دنیا

تہران گیسٹ ہاؤس میں مہینوں پہلے نصب بم سے اسمٰعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا، امریکی اخبار

دھماکا اسمعیل ہنیہ کے کمرے کے اندر ہوا، ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دھماکا خیز مواد کچھ دیر پہلے وہاں رکھا گیا تھا، ایرانی حکام

حماس کے سرکردہ رہنما اسمٰعیل ہنیہ کو تہران کے گیسٹ ہاؤس میں خفیہ طور پر اسمگل کیے گئے دھماکا خیز مواد کے ذریعے شہید کیا گیا، جہاں وہ قیام پذیر تھے۔

نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ نے مشرق وسطی کے 5 اور ایران کے 2 حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مشرق وسطیٰ کے 5 عہدیداران نے کہا ہے کہ بم تقریباً 2 ماہ قبل گیسٹ ہاؤس میں چھپایا گیا تھا، گیسٹ ہاؤس کی دیکھ بھال اور سیکیورٹی کی ذمہ داری پاسداران انقلاب کی تھی، یہ گیسٹ ہاؤس شمالی تہران کے محلے میں واقع ایک بڑے کمپاؤنڈ کا حصہ ہے، جسے نیشات کہا جاتا ہے۔

اسمٰعیل ہنیہ صدارتی حلف برداری کے لیے ایران کے دارالحکومت میں موجود تھے، عہدیداران نے بتایا کہ جب اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ حماس رہنما گیسٹ ہاؤس میں اپنے کمرے کے اندر موجود ہیں، تب ریموٹ کے ذریعے بم دھماکا کیا گیا،اس دھماکے میں ایک محافظ بھی شہید ہوگیا۔

2 ایرانی حکام کے مطابق، پاسداران انقلاب کے ارکان نے واقعے کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ دھماکے سے عمارت ہل گئی، کچھ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور ایک دیوار کا کچھ حصہ منہدم ہوگیا، اس طرح کا نقصان نیویارک ٹائمز کے ساتھ شیئر کی گئی عمارت کی تصویر میں بھی واضح ہے۔

مشرق وسطیٰ کے حکام کے مطابق اسمعیل ہنیہ، جنہوں نے قطر میں حماس کے سیاسی دفتر کی قیادت کی تھی، تہران کے دورے پر کئی بار گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے، تمام عہدیداران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر قتل کے بارے میں حساس تفصیلات بتائیں۔

ایرانی حکام اور حماس نے بدھ کو کہا کہ اسرائیل اس قتل کا ذمہ دار ہے، نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر امریکی حکام نے بتایا کہ اس بات کا اندازہ کئی امریکی افسران نے بھی لگایا ہے، اس قتل نے مشرق وسطیٰ میں تشدد کی ایک اور لہر کو جنم دینے اور غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات کو روکنے کا خدشہ پیدا کردیا ہے کیونکہ اسمعیل ہنیہ جنگ بندی کے مذاکرات کا ایک اہم کردار تھے۔

اسرائیل نے عوامی طور پر اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن مشرق وسطیٰ کے پانچ عہدیداران کے مطابق، اسرائیلی انٹیلی جنس حکام نے اس کے فوراً بعد امریکا اور دیگر مغربی حکومتوں کو آپریشن کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔

بدھ کو سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی جے بلنکن نے کہا کہ امریکا کو قتل کی سازش کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں ملی تھی۔

اسمعیل ہنیہ کی شہادت کے چند گھنٹے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں کہ اسرائیل نے اسمٰعیل ہنیہ کو میزائل حملہ کر کے قتل کردیا، یہ میزائل ممکنہ طور پر ڈرون یا ہوائی جہاز سے فائر کیا گیا جس طرح اپریل میں اسرائیل نے اصفہان میں ایک فوجی اڈے پر میزائل داغا تھا۔

اس میزائل تھیوری نے سوال اٹھائے کہ اسرائیل ایرانی دارالحکومت میں اس طرح کے فضائی حملے کو انجام دینے کے لیے ایرانی فضائی دفاعی نظام سے دوبارہ کیسے بچ سکتا ہے؟

اس سے یہ پتا چلتا ہے مبینہ طور پر حملہ آور سخت حفاظتی کمپاؤنڈ کی حفاظت کرنے میں ایران کی کوتاہی سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ اس سیکیورٹی لیپس کی وجہ سے ہی بم کو ہفتوں پہلے کمرے میں نصب کیا گیا اور کئی ہفتوں تک یہ بم چھپا بھی رہا۔

