کراچی: صدیوں کی کتھا! (سولہویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
گزشتہ قسط میں ہم نے بھرپور کوشش کی تھی کہ کراچی نام کے حوالے سے ہمیں جو نیم تاریخی کہانی تاریخ کے گزرے شب و روز میں ملے تھے، اسے اس طرح بیان کریں کہ آسانی سے ذہن نشین ہوجائے کیونکہ میں نے جب اس کہانی کے متعلق کھڈا مارکیٹ، ابراہیم حیدری، ریڑھی اور بابا بِھٹ کے لوگوں سے دریافت کیا تو تقریباً سب نے اتفاق کیا۔
جب سمندر میں خطرناک حملہ آور کی بات آئی تو کچھ نے کہا مورڑو کے بھائیوں کو جس بلا نے نگل لیا تھا وہ ایک بڑا کچھوا تھا۔ ایسا کچھوا جو سمندر میں چلتا تھا تو پانی میں ایک بھونچال سا آجاتا تھا۔ میرے دادا نے مورڑو کے بھائیوں کے قبرستان کے قریب اس کچھوے کی بڑی سی کھوپڑی بھی دیکھی تھی۔ پھر ایک نے کہا کہ نہیں وہ کچھوا نہیں تھا بلکہ وہ ایک بڑے جہاز جتنا مگرمچھ تھا جو سمندر کے پانی کی گہرائی میں رہتا تھا اور اس نے مورڑو کے بھائیوں کو نگل لیا تھا۔
ایک نے کہا کہ وہ بڑا کچھوا تھا اور نہ مگرمچھ۔ وہ ایک بڑی شارک مچھلی تھی اور جسے ہم منگر کہتے ہیں۔ اس کی بہت ساری نسلیں ہیں اور پانی کی کائنات میں شارک انتہائی قدیم ترین مخلوق ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد اور ہم آج تک اس کا شکار کرتے ہیں کہ اس سے نکالا جانے والا تیل ہماری کشتیوں کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
اگر ہم گزشتہ ادوار میں سمندر اور اس کے کنارے آباد بستیوں کا مشاہدہ اور مطالعہ کریں تو ہم منگر والی نیم تاریخی کہانی کی حقیقت کو قریب سے جاننے لگتے ہیں۔
اب ہم چلتے ہیں سمندر کی طرف خاص طور پر کراچی کے جنوب مغرب میں جہاں گہرے سمندر کی کائنات بستی ہے۔ اس گہرے سمندر میں، سمندر کی اندرونی حالات کی وجہ سے وہاں ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں سمندر کا پانی انتہائی ارتعاش میں رہتا ہے خاص طور پر مئی سے ستمبر تک، یہی وہ ماہ ہیں کہ جب سمندر میں مد وجزر (لہریں) زوروں پر ہوتا ہے اور یہ سمندر میں مسلسل ڈپریشن بننے اور طوفانوں کے اٹھنے کا موسم بھی ہے جو سمندر کے لیے نیا ہے اور نہ ماہی گیروں کے لیے جن کا روزگار سمندر سے جُڑا ہے۔
اس ارتعاش والے مقام کے متعلق سب سے پہلے ہمیں نیارکس (Nearchus) تفصیل سے بتاتا ہے کیونکہ نیارکس سکندر کے جنگی بیڑے کا مہندار (سربراہ) تھا۔
نیارکس کے سمندری سفر پر زیادہ اعتماد والی معلومات ہمیں ایرین (Arrian) (جنم: 90ء - وفات: 140ء) اپنی کتاب میں دیتا ہے۔ چونکہ اس نے اپنی تحریر سے پہلے ان تمام کتابوں کا مطالعہ کیا جو اس کی تحریر سے پہلے لکھی جا چکی تھیں۔ پھر اس نے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر اپنی کتاب تحریر کی۔
