نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (اٹھارویں قسط)

مکران سے ملیر اور ملیر سے میرپور ساکرو تک بنی ہوئی اُن شاندار چوکنڈی قبرستانوں کی تخلیق کے سفر کی سیکڑوں کہانیوں میں سے ایک مختصر سی کہانی کا ذکر کرتے ہیں۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


گزشتہ قسط کا آخری جملہ یہ تھا کہ ’جلد ملتے ہیں اس ملیر بستی میں کہ یہاں مغرب اور شمال سے لوگوں اور مویشیوں کے بہت سے ٹولے آنے والے ہیں اور اس وادی میں ہنر و فن کی ایک نئی دنیا تخلیق ہونے والی ہے‘۔ اس جملے کے 40 الفاظ میں صدیوں کی ایک ایسی پُراسرار تاریخ پنہاں ہے جسے پڑھنے سے ہم ایک مختلف اور حیرت انگیز دنیا سے متعارف ہوتے ہیں۔

ایک ایسی دنیا اور ایسا گزرا وقت کہ آج کے شب و روز میں اگر ہم تصور بھی کرنا چاہیں تو شاید اُن صبح، دوپہر، شام اور رات کی تصاویر اپنے ذہن کے پردے پر نہیں بنا سکیں گے۔

ان گزرے زمانوں کی کوکھ میں جہاں خوف پلتا ہے وہاں وسیع اور کھلے میدان بھی ہیں جن پر شمال کی یخ بستہ ہوائیں بھی چلتی ہیں۔ کھلے آسمانوں پر بادل بھی گھر آتے ہیں اور ساون کی جھڑی بھی لگتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وادیاں ہریالی سے بھر جاتی ہیں۔ ہریالی جو آنکھوں کو اچھی لگتی ہے لیکن ساتھ میں چراگاہیں بھی ہیں اس لیے اس کے حصول کے لیے خون بہانا ضروری ہوجاتا ہے۔

بنیادی طور پر دنیا میں تمام جنگیں انا کی تسکین یا وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ خواہ وہ وسائل کسی ملک کے ہوں یا کسی چراگاہ کے۔ جنگ میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کا خون بہے گا، لاکھوں نہ سہی ہزاروں کا تو ضرور بہے گا۔

کراچی کی تاریخ کے اوراق میں ہم جو تاریخی واقعات پڑھنے والے ہیں وہ دکھ اور تکلیف دینے والے ضرور ہیں، مگر یہ دُکھ، تکلیف اور خون تاریخ کی گلیوں میں بہا ہے، اس لیے اسے بیان تو کرنا ہوگا۔ ورنہ دوسری صورت میں ہم ایک ایسے زمانے کی تاریخ سے نابلد رہیں گے جو کراچی کے اطراف میں قدیم گزرگاہوں اور بستیوں کے آنگنوں کو سرخ کرتی ہوئی گزری ہے۔ یہ ان نقل مکانیوں کی بھی تاریخ ہے جو ہزاروں برسوں سے شمال سے جنوب کی طرف یا پھر مغرب سے مشرق اور جنوب کی طرف ہوتی رہی ہیں۔

ہم اگر تاریخ سے دریافت کریں تو وہ ہمیں یہی بتائے گی کہ خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوشوں کے قافلے وسط ایشیا سے افغانستان کے راستے ہند و سندھ میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ ہم اگر تھوڑی دیر کے لیے اس زمانے میں چلے جائیں جب آریا شمال اور شمال مغرب کے ٹھنڈے علاقوں سے یہاں آئے اور مقامی آبادیوں کو کھدیڑنے میں جُت گئے اور دریا سندھ کے ہرے بھرے کناروں پر بیٹھ کر وید تخلیق کیے۔

وہ اپنی مقدس کتاب رگ وید میں مسلسل سندھو دریا کا ذکر کرتے ہیں۔ ساتھ ہی رگ وید میں وہ گزارشات بھی تحریر ہیں جو وہ سندھو ندی سے کرتے تھے، اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ ’اے سندھو تم محترم ہو، ہماری گزارش سنو اور اپنے پانی سے ہمارے وسیع و عریض کھیتوں کو سرسبز کردو‘۔

