نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (سترہویں قسط)

چھ متاروں نے موکھی سے ضد کہ وہ اسے شراب پلائیں حالانکہ مے خانے میں شراب ختم ہوچکی تھی، تھک کر موکھی نے ایک پرانے مٹکے سے انہیں شراب دی جس کی تہہ میں ایک مرا ہوا سانپ موجود تھا۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


زندگی ساکت نہیں رہتی، اگر ساکت ہوجائے وہ زندگی ہی نہیں۔ زندگی ایک تسلسل کا نام ہے اور ہم سب اس تسلسل سے جُڑے ہوئے ہیں۔

ہم انسانوں میں کچھ کیفیات ایسی بھی ہیں جن کے درمیان کوئی سرحد کوئی زبان حائل نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ زمین کے اس کونے سے لے کر دوسرے کونے تک، ماں کی آنکھوں سے اپنے اولاد کے بچھڑنے کے دُکھ اور درد میں آنسو ایک ہی کیفیت میں بہتے ہیں۔ ماں کے چہرے پر اپنی اولاد کی پہلی کلکاری سُن کر کسی کنول کے پھول کی مہک جیسی جو مسکان کھلتی ہے، وہ مسکان اس دھرتی پر بستی تمام ماؤں کی ایک ہی جیسی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم تمام انسان غم اور خوشی کی ایک ہی ڈور سے بندھے ہوئے ہیں اور اس ڈور پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔

گزشتہ قسط میں ہم نے اُس مقام کو تلاش کرلیا تھا جس نے کلاچی یا کراچی نام کو ہماری زبان تک پہنچایا۔ یہ مقام یا گرداب والا سمندری حصہ موجودہ کراچی شہر کے قریب تھا۔ یہ کہنے کے لیے ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

یہ علاقہ کلفٹن اور منوڑے کے درمیان میں تھا یا ہے، اس کے متعلق ہمیں ایرین (Arrian) بتاتا ہے اور کلیان آڈوانی بھی اسی جگہ اویسٹر راکس (Oyster Rocks) کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری پر باریک بینی سے کام کرنے والے کلیان آڈوانی لکھتے ہیں کہ ’کلاچی جو کُن (گرداب) کلفٹن اور منوڑے کے درمیان تھا۔ مورڑو جب شارک (منگر) کو کنارے پر لایا اور خود صحیح سلامت منگر کے پیٹ سے نکل آیا تب شارک جو ابھی کچھ زندہ تھی، لوگوں نے اسے مار کر اُس کا پیٹ چاک کیا اور مورڑو کے چھ بھائیوں کی باقیات نکالیں۔ باقیات کو جا کر پہاڑی کے دامن میں دفن کیا اور مورڑو وہاں مجاور ہوکر بیٹھ گیا۔

’یہ مقام موجودہ کراچی شہر سے دو میل دور ہے اور ابھی تک قائم ہے اور مورڑو کی وفات کے بعد اسے بھی وہیں دفن کیا گیا تھا۔ یہ کراچی کے مغرب میں آج بھی موجود ہے جو ’مورڑی جو مقام (قبرستان)‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‘۔

کلیان آڈوانی کی یہ تحریر 1958ء میں شائع ہوئی جس سے یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مورڑو کا قبرستان جہاں ہے، وہ حصہ ایک زمانے میں سمندر کے نزدیک تھا اور اس کے قریب ہی کوئی چھوٹی بستی یا ماہی گیروں کی میان ضرور آباد ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ مورڑو اور اس کا خاندان سون میانی میں مقیم تھا جو اس جگہ سے شمال مغرب میں 40 میل دور ہے۔ چونکہ گرداب والا علاقہ اس کنارے سے جنوب مشرق میں تھا اور مورڑو کی آبادی سے قریب تھا اس لیے شارک کو شکار کرنے کے بعد اسی مقام پر باہر لایا گیا۔

چلیے میں آپ کو ان ہی دنوں کی ایک اور نیم تاریخی لوک کہانی سناتا ہوں۔ یہ کہانی جس مقام کے اردگرد بُنی گئی ہے، اُس علاقے کی تاریخی اہمیت اور قدامت کے حوالے سے ہم اس سفر میں پہلے ہی بہت سی باتیں اور مختلف تحقیقات کا ذکر کرچکے ہیں اور ان قدیم راستے کا بھی ذکر کرچکے ہیں جن پر سے بیوپاریوں کے قافلے ایران، بلوچستان سے گزرتے ہوئے بنبھور اور پھر ٹھٹہ جاتے تھے۔