ایرین کے مطابق، ’نیارکس، مورنتوبار پر لنگر انداز ہونے سے پہلے اس جنگی بیڑے کو دو سمندری پہاڑیوں کے درمیان میں سے گزرنا پڑا تھا جو جہازوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی تھیں۔ ان دنوں سمندر پُرسکون نہیں تھا اور اس میں بڑی بڑی لہریں بن رہی تھیں جن کی وجہ سے کشتیاں کسی وقت بھی پہاڑوں سے ٹکرا سکتی تھیں‘۔
ان پہاڑیوں کو اب اویسٹر راکس (Oyster Rocks) کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ایک پہاڑی سلسلہ تھا جو کلفٹن اور منوڑے کو آپس میں جوڑنے والی ایک دیوار جیسا تھا مگر پھر پانی کی لہروں نے اسے توڑ دیا۔ پہلی بار سائنسی بنیادوں پر کراچی بندر کی تحقیق 1836ء میں لیفٹیننٹ کارلیس نے کی تھی۔ اس کے بعد ابھی تک سمندر کے منظرنامے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان پہاڑیوں کے درمیان سے گزرنے والی گزرگاہ کچھ زیادہ بڑی ضرور ہوگئی ہوگی۔
کراچی کے قریب گہرے ارتعاش بھرے سمندر کا دوسرا دلچسپ ذکر ہمیں 1554ء میں ترک امیرالبحر علی رئیس (جنم: 1498ء - وفات: 1563ء) سے سننے کو ملتا ہے۔ وہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ ’1552ء میں سلطان سلیمان نے سیدی علی رئیس کو بحرہند کے بیڑے کا کمانڈر مقرر کیا اور اسی حوالے سے وہ 7 دسمبر 1553ء کو ’حلب‘ سے روانہ ہوئے اور خطے کے اہم مقامات کا دورہ کرنے کے بعد فروری 1554ء میں خلیج فارس کے شہر ’بصرہ‘ پہنچے۔
’پھر آبنائے ہرمز کے کناروں پر موجود بندرگاہوں کو دیکھا جہاں پرتگیزیوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ بصرہ سے نکلنے کے 40واں دن، ماہ رمضان کا دسواں دن تھا۔ اس دن گُوا سے آتے ہوئے 25 پرتگیز جہازوں سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی جس میں طرفین کو نقصان اٹھانا پڑا۔ اس مڈبھیڑ کے 17ویں دن جب وہ ’مسقط‘ پہنچے تو ایک بار پھر ان کا آمنا سامنا پرتگیزیوں سے ہوا جن کی وہاں حکومت تھی۔ (1507ء میں پرتگیزیوں نے مسقط پر قبضہ کیا تھا اور 1649ء میں امام سلطان بن سیف نے یہ قبضہ ختم کیا۔)
جنگ کے دوران تیز ہواؤں نے دونوں اطراف کے جہاز مشرق کی جانب دھکیل دیے۔ اس جنگ میں پرتگیزیوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا مگر سمندر کے کنارے بسنے والے لوگ سلطنتِ عثمانیہ کے دوست نہیں تھے۔ اس لیے سیدی علی کنارے پر نہیں جا سکتے تھے۔ وہ خلیج عمان پہنچے مگر وہاں کے بھی مقامی لوگوں نے انہیں زمین پر قدم رکھنے نہیں دیا۔ وہ ایران سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے ساحل ’گوادر‘ پہنچے جہاں کے بلوچوں نے سلطنت عثمانیہ کے بیڑے کو خوش آمدید کہا اور انہیں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔
سیدی علی تحریر کرتے ہیں کہ ’موسم سازگار ہوا تو ہم گوادر کی بندرگاہ چھوڑ کر دوبارہ یمن کی جانب روانہ ہوگئے۔ ہم کئی دن تک سمندر میں سفر کیا، پھر ایک دن اچانک مغرب سے ایک طوفان اٹھا جسے ’ہاتھیوں کے طوفان‘ کے نام سے ہندوستان والے یاد کرتے ہیں۔ اس طوفان میں دن اور رات کی تمیز نہیں تھی، بس وہ تباہی مچا رہا تھا۔
