نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (پندرہویں قسط)

اوبھایو کے منع کرنے کے باوجود اس کے چھ بیٹے 'کلاچی جو کُن' میں شکار کرنے نکل پڑے جہاں انہیں ان کے جال میں منگر مچھلی پھنسی اور اسے جال سے نکالتے ہوئے ان تمام بھائیوں کو منگر نگل گئی۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


کتنا اچھا ہوتا کہ حیات ہماری تمناؤں اور خواہشات کے تابع ہوتی اور ہم جیسا چاہتے وہ ویسا ہی روپ اختیار کر لیتی۔ مگر ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ زندگی کے آگے بڑھتے رہنے کے اپنے راستے اور اپنے اصول ہیں۔

گزشتہ قسط میں ہم نے آخر میں ابن بطوطہ، محمد بن تغلق اور سرمد شہید کا ذکر کیا تھا مگر ابھی ان کے یہاں آنے میں کچھ عرصہ باقی ہے۔ تب تک مناسب ہوگا کہ ہم کچھ لوک داستانوں کا ذکر کرلیں خاص طور پر وہ لوک کہانیاں جن میں سے ہمیں کراچی نام کا کوئی سراغ مل سکے۔ لوک داستانیں مقامی لوگوں کی تمناؤں، محرومیوں، دبی خواہشات اور خیالات کی مٹی میں گوندھے ہوئے قصے ہوتے ہیں۔ ان قصوں کو اگر پرکھ کی چھلنی سے چھانا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان قصوں اور کہانیوں میں حقیقت 20 سے 30 فیصد تک ہوتی ہے جبکہ دوسرے دلچسپی اور رنگینی پیدا کرنے والے لوازمات 70 فیصد ہوتے ہیں۔

چونکہ یہ قصے کہانیاں بُننے والے تاریخ تحریر کرنے کے کام پر مامور نہیں ہوتے بلکہ یہ ان کہانی گروں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ تو ان قصوں میں چھپے حقائق ڈھونڈنے کے لیے ان زمانوں کا اس زمین کہ جس پر متعلقہ قصے یا کہانی کی داغ بیل پڑی باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد ہم کسی نتیجے پر ضرور پہنچ سکتے ہیں۔ مگر یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس میں تبدیلی کی گنجائش اسی صورت میں رہے گی کہ آگے چل کر اگر سائنسی بنیادوں پر ان حوالوں سے کام ہوا تو ہم اسے ماننے کے لیے تیار رہیں کیونکہ ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت کی اس وسیع کائنات میں فل اسٹاپ نام اور شکل کا کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ یہ تو ایک تسلسل ہے جس کی ہم ایک چھوٹی سی کڑی ہیں۔

میں اگر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کی بات مان لوں تو جو لوک کہانی میں آپ کو ’کراچی‘ کے حوالے سے سنانے جارہا ہوں وہ پانچویں صدی ہجری اور گیارہویں صدی عیسوی کی ہے۔ یعنی آج سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے قدیم زمانے میں یہ کہانی پنپی، جوان ہوئی اور ان زمانوں کے قافلوں کے راستے دور دور تک پہنچی اور فنکار لوگوں نے اس دلچسپ، پُراسرار اور حیرت انگیز حقائق کو تمثیلی روپ میں ڈھالا اور میلوں اور دیگر خوشیوں کے مواقع، قافلوں کے کارواں سراوں میں پیش کرکے داد اور دان وصول کیا۔

آپ کو سنانے کے لیے میں نے یہ ’نیم تاریخی داستان‘اس لیے بھی چُنی ہے کیونکہ اس کے حقیقی ہونے کے ثبوت ہمارے سامنے موجود ہیں اور دوسری بات جو اس دلیرانہ داستان کو اہم اور حقیقت کے قریب ترین ہونے کے شواہد ہمیں تاریخی شخصیات اپنے تحریری ریکارڈ کی صورت میں پیش کرتی ہیں۔

پہلا: علی رئیس سیدی (1498ء سے 1563ء) جو آج سے 475 برس پہلے کی شخصیت ہیں۔

دوسرا: شاہ عبداللطیف بھٹائی (1689ء سے 1752ء) جو آج سے 300 برس پہلے کی نامور شخصیت ہیں۔