ہم جب یہ بات کرتے ہیں کہ آرین اندازاً 1500 قبل مسیح یعنی آج سے 3 ہزار 524 برس پہلے یہاں آئے تو مقامی لوگوں نے سندھو گھاٹی کی شاندار تہذیب کی جڑیں کاٹنے میں آریوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آریوں کی ایک نظم میں اھیر یا ابھیر قوم جو سندھو دریا کے جنوب میں رہتی ہے، اُس کا بھی ذکر ہے (جسے ہم سوراشٹر کے نام سے پہچانتے ہیں) جن کے پاس گائے، اونٹ، بھیڑیں اور بکریاں ہیں۔ مطلب دریا کے کنارے ایسے قبائل آباد ہیں جن کا ذریعہ معاش مویشیوں پر ہے۔

رگ وید سے اگر نتیجے اخذ کیے جائیں تو ہم جان لیتے ہیں کہ مقامی لوگ کھیتی بھی کرتے اور گلہ بان بھی تھے اور خوراک یا قربانیوں کے لیے گائیوں کو ذبح کرتے تھے کہ وہ وافر مقدار میں تھیں۔

سید محمد لطیف ویدوں کا حوالہ دے کر تحریر کرتے ہیں کہ ’دیوتاؤں سے استدعا کی جاتی تھی کہ ہمارے دشمنوں (یہاں کے مقامی سانولی رنگت کے لوگوں سے) کو کہیں دور تک باہر کرو، اے جنگی نقاروں، اپنی آوازوں سے آسمان اور زمین کو بھردو، تم جو اندرا اور دیوتاؤں کے ساتھی ہو، دشمنوں کے آگے آواز بلند کرو، ہماری شجاعت کو زندہ کرو، شیطانی ذہنوں کو اپنی گھن گرج سے ہراساں کر دو۔ اے نقارے انہیں شکست دو جو ہمیں نقصان پہنچا کر خوش ہوتے ہیں، تم اندرا کے پہلے ہتھیار ہو، ہمارے اندر حوصلہ پیدا کرو، اندرا ہمارے مویشی واپس لاؤ۔ ہمارے بہادر رہنما اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر جمع ہوئے ہیں۔ اے اندرا! ہمارے رتھوں پر سوار جنگجوؤں کو فتح سے ہمکنار کر۔‘

آرین ان دنوں تک جنگوں میں ہاتھیوں کے استعمال سے ناواقف تھے۔ رگ وید میں ایک پالتو ہاتھی کا ذکر ملتا ہے جو ایک اسر (آسورا) کا تھا۔ آریوں، سیاہ رنگ والے دراوڑ اور اسروں کا میں یہاں ذکر آپ سے اس لیے کررہا ہوں کہ ہم گیارہوں صدی کی جس کتھا کا ذکر کرنے والے ہیں جو مکران سے لےکر کراچی کے گردونواح سے جنوب میں سمندری کنارے تک پھیلی ہوئی تھی۔ میں اُن قدیم زمانوں کے واقعات کو تاریخ کے صفحات سے اس لیے چُن کر آپ تک پہنچا رہا ہوں کیونکہ ان کی گیارہویں صدی سے گہری وابستگی رہی۔

تاریخ میں اچانک کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ ایک تسلسل کا عمل ہے جس کی تار و پود کروڑوں، لاکھوں اور ہزاروں برسوں سے ہورہی ہے۔ اور ہم اس سے قبل بھی کسی قسط میں یہ بات تفصیل سے کرچکے ہیں کہ اگر گزری صدیوں کو سمجھنا ہے تو موجودہ منظرنامے کو اپنے ذہن سے بالکل بھی نکال دیں کیونکہ گزشتہ زمانے خاص طور پر جن زمانوں کا ہم ذکر کررہے ہیں، ان کا اب یہاں کچھ تعمیرات کے علاوہ کچھ باقی نہیں۔

برطانوی زمانے تک ملیر میں گھنے جنگل کا ذکر ملتا ہے مگر آج کل آپ کو وہاں چار جھاڑیاں تک اکٹھی نظر نہیں آئیں گی۔ بہرحال جب آریوں نے سندھو گھاٹی کے شہروں اور قابلِ ذکر بستیوں پر قبضہ کر لیا اور مقامی قوموں اور قبائل کو جنوب کی طرف کھدیڑ دیا تو اس وقت ہمیں مہاتما گوتم بدھ اور جین مت کی تحریک کی ہلچل نظر آتی ہے جو آنے والے سفید چمڑی والے آریوں کے خلاف مقامی لوگوں کی ایک تحریک تھی۔ اس تحریک کا ذکر بھر کسی وقت کریں گے۔