’موکھی متارا‘ کی نیم تاریخی داستان جو تقریباً 1330ء سے 1400ء یعنی آج سے 624 برس پہلے کی تخلیق ہے۔ اس سلسلے میں ہم پہلی قسط سے کوشش کرتے رہے ہیں کہ گزرے زمانوں میں جن حقائق یا لوک داستانوں کا تعلق کراچی سے ہو، ان کا ساتھ ساتھ ذکر بھی کرتے چلیں تاکہ اس سفر کی تاریخی اہمیت اور افادیت برقرار رہے۔ اس لیے موکھی متارا کی نیم تاریخی کہانی سے پہلے وہ مشہور نیم تاریخی کہانی آپ کو ضرور سنانا چاہوں گا اس کا تعلق بھی کراچی کے اسی اہم مقام سے ہے۔

میری یہ بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ہمارے کسی دوست نے یہ سوال کیا، ’وہ کونسی جگہ ہے؟‘

اس سوال سے مجھے لگا کہ گزرے دنوں کے وجود میں ایک ایسا سحر بستا ہے جو ہر پل ہمیں اپنے طرف بُلاتا رہتا ہے کسی ساحر کی طرح۔

ہم ابھی سمندر کنارے کھڑے ہیں اور مورڑو منگر مچھ کی نیم تاریخی داستان کو گزرے ہوئے 170 برس بیت چکے ہیں۔ قبرستان کے قریب چھوٹی چھوٹی دو تین ماہی گیر بستیاں آباد ہیں۔ جب سورج ڈھلتا ہے تو مورڑو اور اس کے بھائیوں کے قبروں پر ان بستیوں کی ایک بوڑھی عورت روز چراغ روشن کرنے چلی آتی ہے۔ کنارے پر ہوا زوروں سے چلتی ہے مگر چھوٹی سے پہاڑی میں چراغ رکھنے کی جگہ بنا لی گئی ہے۔ چاندنی راتوں میں کم مگر اُماوس کی تاریک راتوں میں یہ چراغ دور دور تک لوگوں کو نظر آتا ہے۔ دن کو قبروں پر لکڑی سے بندھا اور ہوا میں لہراتا سُرخ کپڑا جبکہ رات میں اس چراغ کی روشنی لوگوں کو سانحہ بھلانے نہیں دیتی کیونکہ گزرے دنوں کے وجود میں ایک سحر بستا ہے۔

مورڑو کے اس قبرستان سے اگر آپ مشرق کی جانب اس اوبڑ کھابڑ اور پانی کے کئی اُبلتے چشموں کے کنارے چلنا شروع کریں تو آپ 15 میل کے بعد ملیر کی وادی میں پہنچ جائیں گے۔ یہاں ملیر نئے (Path of Rain) کی وجہ سے ہریالی بہت ہے۔ اگر ملیر کی کسی بھی جگہ، بالخصوص کسی پہاڑی پر کھڑے ہوجائیں تو شمال کی طرف سے ملیر نئے کا بہاؤ اور دور شمال مشرق میں بسی بستیوں سے آنے والے قافلوں کی گزرگاہیں ہیں۔

مغرب، شمال مغرب سے فارس اور کیچ مکران کے قافلوں کے راستے ہیں اور آپ اگر جنوب میں دیکھیں تو لاڑی بندر اور بنبھور ہیں۔ تو ہم جہاں ملیر وادی میں کھڑے ہیں وہ ان قدیم راستوں کے حوالے سے ایک جنکشن تصور کرلیں۔ دور دراز سے قافلے یہاں پہنچتے اور کارواں سراؤں میں رہتے۔ بلکہ تاریخی شواہد تو اس بات کے بھی ملے ہیں کہ ملیر میں جو بازار نام کا علاقہ ہے، اس کے جنوب میں انڈس ویلی سویلائزیشن کی بستی الہڈنو ہے اور اس کے مغرب میں برساتی بہاؤ ہے۔ بازار میں سامان کی لین دین ہوتی تھی جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام ہی بازار پڑ گیا۔

ملیر کی وادی پر ہم اور بھی تاریخ سے جُڑی باتیں کرنے والے ہیں لیکن اس سے پہلے ہم دو نیم تاریخی لوک کہانیاں آپ کو سُنائیں گے جن میں پہلی سسئی پنھوں کی داستان ہے۔