پہلے میں آپ کو وہ لوک داستان سناتا ہوں جو مختلف راویوں نے اپنے مختلف طریقوں سے بیان کی ہے جیسے نثر میں بھی اور نظم میں بھی۔ مگر اس کہانی کا کمال یہ ہے کہ بہت سے ورژن ہونے کے بعد بھی اس کے تذکرے میں آئے ہوئے مقامات سمندری کناروں سے کبھی بھی الگ نہیں ہوتے۔ کہانی کے دو ابتدائی نام ’باچو‘ اور ’باراچ‘، 20 کے قریب داستانوں کے باوجود بھی تبدیل نہیں ہوتے۔ یہ دونوں بھائی تھے جو جنوب کی طرف (کچھ گجرات) سے نکلے تھے اور گھومتے پھرتے، چوریاں کرتے، جادوگری سیکھتے، لوگوں کو حیرت انگیز کمال دکھاتے آخرکار ’پُھلوند‘ نامی بادشاہ جوکہ کلاں کوٹ کا بادشاہ تھا، وہاں پہنچتے ہیں۔ چونکہ بادشاہ کو کوئی اولاد نہیں ہوتی تو وہ ان بھائیوں کو اپنی اولاد سمجھ کر اپنے محل میں رکھ لیتا ہے۔

یہ دونوں شرارتوں سے باز نہیں آتے جس کی وجہ سے بادشاہ انہیں اپنے محل سے نکال دیتا ہے۔ بہرحال گھومتے پھرتے بڑا بھائی ایک عورت سے شادی کرتا ہے اور شادی کے بعد وہ سب شرارتیں چھوڑ کر ایک بہتر زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ جس عورت سے بڑا بھائی باراچ شادی کرتا ہے، اس کا نام ’سوناری‘ (باراچ کی بیوی کے دو تین نام کہانیوں میں ملتے ہیں جیسے سونل، سونا، اور سوناری) بتایا گیا ہے۔ اور پھر یہ کنبہ کراچی کے قریب ایک ماہی گیر بستی میں آکر رہنے لگتا ہے۔ انہیں کوئی کام نہیں آتا اس لیے وہ ماہی گیری کرنے لگتے ہیں۔ کچھ وقت کے بعد چھوٹا بھائی باچو کا انتقال ہوجاتا ہے۔ کچھ وقت کے بعد باراچ اور سوناری کا ایک بیٹا ہوتا ہے جس کا نام ’اوبھایو‘ رکھا جاتا ہے۔ اوبھایو جیسے کچھ بڑا ہوتا ہے تو اس کے باپ کا انتقال ہوجاتا ہے۔

اس ماہی گیر بستی کا پَٹیل (سردار) سونل کو اپنی بہن بنا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے اور اس طرح اوبھایو اس بستی میں بڑا ہوتا ہے اور مچھلی کے شکار میں اپنا نام بناتا ہے اور دھیرے دھیرے وہ اپنی ایک الگ بستی قائم کرتا ہے جو آگے چل کر اس کی ماں کے نام سے ’سون میانی‘ سے مشہور ہوجاتی ہے۔ چونکہ مقامی بادشاہ کی طرف سے پہلی والی ماہی گیر بستی (میان) کو ٹیکس لینے کا پروانہ ملا چکا ہوتا ہے اس لیے بادشاہ جب اوبھایو سے مقررہ ٹیکس دینے کو کہتا ہے تو وہ انکار کرتا ہے۔

اب یہاں اُس بادشاہ کا نام آتا ہے جو سندھ کی تاریخ کے صفحات اور تاریخی مقامات پر آپ کو ہر جگہ سننے کو مل جاتا ہے۔ وہ نام ہے ’دلُورائے‘۔ ایک ایسا بادشاہ جو اپنی لالچ اور ظالم طبیعت کی وجہ سے بہت مشہور تھا اور آج تک اس کے مظالم کی کہانیاں آپ کو گاؤں کے بڑے بزرگوں سے ضرور سننے کو مل جاتی ہیں۔

آپ اگر کسی تاریخی مقام پر جائیں جہاں کسی پرانے شہر کے آثار ہوں اور آپ لوگوں سے جب پوچھتے ہیں کہ یہ شہر، قلعہ یا بستی کیسے برباد ہوئی؟ تو فوراً جواب آئے گا کہ یہ دلورائے کے ظلم کی وجہ سے نیست و نابود ہوئی تھی۔ وہ قہر ڈھانے والا ظالم بادشاہ تھا۔ ’دلورائے‘ نام ایک ایسی مثال بن گیا ہے جو ظالم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ہماری اس قدیم لوک کہانی میں جو بادشاہ ہے اس کا نام بھی دلُورائے ہے مگر کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ دلُورائے ایک شاندار، انصاف پسند اور رحم دل بادشاہ ہے۔ مطلب میری اتنی عمر میں یہ پہلا دلُورائے بادشاہ ہے جو اتنا پیارا اور معصوم طبیعت کا بادشاہ ہے کہ آپ کو اس پر پیار آنے لگتا ہے۔