تو سندھو گھاٹی کی تہذیب کے خاتمے کے بعد ہمیں سندھ کا ذکر کم ہی ملتا ہے۔ 519 ق-م میں ایران کے دارا اعظم کا ذکر ملتا ہے جبکہ شمالی علاقے کو گندھارا اور جنوبی حصہ سندھو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پھر 325 ق-م میں سکندر اعظم یہاں آتا ہے۔ پھر چندر گپت موریا کی 187 ق-م تک سندھ سے جنوب میں کَچھ اور کاٹھیاواڑ (ابھیردیس یا سوراشٹر) تک اس کی حکومت رہی۔ پھر 184 سے 70 ق-م تک ہمیں یونانی باختری جتھے حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ (5۔ قافلے) اس کے بعد ہمیں انڈو ستھین کا عہد نظر آتا ہے۔

’مارسٹڈن‘ اس حوالے سے لکھتے ہیں، ’جو قومیں وسط ایشیا میں آباد تھیں، یونانی ان کو ستھین اور ان کے وطن کو ستھیا کہتے تھے۔ ان میں بہت سی قومیں تھیں۔ 500 برس سے اوپر (یعنی 150 ق-م سے 400ء تک) یہ قومیں یکے بعد دیگرے انہیں راستوں سے آتی رہیں جہاں سے آرین آئے تھے۔ یہ کشمیر، افغانستان، پنجاب، سندھ، گجرات اور وسط ہند کے مغربی حصے میں آباد ہوئیں۔ ان میں سے جو قومیں ابتدا میں آئیں وہ ’سکا‘ تھے، یہ لوگ سندھ، مالوہ، کچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات پہنچے۔

’تمام ’ستھین‘ قومیں حملہ آور نہیں تھیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی قبیلے تھے جو اپنے مال مویشیوں کے ساتھ یہاں سکونت اختیار کرنے کے لیے آئے تھے، ان کا ایک وسیع جتھا شمال سے جنوب کی طرف دریائے سندھ کا کنارہ لے کر سندھ میں پہنچا اور آباد ہوا۔ تاریخ انہیں ’انڈو ستھین‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وسطی ایشیا سے آئے تھے اور آرین کی جڑ میں شمار کیے جاتے تھے‘۔

محرم خان اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ عربوں کے یہاں آنے سے صدیوں پہلے جو چراگاہی کے دور کی ابتدا ہوئی تھی وہ اب بھی جاری تھا۔ انڈو ستھین میں سے جو آکر یہیں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر اور آگے جنوب میں کچھ اور کاٹھیاواڑ تک بس گئے، انہیں ’ابھیر‘ کہا گیا یعنی گائیں، بکریاں، بھیڑیں، اونٹ پالنے والے۔ ان کی ملی جلی بولی جانے والی زبان کو ’ابھیرن بھاشا‘ (اپبھرنش) کہا گیا۔ اس بولی کا زمانہ صوتیات پر کام کرنے والے محققین نے چوتھی سے پانچویں صدی عیسوی میں مقرر کیا ہے۔ یہ نظم کہنے کے لیے ایک شاندار زبان رہی جس کا مرکز کچھ، کاٹھیاواڑ رہا۔

انڈو ستھین کے حوالے سے آپ نے اگر ڈاکٹر ڈائسگرڈ، کننگھام اور ٹوڈ کی تحقیق کا مطالعہ کیا ہے تو آپ یہ یقیناً اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ جنوبی سندھ میں بسنے والے جت، چانگ، مہیری یا کچھ اور نیم خانہ بدوش قبیلے ہیں جن کا تعلق ابھی تک مال مویشی چرانے سے ہے۔ بلکہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ کراچی ملیر کے جنوب میں میرپور ساکرو، کیٹی بندر، جاتی (یہ نام جت قبیلہ کی وجہ سے پڑا ہے)، تحصیل گولاڑچی اور ساحلی کنارے تک آپ کو یہ تینوں انڈو ستھین قبیلوں کی سیکڑوں بستیاں ملیں گی۔