یہ لوک کہانی اس سفر میں (گیارہویں قسط میں) ہم آپ کو پہلے سُنا چکے ہیں مگر سسئی کی راہ گزر پر ایک تازہ تحقیق محترم گل حسن کلمتی اور ڈاکٹر رحمان گُل پالاری نے کی ہے جسے جامعہ کراچی کی شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر نے شائع کیا ہے۔ میں اس تحقیق میں فقط بنبھور سے مکران تک کا سفر اور راستے میں آنے والے مقامات کے نام آپ کو بتاؤں گا جن سے اس قدیم راستے کی دُھندلی سی تصویر آپ کے ذہن میں واضع ہوجائے گی۔

یہ راستہ بنبھور سے نکلتا تھا جس کے بعد ویڑھ (ملیر)، ملیر نئے، پاھوارو جبل (ملیر)، للو پڑھ، گریو، چنبیل، ناراتھر، لٹ (ملیر)، حب نئے، پب، سنگھر، منھبار، بر، ہندر، لیاری، ھاڑھو، کھگنی پٹ، ونکار، لس، لموں، جھائو (لسبیلہ)، جھمرجھر (خضدار)، کیچ، مکران (بلوچستان) سے گزرتا تھا۔ مذکورہ راستوں کی اکثریت پہاڑوں، پہاڑیوں اور برساتی نیئوں کے ناموں پر ہے۔ سسئی کے اس راستے کو آپ بیوپار کی قدیم شاہراہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

مکران کے بعد مغرب میں ایک دنیا آباد ہے جن سے صدیوں سے بیوپاری گزرتے رہے ہیں۔ ان میں خشکی اور سمندر کے راستے دونوں شامل ہیں۔ اس پورے منظرنامے میں ملیر کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب ہم یہ تو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جب 1181ء میں شہاب الدین غوری نے دیبل پر حملہ کیا اور لوٹ کر غزنی چلا گیا تو اس دور میں بیوپار کے راستے آباد تھے اور راستے اپنے لیے کوئی اور نئی بستی آباد کر لیتے ہیں۔

ان راستوں نے پھر نئی بستی بسائی ’ننگر ٹھٹہ‘ اور ایک بار پھر سے قافلوں کی آمدورفت شروع ہوئی اور ملیر کے راستوں پر کارواں سرائے اور مے خانے آباد رہے۔ ملیر کے ان مے خانوں کے ذکر میں ابھی کچھ وقت باقی ہے کیونکہ وہ ’موکھی‘ جس کے مے کدے کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، اُس کی ماں ابھی اس مومل کے پاس ایک خادمہ ہے جس کے متعلق شاہ عبداللطیف بھٹائی کہتے ہیں،

جانب کاک بے عناں آجا، ناقہ دل رواں دواں آجا،
کھل رہے ہیں جہاں کنول کے پھول، ہے وہی تیرا آستاں آجا
مثلِ خورشید صبحدم مومل، ہے لب کاک ضوفشاں آجا

یہ 1315ء سے 1370ء میں جنم لینے والی ایک نیم تاریخی کہانی ہے جو ’مومل رانو‘ کے نام سے سندھ میں مشہور ہے۔ کہانی کے مطابق، مومل جو ایک خوبصورت عورت تھی اور اس کی بہن سومل جو دکھنے میں ٹھیک تھی مگر بہت ذہین اور جادو ٹونے میں ہوشیار تھی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مومل اور سومل جو بادشاہ کی بیٹیاں تھیں، کوئی جادوگر کسی بہانے سے ان سے محلات کی ساری ملکیت چوری کر کے لے گیا۔ چونکہ ملکیت کے دفینے کی پُراسرار چابی مومل کے پاس تھی تو نقصان کی ذمہ دار بھی وہ ٹھہری۔ اُن دنوں بادشاہ سلامت شکار پر گئے ہوئے تھے جب واپس لوٹے تو ملکیت جا چکی تھی۔

باپ نے اپنی بیٹیوں کو کہا کہ ’میری آنکھوں سے دُور ہو جاؤ اور تب تک چہرہ مت دکھانا جب تک ملکیت واپس نہیں لے آتیں‘۔ بادشاہ کی حکومت جو میرپور ماتھیلو (گھوٹکی سندھ) میں تھی، مومل اور سومل اسے چھوڑ کر اپنے نوکروں کے ہمراہ جیسلمیر (راجستھان) کی طرف چل پڑیں۔ جیسلمیر کے قریب ایک لُڈانو (لودرو) شہر تھا۔ لڈانو ایک تیرتھ آستھان تھا اس لیے دور دراز علاقوں سے راجا اور بیوپاری یہاں آتے رہتے تھے۔ یہ شہر کاک ندی کے کنارے بسا تھا۔ یہاں پر جادوگر بہن سومل نے مصنوعی دکھائی دینے والا طلسمی محل بنوایا اور سومل نے یہ اعلان کیا کہ جو بھی اس طلسماتی محل کو کامیابی سے پار کرے گا، مومل کی شادی اس سے کردی جائے گی۔