’دس دن تک طوفان کی تباہ کاریاں جاری رہیں۔ پھر ہمیں ایک بڑی (وہیل) نظر آئی جو کشتی چلانے والوں کے لیے اچھا شگون مانا جاتا ہے۔ پھر اچانک پانی کا رنگ سفید ہوگیا۔ یہ دیکھ کر کشتی چلانے والے ماتم کرنے لگے اور کہا کہ ہم بھنوروں میں آگئے ہیں اور ایسے بھنور ’ابیسنیا‘ یا سندھ کی دیبل والی خلیج میں ہوتے ہیں۔ ان سے کوئی قسمت والا ہی بچ سکتا ہے‘۔
سیدی علی یقیناً قسمت والے ہی تھے کہ وہ گجرات کے ’دمن‘ یا دیگر بندرگاہوں سے جن پر پرتگیزیوں کا قبضہ تھا جن سے بچتے بچاتے ’سورت‘ پہنچے۔ سیدی علی یہاں کی مون سون موسم کا جب ذکر کرتے ہیں تو ان کے الفاظ میں غصہ پھوٹ پھوٹ کر اُبلنے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’یہاں کا یہ موسم ایک عذاب سے کم نہیں ہے جس میں آپ کئی کئی دنوں تک نہ سورج دیکھتے ہیں اور نہ ہی ستارے مطلب آپ کمپاس تک استعمال نہیں کرسکتے، بس آپ یونہی بےکار بیٹھے رہتے ہیں‘۔
اس طوفان سے نکلنے کے بعد علی رئیس سورت گجرات پہنچے۔ سیدی علی نے گجرات کے نئے حکمران، سلطان احمد شاہ سوئم کے ساتھ تعلقات استوار کیے۔ 15 نومبر 1554ء پیر کے دن وہ احمد آباد کے لیے نکل پڑے اور 50 دنوں کے بعد وہ وہاں پہنچے۔ احمد آباد میں وہ سلطان سے ملا اور اپنی اسناد پیش کیں تو اس کی بڑی توقیر کی گئی اور سندھ کے سفر کے لیے اسے رقم، گھوڑا اور اونٹ دیے گئے۔ پھر وہ ’بھٹ‘ قبیلے کے دو آدمیوں کی رہنمائی میں سفر کرتا پٹن اور رادھن پور پہنچے کیونکہ اگلی منزل ’ننگرپارکر‘ تھا۔
وہ ننگرپارکر پہنچے تو وہاں کے راجپوتوں نے انہیں بہت پریشان کیا مگر پھر کچھ لین دین کے بعد انہیں جانے دیا۔ یہ 1554ء کا زمانہ تھا۔ ننگرپارکر کے بعد اس نے پہلے سفر والے اونٹ بیچے اور ٹھٹہ جانے کے لیے نئے اور توانا اونٹ خریدے۔ اس نے ان دنوں میں دریائے سندھ کا ایک بڑا بہاؤ ’مہران‘ (پُران) پار کیا اور فتح باغ سے گزرتا ہوا ٹھٹہ پہنچا جہاں مرزا شاہ حسن، عیسیٰ ترخان اور بکھر کے سلطان محمود کی چپقلش، جنگ کی صورت اختیار کر چکی تھی۔
علی رئیس مرزا شاہ حسن سے ملا۔ مرزا نے اس ترک امیرالبحر کو لاڑی بندر کی گورنری کی پیشکش بھی کی مگر علی رئیس نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ مرزا شاہ کی وفات کے بعد مرزا عیسیٰ نے اسے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے سات جہاز دیے اور علی رئیس بکھر جانے کے لیے نکلا۔
سیدی علی بکھر میں سلطان محمود کے پاس ایک ماہ سے زیادہ رہے۔ اس کے بعد وہ دہلی کے لیے نکلے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ایک ماہ کے بعد سلطان محمود نے مجھے جانے کی اجازت دی اور ساتھ ایک خوبصورت گھوڑا، تقریباً 50 اونٹ، ایک چھوٹا سا خیمہ، سفری اخراجات کے لیے رقم، ہمایوں بادشاہ کو میری سفارش کا خط اور اونٹوں کے قافلے کے لیے 250 آدمی دیے اور ہم اُچ اور ندی پار کرکے رمضان کی 15 تاریخ کو ملتان پہنچ گئے‘۔