بہرحال میں حیران ہوں اگر اس حوالے سے آپ بھی حیران ہوں تو یہ مناسب رہے گا۔ چلیے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ماہی گیر بستی کے پٹیل کو جب اوبھایو نے ٹیکس نہیں دیا تو وہ سیدھا دلُورائے بادشاہ کے پاس گیا اور اوبھایو کی شکایت کی۔ بادشاہ نے دربار میں اوبھایو کو طلب کیا۔ کچھ سوالات کیے جس کے اوبھایو نے انتہائی ذہانت سے جواب دیے۔ اور اس طرح رحم دل بادشاہ دلورائے، اوبھایو کا دوست بن جاتا ہے اور ماہی گیر بستیوں سے کچھ عرصے کے لیے ٹیکس معاف کردیتا ہے۔

اب ہر جگہ اوبھایو کی بلے بلے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر پٹیل نے اپنی بیٹی کا رشتہ اوبھایو سے طے کردیا جس سے اوبھایو کو پنھیر، انگاریو، مانجھاندو، للو، سانئر اور ھنجھ نامی چھ بیٹے ہوئے۔ اس کے بعد (پہلی بیٹی کے انتقال کے بعد) پٹیل نے دوسری بیٹی بھی اوبھایو کو دی جس سے دو اولادیں ہوئیں۔ بیٹی جس کا نام ’سیرہیں‘ اور بیٹے کا نام ’مورڑو‘ رکھا۔

مورڑو ایک ٹانگ سے کمزور تھا جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتا تھا ٹانگ کمزور ہونے کی وجہ سے وہ مچھلی کا شکار اور نہ کوئی اور مشکل کام کرسکتا تھا۔ اس لیے وہ اپنے باپ اور بھائیوں کی اوطاق پر رہتا اور مہمانوں کی خدمت میں لگا رہتا جس کی وجہ سے اس کا بڑا نام ہوا جو بھائیوں کی بیویوں کو اچھا نہیں لگا۔ بہرحال مورڑو اپنی بھابھیوں کے رویوں کی وجہ سے ناراض ہوکر گھر چھوڑ کر چلا گیا اور رحمدل بادشاہ دلُورائے کے پاس جا پہنچا جس کا محل ’بانبھن ندی‘ کے کنارے مشرق میں تھا چونکہ مورڑو ذہین تھا تو بادشاہ نے اسے اپنے محل میں خاص مقام دے کر رکھ لیا۔

اوبھایو جس کے چھ کے چھ بیٹے ذہین اور ماہی گیری میں ماہر تھے۔ انہوں نے اپنی محنت سے اپنے وقت میں بڑا نام پیدا کیا اور بے تحاشا مچھلی کا شکار کیا یہاں تک کہ باہر کے ممالک کو بھی مچھلیاں کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے بھیجتے تھے۔ ان کی مِیان (میان اسے کہتے ہیں جہاں مچھلی کے شکار کے لیے کشتیاں کھڑی رہتی ہیں اور شکار کے بعد وہاں واپس آتی ہیں، مچھلی وہیں تولی جاتی ہیں اور وہیں اسٹور ہوتی ہے، خرید و فروخت اور لین دین بھی وہیں ہوتی ہے۔) پر 900 کشتیاں اور 1300 تُرھے (تُرھو کو گھاس پھوس سے بنایا جاتا ہے اور بہت سارے ہوشیار شکاری چھوٹے پانی میں اُس پر تیر کر مچھلی اور جھینگے کا شکار کرتے ہیں) موجود رہتے تھے۔

لوک ادب میں، لوک داستانوں اور نیم تاریخی لوک کہانیوں کی اپنی ایک شاندار، رنگین اور سحرانگیز دنیا ہے۔ لوک کہانیوں کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ایک تو ان کہانیوں میں جانور آپس میں اور انسانوں سے باتیں کرتے ہیں اور دوسرا کمال یہ کہ ایک حقیقت جب لوک تخلیق کار کہانی میں ڈھالنے لگتا ہے تو وہ اس بات کا پورا خیال رکھتا ہے کہ کہانی میں دلچسپی، فطرت کی خوبصورتی، منظرنامے اتنے زبردست ہوں کہ سننے والے لوگ یکسانیت کا شکار نہ ہوں بلکہ کہانی کی رنگینی اور سحر میں جکڑے رہیں۔

