دنیا

غزہ میں صرف سیز فائر ہی ہمیں اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی سے روک سکتا ہے، ایران

رواں ہفتے ہونے والے مذاکرات میں صرف سیز فائر معاہدہ ہی ایران کو اسرائیلی حملے کے خلاف براہ راست جوابی کارروائی سے روک سکتا ہے، ایرانی عہدیدار

عالمی برادری میں ایران کی اسرائیل کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی کے حوالے سے کافی ہلچل پائی جاتی ہے اور اس حوالے سے ایران نے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں صرف سیز فائر ہی ایران کو جوابی کارروائی سے روک سکتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ایک سینئر ایرانی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رواں ہفتے ہونے والے مذاکرات میں صرف سیز فائر معاہدہ ہی ایران کو اسرائیلی حملے کے خلاف براہ راست جوابی کارروائی سے روک سکتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی سرزمین پر حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ شہید ہو گئے تھے۔

ایک ذرائع کے مطابق ایک سینئر ایرانی سیکیورٹی عہدیدار اگر غزہ میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں یا یہ تاثر جاتا ہے کہ اسرائیل مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کررہا ہے تو ایران حزب اللہ جیسے اپنے اتحادیوں کی مدد سے براہ راست حملہ کرے گا۔

اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ ہمارا جواب بروقت ہو گا اور اسے اس طرح سے انجام دیا جائے گا جس سے ممکنہ سیز فائر کے امکانات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔

تاہم ایران کی وزارت خارجہ نے منگل کو اپنے بیان میں کہا کہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیلیں بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے خلاف ہیں۔

نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برادری کی شرکت کے لیے ایران میں موجود اسمٰعیل ہنیہ کو تہران میں نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا اور ایران نے اس کارروائی پر سخت جوابی ردعمل کا عزم ظاہر کیا تھا۔

اسرائیل نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی۔

ایران کی ممکنہ جوابی کارروائی کے پیش نظر امریکا نے اسرائیل کے دفاع کے لیے مشرق وسطیٰ میں بحری بیڑوں اور سب میرین کو تعینات کردیا تھا۔

امریکا نے اس کشیدگی کے پیش نظر اپنے مختلف اتحادیوں سے رابطہ کر کے صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور ترکی میں ایرانی سفیر نے تصدیق کی کہ امریکا نے اپنے اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ ایران کو کشیدگی میں کمی کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے رواں ہفتے کوئی کارروائی کی جا سکتی ہے، یہ امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل کا بھی تجزیہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس ہفتے کچھ ہوتا ہے تو اس کی ٹائمنگ کے اثرات مذاکرات پر مرتب ہو سکتے ہیں جو جمعرات کو ہونے والے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک دونوں فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا تاہم اب مذاکرات کا اگلا دور جمعرات کو ہو گا لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مرتبہ بھی مذاکرات ناکامی سے دوچار ہوئے تو مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ بڑے پیمانے پر پھیل سکتی ہے۔