جت اور مہیری ابھی تک اونٹ پالتے ہیں۔ لاڑ (لوئر سندھ) میں آپ جہاں بھی جائیں آپ کو اونٹوں کے بے تحاشا ریوڑ دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ James Mc Murdo اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’سندھ کے ڈیلٹا علاقے میں چونکہ پانی کی جھیلیں اور تالاب زیادہ ہیں تو یہاں آپ کو اونٹ بے تحاشا دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ یہاں اونٹوں کی موجودگی ضروری بھی ہے کیونکہ بیوپاریوں کے قافلے اونٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن پر سامان لدا ہوتا ہے۔

یہ قافلے جنوبی سندھ کے سمندری کنارے سے چل کر قندھار تک جاتے ہیں۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں یا دور کی منزل کے لیے اونٹ کی سواری مناسب سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ جنگوں میں بھی اونٹ استعمال ہوتے ہیں کہ یہاں سندھ میں جنگی اوزاروں کو اونٹ پر بیٹھ کر استعمال کرنے کا رواج ہے۔ ساتھ میں یہ رہٹ، مختلف بیجوں سے تیل نکالنے کے لیے کولہو میں اور کھیتی باڑی میں بھی اونٹ کا استعمال ہوتا ہے اور یہ پالنے والے انڈوستھین لوگ اونٹنی کا دودھ بھی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔’

اس قسط میں ہمارا بنیادی موضوع، سندھ میں چراگاہوں کی تلاش میں آنے والے قبائل ہیں۔ اس لیے میں نے یہ کوشش کی ہے کہ اس حوالے سے آپ کو بنیادی حقائق جو قبل مسیح زمانے سے تاریخ کے صفحات میں ملتے ہیں ان کا مختصر تعارف کروادوں۔ ٹھنڈے علاقوں سے آرین کا آنا اور پھر دھیرے دھیرے مقامی قبائل کو جنوب کی جانب کھدیڑ دینا اور خود مالک ہوکر بیٹھ جانا۔

اس کے بعد ان چراگاہوں کی تلاش میں جو بہت سے ستھین قبیلے شمال اور مغربی ٹھنڈے علاقوں سے سندھو دریا کے مغربی کنارے، کوہستان، جنوبی سندھ اور کَچھ اور کاٹھیاواڑ تک پھیل گئے۔ وہ سب چراگاہوں کی تلاش میں آئے تھے اور چونکہ ان کے جانوروں کے ریوڑوں کے لیے حالات سازگار اور چارہ بے تحاشا تھا تو وہ یہیں کے ہوکر رہے۔

ممکن ہے کہ ان چراگاہوں کے حوالے سے اس سے پہلے یہاں بسنے والے لوگوں سے تُو تُو میں میں بھی ہوئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ انسانوں کی سانس کی ڈور بھی کسی تیز درانتی سے کٹ گئی ہوں مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب جلد ہی ٹھیک ہوگیا ہوگا کیونکہ جب فریقین کے مفاد ایک جیسے ہوں تو ساتھ رہنا مجبوری کے قالب میں ڈھل کر ممکنات کے راستے کھول دیتا ہے۔

ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 900ء سے 1250ء تک گرم اور نمی والا دور تھا۔ ایسے موسم میں بارشیں زیادہ پڑتی تھیں اور سندھو دریا جل تھل بہتا تھا۔ پانی کی فراوانی کی وجہ سے اناج کی کمی نہیں تھی اور چراگاہیں بے تحاشا تھیں اور چارے سے بھرپور تھے تو یقیناً دودھ، مکھن اور گوشت کی فراوانی کے ساتھ معاشی حالات بھی بہتر رہے ہوں گے۔ اسی زمانے میں تھر اور کوہستان کی چراگاہیں چارے اور دیگر جڑی بوٹیوں اور خوراکی درختوں سے بھری رہتی ہوں گی جس کی وجہ سے بندرگاہوں سے باہر بھیجنے والی بہت سی اشیا ہوں گی۔