ایک اور اہم ٹول جو آج تک بڑی کامیابی سے فلموں اور ڈراموں میں بھی استعمال ہوتا رہا ہے وہ ہے پُراسراریت اور تجسس۔ ان لوک کہانیوں میں پُراسراریت اور تجسس کچھ اس انداز سے بیان کیا جاتا تھا کہ، ’فقیر بابا نے ایک دن چرواہے کو یہ کہا کہ بچہ تو نے اس تپتی دھوپ اور بھوک میں جو مجھے بکری کا شیریں دودھ پلایا ہے، اس کے بدلے میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں کہ بکریوں کو چرانے کے لیے تم مشرق کی طرف جا سکتے ہو، جنوب کی طرف جا سکتے ہو اور مغرب کی طرف بھی جا سکتے ہو مگر کبھی شمال کی جانب مت جانا۔‘ فقیر بابا سے کہانی گر منع کرنے کے لیے اور پُراسراریت تخلیق کرنے کے لیے کوئی بھی طرف یا دوسری بات کہلوا سکتا ہے۔ اس لوک داستان میں بھی اوبھایو اپنے بیٹوں کو کہتا ہے کہ ’یہ پورا ملک پڑا ہے، سمندر پڑا ہے، دریا اور جھیلیں پڑی ہیں جہاں چاہو شکار کرو مگر کبھی کلاچی جو کُن کی طرف شکار کرنے مت جانا‘۔

اوبھایو نے جو اپنے بیٹوں کو منع کیا کہ کبھی بھول کر بھی کلاچی کے گہرے اور بھنوروں سے بھرے پانیوں کی طرف مت جانا۔ یہی وہ دیوار تھی جس کی دوسرے طرف کلاچی نام کی وہ خطرناک اور پُراسرار جگہ تھی اور اوبھایو کے بیٹے اس دیوار کو پھاند کر وہاں ضرور جانا چاہتے تھے۔

اس نیم تاریخی داستان میں جیسے اِس کُن (وہ جگہ یا مقام جہاں گِرداب پڑتے ہوں، گرداب گہرے پانی میں پڑتے ہیں اور اُن کا گھومتا تیز دائرہ، انتہائی طاقتور اور خطرناک ہوتا ہے۔ ان بھنوروں کی طاقت اور گھیرا پانی کے حساب سے بڑھتا گھٹتا رہتا ہے۔ نہروں کے پانی میں بھنور کم گھیرے کے پڑتے ہیں البتہ سمندروں میں ان کی وسعت بہت زیادہ ہوتی ہے جس میں بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز تنکے کی طرح گرداب میں پھنس کر برباد ہوجاتے ہیں یا بڑی مشکل سے نکلتے ہیں۔) کا ذکر آتا ہے، ہمیں کراچی کے ابتدائی نام کی صورت نظر آنے لگتی ہے۔ اس پر تفصیل سے اور تاریخ کے حوالوں سے بات بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے اس نیم تاریخی لوک کہانی کو ختم کرتے ہیں۔

اوبھایو کے منع کرنے کے باوجود اس کے چھ بیٹے ’کلاچی جو کُن‘ میں بڑی مچھلیوں [مقامی ماہی گیر بڑی سمندری (شارک) مچھلیوں کو ’منگر‘ کہتے ہیں اور ان کے شکار کے لیے جو پرانے زمانے کے ہتھیار تھے جو ماہی گیروں نے خود بنائے تھے وہ میں نے 2006ء میں، ابراہیم حیدری کے پاکستان فشر فوک فورم کے ہیڈ آفس میں بنائے گئے میوزیم میں دیکھے تھے جس کے انچارج بابو مشتاق جو ابراہیم حیدری کے رہنے والے ہیں، اُن کے پاس اس حوالے سے بڑی معلومات تھی جو وہ مجھے بتایا کرتا تھا۔ ماہی گیر منگر کا شکار اس کی چربی حاصل کرنے کے لیے کرتے تھے۔ یہ چربی وہ اپنی شکار کی کشتیوں کو اندر باہر سے لگاتے تھے (ہیں) کہ سمندر کا نمکین پانی کشتیوں کی لکڑی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔] کا شکار کرنے نکل پڑے۔