ملتان کے بعد وہ لاہور پہنچے۔ وہاں بھی سیاسی حالات کی دیگ سے بھاپ اُٹھ رہی تھی اور ایسے حالات میں وہ صاحب دہلی پہنچے۔ وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ ’جیسے ہی ہمایوں نے ہماری آمد کی خبر سنی اس نے خان خاناں اور دیگر اعلیٰ افسران، 400 ہاتھیوں اور کچھ ہزار آدمیوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ہم سے ملیں۔ رات کو ہمارے لیے شاندار ضیافت کا انتظام شاہی ہال میں کیا گیا تھا۔ میں نے شہنشاہ کو ایک چھوٹا سا تحفہ اور اس کی فتح ہند پر دو غزلوں کا نذرانہ پیش کیا۔
اس موقع پر میں نے سفر جاری رکھنے کی درخواست دی مگر وہ منظور نہ ہوئی اور حکم دیا گیا کہ ’بارشوں کا موسم قریب ہے اس لیے سڑکیں چلنے کے قابل نہیں ہوں گی۔ اس لیے جب تک موسم بہتر نہ ہو، آپ شمسی اور قمری چاند گرہن، ان کے طول البلد (Longitude) اور کیلنڈر میں ان کی صحیح تاریخ کا حساب لگائیں۔ ہمارے علم نجوم کے لوگوں کی سورج کے مطالعے میں مدد کریں اور خط استوا کے متعلق ہمیں تفصیل سے سمجھائیں‘۔ یہ سب ایک حکم کی طرح کہا گیا’۔
اس حکم کو مانتے ہوئے سیدی علی نے دن رات اس موضوع پر کام کیا۔ ہمایوں سے اکثر اس کے ادبی مباحثے ہوتے رہتے۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ جس دن ہمایوں کی موت زینے سے پیر کھسکنے سے ہوئی، سیدی علی محل میں ہی تھا اور ہمایوں سے اپنے ملک جانے کے لیے اجازت بھی لے چکا تھا۔ فروری 1556ء میں سیدی علی کابل روانہ ہوا جہاں سے وہ ثمرقند اور بخارا سے گزرتے ہوئے قسطنطنیہ پہنچا جہاں اس کا شاندار استقبال کیا گیا۔
سیدی علی نے اپنے سلطان سلیمان کو 18 ممالک کے بادشاہوں کے وہ خطوط پیش کیے جو سلطان کو تحریر کیے گئے تھے۔ سلطان اس سے بہت خوش ہوئے اور ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کرکے اسے زیادہ تنخواہ جاری کی اور گزرے چار سالوں کی تنخواہ بھی سیدی کو ادا کردی۔ جنوری 1563ء میں سیدی علی رئیس نے قسطنطنیہ میں اپنی آخری سانسیں لیں۔
سیدی علی رئیس کی ایک کتاب ’محیط‘ کا کراچی کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں جس کا انگریزی میں ترجمہ ’Geography and Navigation of India‘ کے نام سے ہوا۔ اکثر لکھنے والے اس کتاب کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ ’محیط کے مصنف لکھتے ہیں کہ جو ڈیو اور خلیج فارس میں جہاز رانی کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ جب سمندر کے خطرناک گرداب میں پھنس جائیں تو وہ مکران، گوادر یا کراشی پہنچنے کی کوشش کریں۔
