پاکستان

فوج سمیت تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ کار سے وابستہ ہو جائیں، مولانا فضل الرحمٰن

2001 میں میزان آپریشن سے لے کر ردوالفساد تک ہونے والے آپریشن کے بعد الٹا دہشت گردی میں 10گنا اضافہ ہوا ہے، سربراہ جے یو آئی(ف)

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2001 میں میزان آپریشن سے لے کر ردوالفساد تک ہونے والے آپریشن کے بعد الٹا دہشت گردی میں 10گنا اضافہ ہوا ہے، ملکی دفاع میں فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں لیکن سیاسی مداخلت خود ان کے اپنے حلف کی بھی نفی کرتی ہے لہٰذا فوج سمیت تمام ادارے اپنے آئینی دائرہ کار سے وابستہ ہو جائیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی عاملہ نے 8 فروری کے الیکشن اور اس کے نتائج کو یکسر مسترد کردیا تھا اور اب مرکزی مجلس شوریٰ نے اس فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ 8 فروری 2024 کے انتخابی نتائج کسی صورت پر بھی ہمیں قبول نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف اپنی تحریک کو آگے بڑھائیں گے اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قوم کو ووٹ کا حق لوٹایا جائے اور ازسرنو صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات منعقد کیے جائیں جس سے اسٹیبلشمنٹ اور ہمارے خفیہ ادارے دور رہیں اور کسی طریقے سے بھی اسٹیبلشمنٹ اور ان کے ادارے الیکشن کے عمل میں مداخلت نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی مجلس شوریٰ نے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے روابط کا جائزہ لے کر اسے سیاسی عمل قرار دیا، حکومت کی طرف سے کیے گئے رابطوں پر وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی کہ حکومت میں اتنا خم نہیں ہے کہ وہ ہماری شکایت کا ازالہ یا تلافی کر سکے۔