3 ایرانی حکام نے کہا کہ اس طرح کی خلاف ورزی ایران کے لیے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کی تباہ کن ناکامی اور گارڈز کے لیے ایک زبردست شرمندگی کا باعث تھی، جو اس کمپاؤنڈ کو اعتکاف، خفیہ ملاقاتوں اور اسمعیل ہنیہ جیسے ممتاز مہمانوں کی رہائش کے لیے استعمال کرتے تھے۔

بم کو گیسٹ ہاؤس میں کیسے رکھا گیا یہ واضح نہیں ہے، مشرق وسطیٰ کے حکام نے کہا کہ اس قتل کی منصوبہ بندی میں مہینوں لگے اور اس کمپاؤنڈ کی وسیع نگرانی کی ضرورت تھی، قتل کی نوعیت کے بارے میں بتانے والے ایرانی عہدیداران نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کمرے میں دھماکا خیز مواد کیسے اور کب نصب کیا گیا؟

ایرانیوں سمیت مشرق وسطیٰ کے حکام نے بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق رات 2 بجے کے قریب ڈیوائس پھٹ گئی، حکام کا کہنا تھا کہ عمارت میں موجود عملے کے ارکان چونک گئے اور وہ شور کا ذریعہ تلاش کرنے کے لیے بھاگے جو انہیں اس کمرے تک لے گیا جہاں اسمعیل ہنیہ قیام پذیر تھے۔

کمپاؤنڈ میں ایک طبی ٹیم عملہ موجود تھا جو دھماکے کے فوراً بعد حماس رہنما کے کمرے میں پہنچ گیا، ٹیم نے اعلان کیا کہ اسمعیل ہنیہ موقع پر ہی شہید ہوگئے تاہم طبی عملے نے محافظ کو زندہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بھی جاں بحق ہوگئے۔

2 ایرانی عہدیداروں نے بتایا کہ فلسطینی اسلامی جہاد کے رہنما زیاد النخالہ، ساتھ والے کمرے میں ہی قیام پذیر تھے لیکن ان کے کمرے کو بری طرح سے نقصان نہیں پہنچا، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس حملے میں خاص طور پر اسمعیل ہنیہ کو ہی نشانہ بنایا گیا۔

مشرق وسطیٰ کے عہدیداروں کے مطابق، غزہ پٹی میں حماس کے ڈپٹی کمانڈر خلیل الحیا، جو اُس وقت تہران میں موجود تھے، جائے وقوعہ پر پہنچے اور اپنے ساتھی کی میت کو دیکھا۔

تین ایرانی عہدیداروں نے کہا کہ فوری طور پر مطلع کیے جانے والے لوگوں میں جنرل اسمعیل غنی شامل تھے جو کہ پاسداران انقلاب کی سمندر پار بازو قدس فورس کے کمانڈر ان چیف ہیں، قدس فورس خطے میں ایرانی اتحادیوں بشمول حماس اور حزب اللہ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے، حکام نے بتایا کہ انہوں نے آدھی رات کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو بھی اس حوالے سے مطلع کیا۔

ایرانی حکام کے مطابق دھماکے کے 4 گھنٹے بعد پاسداران انقلاب نے ایک بیان جاری کیا کہ اسمعیل ہنیہ ایک حملے میں شہید ہوگئے ہیں، صبح 7 بجے تک آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اراکین کو ایک ہنگامی اجلاس کے لیے اپنے کمپاؤنڈ میں طلب کرلیا اور انہوں نے جوابی کارروائی میں اسرائیل پر حملہ کرنے کا حکم جاری کیا۔

ایران میں قتل کا طریقہ افواہ اور تنازع کا موضوع بنا رہتا ہے، گارڈز کے میڈیا آؤٹ لیٹ تسنیم نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ عینی شاہدین نے بتایا کہ میزائل جیسی چیز اسمعیل ہنیہ کے کمرے کی کھڑکی سے ٹکرا کر پھٹ گئی۔

لیکن حملے کی بریفنگ میں موجود ایرانی عہدیداران نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکا اسمعیل ہنیہ کے کمرے کے اندر ہوا اور کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ دھماکا خیز مواد کچھ دیر پہلے وہاں رکھا گیا تھا۔