دنیا

بائیڈن دستبردار، کیا امریکا میں 1968 کی تاریخ دہرائی جانے والی ہے؟

موجودہ صدر جو بائیڈن امریکی صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹس کے امیدوار کے منصب سے دستبردار ہو گئے ہیں۔

موجودہ صدر جو بائیڈن امریکی صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹس کے امیدوار کے منصب سے دستبردار ہو گئے ہیں اور ایسا 55سال بعد کے بعد ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے دوبارہ الیکشن لڑنے کے لیے الیکشن میں حصہ نہ لیا ہو۔

امریکی صدارتی الیکشن کے لیے ڈیموکریٹس کے امیدوار اور موجودہ صدر جو بائیڈن ساتھیوں کے دباؤ اور تنقید کے پیش صدارتی انتخاب کی دوڑ سے دستبردار ہو گئے۔

امریکا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی صدر نے دوبارہ منتخب ہونے سے قبل ہی اپنے منصب سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہو بلکہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے لیکن ایسا تقریباً 55سال بعد ہوا ہے۔

آخری بار 1968 میں ایسا ہوا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر لنڈن جانسن نے محض ایک سال صدر کے منصب پر رہنے کے بعد یہ عہدہ چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔

1968 امریکی تاریخ کے لیے ایک مشکل سال تھا کیونکہ اس سال امریکا میں سیاسی بحران انتہا پر تھا اور پرتشدد واقعات بھی تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے تھے۔

جانسن کے بعد صدر کے لیے عہدے کے لیے نامزد کیے گئے اس وقت کے نائب صدر ہوبرٹ ہمفری کو منتخب ہونے والے صدر رچرڈ نکسن کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ 55سال بعد ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے جہاں اس سال بھی بائیڈن نے دوبارہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا اور اب انہوں نے اس صدارتی دوڑ کے لیے اپنی نائب کمالا ہیرس کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

ابھی تک اس بات کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا کہ اس الیکشن میں ڈیموکریٹس کا صدارتی امیدوار کون ہوں گے لیکن کمالا ہیرس صدارتی امیدوار بننے کے بعد کامیاب بھی ہو جاتی ہیں تو امریکا کی تاریخ کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔

اب دیکھنا ہو کہ کیا کمالا ہیرس اس سال ٹرمپ کو الیکشن میں 1968 کی تاریخ دیرانے سے روک پاتی ہیں یا نہیں جیسے آج سے 55سال قبل ہوبرٹ ہمفری کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