ان اچھے موسم والے برسوں کے بعد یعنی 1200ء کے بعد موسم میں تبدیلی کی ابتدا ہوئی۔ موسم کے ٹھنڈے زمانے کی شروعات ہوئی، بارشیں کم ہونے لگیں، دریا کے پانی میں کمی آنی شروع ہوئی۔ ہاکڑے کا سندھ کے مشرق میں جو شاندار بہاؤ تھا ممکن ہے اس کے خشک ہونے میں موسمیاتی تبدیلی کا ہاتھ ہو۔ ایم ایچ پنوہر صاحب کے مطابق دریا کے پانی کے بہاؤ میں کمی کے باعث دریا اپنے راستہ زیادہ تبدیل نہیں کرسکتا تھا۔ یہ سومرا دور کے لیے 1200ء سے 1300ء تک انتہائی پریشان کُن موسم رہا ہوگا۔

ان دنوں میں شمال مغرب سے کچھ قبائل نے جنوب کی جانب نقل مکانی کی مگر اس سے پہلے میں آپ کو نقل مکانی کے متعلق ایک اور مختصر سی حقیقت کلیم اللہ لاشاری صاحب کی زبانی بتاتا ہوں، ’کرمان اور مکران کی جانب نقل مکانی کرنے والے خانہ بدوش ایرانی قبائل سے کئی گروہوں جن کے اصلی گھر کیسپین سمندر کے ملحقہ علاقوں میں واقع تھے، نے بلوچ نسلی اور لسانی برادری کی تشکیل کی۔ اس صورت میں یہ نقل مکانی پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے اوائل میں ہوئی ہوگی یا اس سے تھوڑا پہلے بھی ممکن ہے۔

’یہ ممکنات کے دائرے میں آتا ہے کہ یہ عمل حالیہ غیتار اور آذربائیجان کے علاقے میں بسنے والے قبائل کے خلاف خسرو اول کی کارروائی یا ہپتالیوں کے شمالی ایران پر حملہ کرنے کی وجہ سے ہوا ہو۔

’مسلم مصنفین بلوچوں کو ساتویں صدی کے وسط سے کرمان کے پہاڑوں اور میدانوں کا باسی بتاتے ہیں۔ دسویں صدی کے اواخر تک بھی بلوچ زیادہ تر کرمان کے مغربی اور شمالی علاقوں میں بسے ہوئے تھے۔ ال اصطخری کے مطابق بلوچوں کی طرزِ زندگی نیم خانہ بدوشی، مویشی پالنا اور سنبھالنا تھی۔ یہ آبادی صحرا اور مشکل پہاڑی علاقوں میں رہتی ہوئی نظر آتی ہے‘۔

کلیم اللہ لاشاری کے مطابق، ’غزنی کے حکمران سبکتگین (977ء سے 997ء) نے شمالی مشرقی بلوچستان پر لشکر کشی کی تھی۔ خضدار پر ان کے جانشین نے قبضہ کیا بعدازاں محمود اس شہر کا قبضہ اس کے سابقہ حکمران کے ہاتھوں گنوا بیٹھا۔ بیہقی کے مطابق غزنی کا مکران پر راج تھا جو محمود کے ایام میں خراج دیتا تھا۔

’گیارہویں صدی کے وسط میں ترکمان، سلجوق اقوام کی شمال مشرقی ایران میں نقل و حرکت نے بلوچی قبائل کی نقل مکانی کو تیز کردیا۔ یہ نقل مکانی زیادہ تر سیستان اور شمالی کرمان سے مزید مشرق کی جانب یعنی مکران میں ہوئی‘۔

مارکو پولو کا حوالہ دے کر کلیم اللہ لاشاری تحریر کرتے ہیں کہ لوٹ مار کے مقصد سے کی گئیں غزنویوں اور غوریوں کے حملے بالخصوص منگولوں کے حملوں میں نکودری ایک اہم حصہ تھے جو تیرہویں صدی کے دوران مغربی افغانستان اور مشرقی ایران میں بسے ہوئے تھے۔ لوگوں کو قتل اور تتر بتر کرکے نخلستانی کاشت کاری کو تباہ کردیا جس کی وجہ سے مستقل آبادیوں میں رہنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ اس صورتحال نے بلوچوں کو مکران سے شمال اور شمال مشرق کی جانب پنجاب اور سندھ کی سرحدوں تک دھکیل دیا۔