اس وقت کے سومرا سردار کا دوست اور رشتہ دار ’رانو‘ اس طلسم کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور مومل کو بھی جیت لیتا ہے۔ مگر پھر آگے چل کر ان دونوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے رانو مومل سے ناراض ہوکر چلا جاتا ہے جس کے دُکھ میں مومل خود کو آگ کے الاؤ میں جلا دیتی ہے۔ اس طرح اس نیم تاریخی کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔ اس کتھا میں جن شہروں کا یا کرداروں کا ذکر ہے، تاریخ کے اوراق میں ہمیں ان کے حوالے بھی مل جاتے ہیں۔

اس کہانی میں مومل کی ایک خادمہ جسے ’ناتر‘ کے نام سے پکارا گیا ہے، وہ مومل کی خاص نوکرانی ہوتی ہے۔ وہ جب مومل کو آگ میں بھسم ہوتے ہوئے دیکھتی ہے تو وہاں سے نکل کر گڈاپ ملیر میں آکر رہنے لگتی ہے اور ہیبت نامی شخص سے شادی کرتی ہے جس سے اس کی سات بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے جن کے نام اس نے موکھی، سونگل، صفوراں، دوزاں، مٹھاں، تائیسر، پھیائی اور بیٹے کا نام مادل رکھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ موکھی بڑی ہوکر اپنی بہنوں کے ساتھ شراب بنانا شروع کردیتی ہے۔ چونکہ یہ کلال خانہ اور کارواں سرائے قافلوں کے راستے پر تھا تو کچھ ہی برسوں میں موکھی کی شراب کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ موکھی اپنی ماں ناتر کے بتائے ہوئے نسخے کے مطابق ایک خاص شراب تیار کرتی تھی سردیوں کے آخری دنوں میں اس خاص شراب کے فارمولے کے مطابق اشیا ڈال کر شراب کے مٹکوں کو بند کردیا جاتا۔

پورا ایک برس گزرنے کے بعد جب جاڑوں کی ٹھنڈی ہوائیں شمال سے چلنا شروع ہوتیں تو پھر وہ مٹکے کھول دیے جاتے۔ چونکہ وہ بڑی مہنگی مے ہوتی تھی تو پیسے والے لوگ دور دور سے مے پینے آتے تھے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے موکھی کے مے کدے کا ذکر سُر یمن کلیان میں کچھ اس طرح کیا ہے۔

خموں میں بھری ہے شراب بہاراں، فضا کیف پرور ہوئی جا رہی ہے
بلا نوش ہیں سر بکف آج ساقی، بلانے کو باد شمال آ رہی ہے

موکھی کی بنائی ہوئی اس شاندار شراب کو پینے کے لیے چھ دوست اکٹھے جاڑے کے موسم میں آتے اور خوب شراب پیتے۔ تاریخ میں انہیں ’متاروں‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کہانی کے مطابق ایک برس یہ چھ دوست کچھ ہفتے دیر سے آئے تو وہ خاص شراب ختم ہوچکی تھی۔ موکھی نے انہیں بہت سمجھایا کہ آپ دیر سے آئے ہیں مگر وہ ضد پر اڑے رہے۔ آخر بیزار ہوکر موکھی اندر ڈھونڈنے گئی تو اُسے ایک پرانا مٹکا نظر آیا اور وہ ان متاروں کو اس مٹکے سے شراب دیتی گئی اور وہ پیتے گئے اور پی کر چلے گئے۔

صبح موکھی نے مٹکے کے اندر دیکھا تو سانپ جو اس مٹکے میں نہ جانے کیسے گیا تھا، وہ پورا گل چُکا تھا۔ اس کی ہڈیاں مٹکے کے تہہ میں پڑی تھیں۔ بہرحال اُس زہر کی وجہ سے متاروں کے مرنے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ برس گزر گیا اور متارے بھی مے پینے لوٹ آئے اور موکھی سے گزشتہ برس والی شراب جیسی شراب دینے کی ضد کرنے لگے۔

آخرکار موکھی نے انہیں طعنہ دیا کہ ’آپ تو شراب پینے والے ہی نہیں ہو کیونکہ آپ کو تو پتا ہی نہیں چلتا کہ کیا پی رہے ہو۔ گزشتہ برس جو شراب میں نے آپ کے ضد پر دی تھی، اس مٹکے میں سانپ گر کر گل گیا تھا۔ وہ سُرور اور نشہ زہر کا تھا۔ آپ کیسے شراب پینے والے ہو جسے نہ ذائقے کا پتا چلتا ہے نہ اس کے سُرور کا‘۔ یہ سن کر متاروں پر عجیب اثر ہوا اور وہ وہیں مر گئے۔ لطیف سائیں کہتے ہیں کہ،