حکومتی رابطوں کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے، یہ مسئلہ کسی ایک سیاسی جماعت کو منانے یا راضی کرنے کا نہیں بلکہ ملک کا مستقل سیاسی مسئلہ ہے جس پر جمعیت علمائے اسلام نے موقف اختیار ہے، جب تک اصولی معاملات پر اتفاق نہیں ہوجاتا اور شفاف انتخابات کی ضمانت مہیا نہیں کی جاتی تو منانے اور راضی کرنے کے الفاظ کے کیا معنی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وفود نے بھی رابطے کیے ہیں جن کا مجلس شوریٰ نے جائزہ لیا اور یہ رائے دی کہ پی ٹی آئی کے خلاف دس 12 سال قبل سے ہمارا موقف اور تحفظات بہت سنجیدہ ہیں، اگر وہ ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ابتدائی طور پر بھی تحریک انصاف پر واضح کردیا تھا کہ اگر اختلافات یا ہمارے تحفظات دور کرنے ہیں تو اس کے لیے مناسب ماحول ترتیب دینے پر ہم آمادہ ہیں اور ہم نے آنے والے وقتوں کے لیے جن مثبت رویوں کا تعین کیا ہے، ہم آج بھی اپنے ان مثبت رویوں پر قائم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں اب تک کسی یکسوئی کا فقدان ہے، پارٹی کے سربراہ کی طرف سے وفود آتے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ معاملات کو طے کرنے کی ہدایات لے کر آتے ہیں لیکن اس وقت تک انہوں نے کسی مذاکراتی ٹیم کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے، دوسری طرف سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے کل ہی بیان دیا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ اتحاد نہیں ہو سکتا ہے، یہ دو بالکل متصادم قسم کی آرا ہیں جس ہم کوئی رائے قائم کرنے میں دقت محسوس کررہے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ ایک بہتر سیاسی ماحول کو تشکیل دینے میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، سیاسی جماعت اختلافات کو طے کرنے کے لیے نہ مذاکرات کا انکار کرتی ہے اور نہ مسئلے کے حل کا انکار کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے اس موقف کا بھی اعادہ کیا کہ آئین افواج پاکستان سمیت تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے لہٰذا تمام ادارے اپنے دائرہ کار سے وابستہ ہو جائیں، ملک و قوم کے لیے اپنا وہ کردار ادا کرتے رہیں جو آئین متعین کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی دفاع کا معاملہ ہو تو پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے لیکن سیاسی مداخلت خود ان کے اپنے حلف کی بھی نفی کرتی ہے اور آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے جسے ہم تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حال میں جو عزم استحکام کے نام سے آپریشن کا اعلان کیا ہے، وہاں بھی یکسوئی نہیں پائی جا رہی، 2001 میں میزان آپریشن سے لے کر آپریشن ردوالفساد تک دہشت گردی کے خلاف جتنے بھی آپریشن ہوئے ہیں تو عوام کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ 2001 کے مقابلے میں آج دہشت گردی کی شرح کیوں 10گنا زیادہ ہو گئی ہے، قوم کو اعتماد نہیں رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دو روز بعد وزیراعظم ہاؤس سے وضاحت جاری ہوئی، اس لیے کچھ معلوم نہیں کہ لوگ کس بیان کی طرف متوجہ ہوں، پورے ملک بالخصوص دو صوبوں میں اضطراب کی کیفیت ہے، عوام صبح و شام غیرمحفوظ ہیں اور گھر سے باہر نکلتے ہیں تو یقین نہیں ہوتا کہ گھر واپس صحیح سلامت پہنچ سکیں گے یا نہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ خواجہ آصف نے اسمبلی کے فلور پر کہا ہے کہ اپوزیشن دہشت گردوں کی حمایت کررہی ہے تو اس پر سینئر سیاستدان نے کہا کہ جب 2010 میں ہم نے کہا تھاکہ یہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے اور تمہاری حکمت عملی غلط ہے تو اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا لیکن جو ہم نے کہا تھا ہو صحیح ثابت ہوا تھا یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2001 اور آج کی دہشت گردی کی شرح نکالیں اور پھر بتائیں کہ دس، پندرہ آپریشنوں کا نتیجہ کیا نکلا، ملک میں کیا ہو رہا ہے، لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ہم یہ کام کس مقصد کے تحت کررہے ہیں، سب کچھ اپنے کمانے کے لیے ہو رہا ہے تو عوام پر احسان کیوں جتلائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان آپریشنز میں جو عوام کو نقصانات پہنچے، گھر بار چھوڑے، گھر تباہ ہوگئے لیکن آج تک ان کے نقصانات کے معاوضات نہیں دیے گئے، فاٹا کا انضمام کیا گیا تو وہاں کی ترقی کے لیے 10سال تک ہر سال 100ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا اور جس کی منظوری اسمبلی سے لی گئی تھی لیکن 7سال گزرنے کے باوجود 100ارب پورے نہیں کیے جا سکے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے سوال کیا کہ کیا ریاست کو اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے، ہم پر تو لازم ہے کہ ہم ریاست کا احترام کریں، ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف زبان نہ کھولیں لیکن انہیں اپنی ذمے داریوں کا احساس کب ہو گا، کب وہ ریاست میں رہنے والوں کی آرزوؤں کو پورا کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام پاک چین تعلقات کی مکمل حمایت کرتی ہے اور اس کو مضبوط سے مضبوط تر دیکھنا چاہتی ہے، ان کے استحکام اور دوام استحکام کی آرزومند ہے لیکن ہم ابھی تک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے چین کا اعتماد بحال نہیں کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی ایوان نمائندگان نے 8فروری کے الیکشن کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا اور پاکستان نے کہا کہ امریکا پاکستان کے معاملات سے دور رہے لیکن پاکستان کی ریاست اور خارجہ پالیسی کہاں کھڑی ہے، کیا یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں؟، کیا یہ پاکستان کی لابی کی ناکامی نہیں ہے؟۔

انہوں نے کہا کہ کسی باضابطہ اتحاد میں جانے کا انتظار کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے البتہ رابطوں کے عمل کو مثبت اور سیاسی عمل تصور کیا جائے گا اور اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان باہمی تعاون کا ماحول پیدا ہو تو ہماری کوشش ہو گی کہ ہم اسے قابل عمل بنا سکیں۔