ایک اور اُتھل پُتھل بلوچ پناہ گزینوں کو چودہویں صدی کے اوائل میں لسبیلہ اور زیریں سندھ تک لے آئی۔ دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ بلوچوں کو کرمان اور سندھ کے درمیان وسیع علاقے میں منتشر کیا ہوگا۔ چراگاہیں محدود تھیں جس کی وجہ سے ضروریات پوری نہیں ہوتی ہوں گی۔ اس لیے نئے میدانوں اور چراگاہوں کی کھوج تو یقینی تھی۔ قبائل کے درمیان جنگیں اور فساد بھی اکثر و بیشتر ہونے لگے اور جو جنگ کا میدان جیتتا، اس کے آگے سر جھکانا پڑتا یا یہ علاقہ چھوڑ کر نئے چراگاہوں کی تلاش میں نکلنا پڑتا۔

ہم لاشاری صاحب سے فی الوقت اجازت لیتے ہیں اور کراچی پر کام کرنے والے محنتی انسان گل حسن کلمتی سے ایک چھوٹی سی کہانی سن لیتے ہیں۔

’مہر پہاڑی کراچی کوہستان کی دیہہ میں سے ایک ہے۔ یہ پہاڑ 20 میل لمبا اور 15 میل چوڑائی میں پھیلا ہوا ہے۔ اس پر 7 گاؤں آباد ہیں، یہاں مہر جبل کے ایک کونے پر آپ اگر دیکھنا چاہیں تو آپ کو قدیم انسانی بستیوں کے اور گبربند کے آثار دیکھنے کو مل جائیں گے۔ گبربند کا ہونا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قدیم زمانے میں ارتقائی انسان ان بندوں کے ذریعے بارش کا پانی روکتا، چھوٹے چھوٹے ڈیم بناتا اور اناج کے بیج بوتا۔ یہاں پہاڑی میں سے دوسری جگہ پر پانی پہنچانے کے لیے پتھر کو تراش کر بنائی گئی نالی بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔

’مہر جبل کے ساتھ عبداللہ کانڑی نامی گاؤں کے اسٹاپ کے قریب ایک پرانا قبرستان ہے۔ اس قبرستان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں جوکھیوں اور برفتوں کی جنگ لگی تھی۔ یہ جنگ ’لوٹی واری جنگ‘ (کٹوری والی جنگ) کے نام سے مشہور ہے۔ اس جنگ میں جو مارے گئے انہیں یہاں دفن کیا گیا‘۔

اس لڑائی کے اسباب کے متعلق کلمتی صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ ’روایت کے مطابق جوکھیوں کے کچھ آدمیوں کی ٹولی گھوڑوں پر یہاں سے گزر رہی تھی، گرمی کی وجہ سے انہیں زیادہ پیاس لگی تو بستی دیکھ کر پینے کے لیے پانی مانگا۔ راستے اور گھروں میں کوئی مرد نہیں تھا تو عورتوں نے پانی کٹوریوں میں دیا۔ انہوں نے پانی پی کر کٹوریاں واپس نہیں کیں اور چل دیے۔ جب مرد گھر آئے تو عورتوں نے یہ بات انہیں بتائی۔ برفتوں نے اس حرکت کو اپنی تذلیل سمجھا اور اس تذلیل کا بدلہ لینے کے لیے گھوڑوں پر نکل پڑے اور اس جگہ پر آ پہنچے۔ لڑائی ہوئی جو لڑائی میں مارے گئے، انہیں اسی مقام پر دفن کیا گیا تب سے یہ قبرستان ہے‘۔

یہ مکران سے ملیر اور ملیر سے میرپور ساکرو تک بنی ہوئی اُن شاندار چوکنڈی قبرستانوں کی تخلیق کے سفر کی سیکڑوں کہانیوں میں سے ایک مختصر سی کہانی تھی جو میں نے آپ کو سنائی۔ ایسی کئی لڑائیاں ہیں جو لڑی گئیں، یہ بنیادی طور پر معاشیات اور اناؤں کی جنگیں تھیں جو اس طویل شاہراہ پر لڑی گئیں اور جنگوں میں بہے خون سے تخلیق ہوئیں۔

ہم جلد ہی لوٹتے ہیں اُن میدانوں میں جہاں اناؤں کے سوکھے جنگل اُگتے ہیں اور جنہیں آگ لگانے کے لیے بس اَنا کی ایک چھوٹی سی معمولی چنگاری کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