’علی رئیس کے اس حوالے کو میں اس لیے اہم نہیں سمجھتا اور یہ حوالے اس کے ذاتی تحقیق نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے جہاز رانی، اس کے سفر، مقامات، زمینی حالات، سمت کے اندازے، سفر میں ستاروں سے مدد لینا اور بہت سا تحقیقی کام عرب جہازران کرچکے تھے جن میں بزرگ بن شہریار، خواشیر بن یوسف، محمد بن عمر، ماجد بن محمد، سلیمان مہری اور خاص طور پر شہاب الدین احمد بن ماجد کی کتاب ’الفوائد فی اصول علم البحر و القواعد‘ جو نویں صدی ہجری (1490ء) میں تحریر کی گئی تھی جو اپنے زمانے کی انتہائی مشہور کتاب تھی جس میں سندھ کے سمندری کناروں پر موجود بندرگاہوں اور اہم مقامات کا ذکر ملتا ہے‘۔
اس حوالے سے ہم محترم سید سلیمان ندوی صاحب سے کچھ مدد لیتے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’ابن ماجد اور سلیمان کی تصانیف سے عربوں کے علاوہ ترک اور ہندوستانی جہاز رانوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ ترک امیرالبحر سیدی علی نے جو بہادر شاہ گجراتی اور ہمایوں کے زمانے میں بیڑوں سمیت گجرات آیا تھا۔ اس نے محیط کے نام سے ترکی جہازرانی کے فن پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے۔ اس میں ابن ماجد اور سلیمان مہری کی تصانیف سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور اس کے مقدمے میں ان کی پوری تعریف و توصیف کی۔ محیط کا ترجمہ یورپی زبانوں میں بھی ہوا ہے۔
’میں نے بڑی کوشش کی کہ محیط کی کسی بھی زبان میں کیے ہوئے ترجمے کی کاپی مل جائے مگر میں اس مسودے کو حاصل کرنے میں ناکام رہا اور میں حیران بھی ہوں کہ کراچی کے حوالے سے محیط کا نام ہر کوئی لیتا ہے جبکہ سیدی علی فقط ایک دفعہ ہی بلوچستان اور سندھ کے ارتعاش اور گرداب والے حصے ’کلاچ‘ سے گزر کر گجرات پہنچا تھا۔ اس لیے اس نے اگر اپنی تحقیق میں یہ تحریر کیا ہے کہ جو جہازران فارس اور کاٹھیاواڑ گجرات کے بیچ میں جہاز چلاتے ہیں وہ اگر گرداب میں پھنس جائیں تو مکران یا گوادر یا کراشی کی طرف پہنچنے کی کوشش کریں‘۔
علی سیدی کی یہ معلومات عرب جہاز رانوں کے تجربات سے ماخوذ ہے جو اس راستے مسلسل گزرتے رہتے تھے۔ تو یہ زیادہ مناسب ہے کہ ہمیں ان زمانوں کے مصنفین کی تصانیف کا مطالعہ کرنا چاہیے جس میں ’کراشی‘ یا ’کراتشی‘ کا ذکر ہو کیونکہ ہم نے جس نیم لوک کتھا مورڑو منگر مچھ کا ذکر کیا ہے وہ تیسری صدی کی آخر اور چوتھی صدی کے ابتدائی زمانے کی بات ہے۔ اس لیے ہمیں بزرگ بن شہریار، خواشیر بن یوسف، محمد بن عمر کی تصانیف کا مزید تحقیق کے لیے مطالعہ کرنا چاہیے۔
اتنی مشکل پگڈنڈیوں سے سفر کرتے ہوئے ہمیں اب یہ تو یقین ہونا چاہیے کہ کراچی کے قریب سمندر میں بھنوروں سے بھری ایک ایسی جگہ بھی ہے جس کا نام کلاچ یا کلاچی ہے۔ اب ہمیں وہ مقام ڈھونڈنے کی ضرورت ہے جس مخصوص جگہ کا یہ نام ہو۔ اس سے پہلے اس جگہ کے متعلق ہم ایرین، سیدی علی رئیس یا دوسرے عرب جہازرانوں کی تحریریں پڑھ چکے ہیں۔