ان بلا نوش مے پرستوں کو، یہ نہ سمجھو شراب نے مارا،
ہائے اس کا کلام زہرہ گداز، ان کو جس کے خطاب نے مارا


وہ بلا نوش مر گئے آخر، آزمائے گی اب شراب کسے
وہ وفا کیش دوست ہی نہ رہے، اب تیری خود سری کی تاب کسے

اس نہج پر کہانی انتہائی سنجیدہ ہوجاتی ہے کیونکہ اگر ان متاروں (پینے والوں) کو سانپ کا زہر مارتا تو یہ کب کے مر چُکے ہوتے مگر یہ تو ایک برس کے بعد خوش و خرم شراب پینے آئے تھے۔ موکھی نے انہیں بس طعنہ دیا تھا جس نے انہیں مار ڈالا۔ ایک وقت میں چھ لوگوں کا مرنا ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ یہ خبر دور دور تک پھیل گئی جس کے بعد موکھی کا کلال خانہ زیادہ وقت نہ چل سکا۔ اور یوں یہ نیم تاریخی کہانی ختم ہوئی۔ مگر اس نیم تاریخی کہانی نے لوگوں کے ذہنوں میں ایسی جڑ پکڑیں کہ وہ اپنے درد، حیرت اور سوالات نسل در نسل منتقل کرتے رہے۔ 600 سے زیادہ برس گزر جانے کے بعد ہم بھی آج اس کہانی پر ہی بات کررہے ہیں۔

گل حسن کلمتی صاحب لکھتے ہیں کہ ناتر نے جہاں شادی کی اور اپنی اولاد کو جنم دیا وہ گڈاپ میں کونکر بستی تھی۔ اس کے قرب و جوار میں جو علاقے تھے وہ چراگاہیں تھیں اور جن کے مویشی یہاں چرتے تھے اور وہ علاقے انہی کے نام سے پکارے جاتے۔ موکھی اور اس کی اولاد کے نام سے اب بھی یہ علاقے جانے جاتے ہیں بلکہ ریونیو ریکارڈ میں بھی ان ہی کے نام سے موجود ہیں جیسے دیہہ موکھی، دیہہ سونگل، دیہہ صفوراں، دیہہ دوزاں، دیہہ مٹھان، دیہہ تائیسر، دیہہ پھیائی وغیرہ۔

آپ اگر ملیر کینٹ سے مشرق میں نارا تھر جبل پر پہنچیں تو پیلے پتھروں کی چھوٹی سی چودیواری کے اندر ان چھ متاروں کی قبریں موجود ہیں جن کا تفصیلی ذکر ہم ابھی کر آئے ہیں۔ موکھی کی قبر کو تحفظ دینے کے لیے ایک چودیواری کی تعمیر کی گئی ہے اور دھوپ سے بچنے کے لیے چھت۔ نارا تھر جبل سے شمال میں غلام محمد جوکھیو گاؤں سے ایک راستہ ڈگاری سے موکھی کی قبر تک جاتا ہے جوکہ موکھی کی قبر تک پہنچنے کا آسان راستہ ہے۔

اس کہانی کو تقریباً صدیاں گزر چکی ہیں مگر محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے۔ میں تپتے دنوں میں ان تاریخی مقامات پر گیا ہوں اور موکھی کی چودیواری کے اندر موکھی کی ٹھنڈی قبر کے پاس کچھ وقت بھی گزارا ہے۔ آپ کو وہاں کھجور کے پتوں سے بنے ہاتھ کے پنکھے دیکھنے کو مل جاتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ ایسے پنکھے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن پر رنگین دھاگوں سے شاندار سوئی دھاگے کا کام کیا گیا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ یہ پنکھے موکھی کے قبر پر عورتیں آخر کیا سمجھ کر رکھتی ہیں؟

یہ بالکل ایسی اُلجھی ہوئی پہیلی ہے بالکل ویسی ہی جیسے آج تک یہ پتا نہیں چلا کہ متارے سانپ کے زہر سے مرے تھے یا موکھی کے طعنے سے!

اب جلد ملتے ہیں اس ملیر بستی میں کہ یہاں مغرب اور شمال سے لوگوں اور مویشیوں کے بہت سے ٹولے آنے والے ہیں اور اس وادی میں ہنر و فن کی ایک نئی دنیا تخلیق ہونے والی ہے۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