی کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور امریکا نے اسرائیل کے دفاع کے لیے مشرق وسطیٰ میں بحری بیڑوں اور سب میرین کو تعینات کردیا ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک دونوں فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مرتبہ بھی مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے تو مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ بڑے پیمانے پر پھیل سکتی ہے جس کے بدترین نتائج برآمد ہوں گے۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں اب تک 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