لہٰذا ہم اس جگہ کے متعلق تصوراتی تیر چلانے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ تاریخ کے صفحات ہماری مدد کے لیے موجود ہیں۔ مورڑو کے بھائیوں کے سانحے کو تقریباً 690 برس کے بعد (1689ء) میں شاہ عبداللطیف بھٹائی پیدا ہوئے اور تقریباً 50 برس (1740ء) بعد ننگر ٹھٹہ، بنبھور اور لاڑی بندر سے ہوتے ہوئے یہاں کراچی پہنچے تو اس نیم تاریخی کہانی کو گزرے ہوئے 740 برس گزر چکے تھے۔
مورڑو کے بھائیوں کے گرداب میں موت کے حوالے ہونے کا درد صدیاں گزرنے کے بعد بھی تازہ تھا اور اس درد کو شاہ عبداللطیف بھٹائی نے گہرائی سے محسوس کیا۔ اپنی مشاہداتی آنکھ سے اس درد کو اپنی شاعری میں ڈھالا اور شاہ جو رسالو میں یہ درد، 12 بیت (اشعار) ’سُر گھاتو‘ کی صورت میں موجود ہیں۔ ہم یہاں ان بیتوں میں کراچی کے نام کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ اتنا مشکل ہے کیونکہ مورڑو کی کتھا اور یہ بیت ہماری مشکل آسان کر دیتے ہیں کہ کراچی کا مقام کہاں تھا۔
میں یہاں سُر گھاتو کے بیت جن کا اُردو ترجمہ شیخ ایاز نے کیا تھا، وہ آپ کے مطالعے کے لیے پیش کرتا ہوں کہ ہم کراچی کے نام کے سلسلے میں جو اہم بات کرنے والے ہیں وہ آسانی سے سمجھ میں آسکے۔
ان بیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں باخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ لطیف سائیں اپنے بیتوں میں اس مقام کے لیے کلاچیاں، کلاچ، کلاچی جو کُن (گرداب) لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں جو بھی گیا کبھی واپس نہیں لوٹا کیونکہ وہ جگہ اتنی قہر ڈھانے والی اور خوفناک ہے کہ وہاں حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہاں جو بھنور پڑتے ہیں ان کی دہشت اور وحشت بہت ہے اور وہاں جانے والوں کا لوٹنا ممکن ہی نہیں ہے۔
رشتہ دار ان کی واپسی کی امید چاہے رکھیں اور کنارے پر کتنا بھی طویل انتظار کریں۔ درد اور فراق کی وجہ سے روئیں، سر میں مٹی ڈالیں مگر انہیں اپنے پیارے کبھی دکھائی نہیں دیں گے۔ اگر دکھائی بھی دیے تو ان کی زندگی اس کلاچ نے چھین لی ہوگی اور آخر میں وہ کہتے ہیں کہ کلاچ کے قہر، گرداب میں ایک کشش ہے اور وہ ہر وقت ماہی گیروں کو اپنی جانب آنے کی دعوت دیتی رہتی ہے۔
ہم تقریباً اس مشکل کام کے کنارے آپہنچے ہیں جہاں کراچی کے نام کے متعلق ہم یقین سے کچھ کہنے کے قابل ہیں۔ یہ آج کا سفر بہت سارے حوالوں سے یادگار رہا کہ ہم نے تاریخ کی کچھ غلط فہمیوں سے جان چھڑانے کوشش بھی کی ہے۔ ہم جلد ہی ملتے ہیں شاید اسی جگہ پر جہاں کلاچ، کلاچی یا کلاچیاں کا گھاٹ تھا۔
حوالہ جات
- ’شاھ جو رسالو‘۔ کلیان آڈوانی۔ مکتبہ برھان، کراچی
- ’مورڑو ائیں مانگر مچھ‘۔ ڈاکٹر بنی بخش بلوچ۔ سندھی ادبی بورڈ،حیدرآباد۔
- ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
- ’عربوں کی جہاز رانی‘۔ سید سلیمان ندوی۔ اسلامک ریسرچ ایسوسی ایشن،بمبئی
- ’رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائی‘۔ مترجم: شیخ ایاز۔ سندھیکا۔ کراچی
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