جب دیگر ماہی گیروں نے دیکھا تو وہ بھی شغل کے طور پر ان کے ساتھ چل پڑے۔ بہرحال جب وہ اس جگہ پر پہنچے تو پانی کی کیفیت انتہائی خطرناک تھی، بھنور پڑتے تھے اور پانی اتنا گہرا تھا کہ کشتیوں کو آگے دھکیلنے والی بڑی لکڑی کو نیچے زمین نہیں ملتی تھی. سمندر کی یہ دہشت دیکھ کر دوسرے ماہی گیر واپس سون میانی لوٹ گئے۔ مگر ان چھ بھائیوں نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ منگر مچھلی کے نظر آتے ہی انہوں نے جال پھینکا جو مچھلی نے پکڑ لیا۔ اس جال کو چھڑانے کے لیے ایک کے بعد ایک بھائی پانی میں اُترتا اور شارک ان کا شکار کرتی گئی۔

جب ایک دو دن کے بعد اوبھایو کے بیٹے نہیں لوٹے تو یقین ہوگیا کہ وہ سمندر کی نذر ہوگئے اور کسی بڑی منگر مچھلی نے انہیں نگل لیا ہے۔ یہ حادثہ جب ہوا تو مورڑو، دلورائے بادشاہ کے پاس تھا۔ جب اسے پتا چلا تو اسے بڑا دکھ ہوا اور وہ سون میانی پہنچا چونکہ یہ بارشوں کا موسم (اگست) تھا تو مورڑو نے سمندر میں جانا مناسب نہ سمجھا اور موسم گزر جانے کے بعد یعنی اکتوبر میں بھائیوں کا انتقام لینے کے لیے اور ان کی آخری بچی نشانیاں حاصل کرنے کے لیے منگر پر حملہ کرنے کے لیے ایک پلان تیار کیا اور دلورائے سے مدد طلب کی۔

بادشاہ نے اپنی بادشاہت میں سب سے ہوشیار لوہار کو حکم دیا کہ مورڑو جیسا چاہتا ہے، اسے ویسا ہی اوزار بنا کر دیا جائے۔ مورڑو نے لوہار کو کہا کہ وہ اپنی مہارت سے ایسا گول مضبوط پنجرہ تیار کرے جس کے اندر مورڑو بڑے آرام سے بیٹھ سکے اور اس پنجرے کے باہر سے ایسے تیز دھار والے نوکیلے کیل لگائی جائیں تاکہ منگر جب اسے نگلے تو وہ اُس کے منہ یا گلے میں اٹک جائیں اور پھر اس پنجرے میں لوہے کی بڑی مضبوط زنجیریں لگی ہوں کہ جیسے مچھلی کے منہ میں وہ پنجرہ پھنس جائے تو اُن زنجیروں کو باہر بیٹھے ہوئے کشتیوں پر بیٹھے ہوئے ماہی گیر کھینچیں اور جن کشتیوں پر ماہی گیر بیٹھے ہوں ان کشتیوں کو مضبوط رسیوں سے باندھ کر کنارے تک لے جایا جائے اور کنارے پر گھوڑے اور بھینسوں کو اُن رسیوں سے باندھا جائے۔

مورڑو جیسے مچھلی کے پیٹ میں پہنچ کر اشارہ کرے تو کشتیوں والے اُس پنجرے کو کھینچیں اور کنارے پر کھڑے گھوڑے اور بھینسیں کشتیوں کو کھینچیں اور اس طرح اس منگر کو کنارے تک لا کر اس کو چیر کر اس کے پیٹ سے اوبھایو کے بیٹوں اور مورڑو کے بھائیوں کی باقیات نکال کر احترام سے زمین کے حوالے کی جائیں۔

اسی طرح پورا اہتمام ہوا جس طرح مورڑو چاہتا تھا۔ جس دن یہ سب کچھ ہونے والا تھا، اُس دن دلُورائے بادشاہ کوچ کرکے اپنے لشکر سمیت کنارے پر آیا اور شاہانہ بادشاہی تنبو میں بیٹھ کر یہ سارا ماجرا دیکھنے لگا۔ بہرحال مورڑو اپنی ذہانت سے منگر کو کنارے پر لے آیا۔ اس کا پیٹ چاک کیا جو نشانیاں بچی تھیں انہیں زمین کے حوالے کیا گیا۔ مورڑو پھر ساری عمر اپنے بھائیوں کی قبروں پر مجاور بن کر رہا اور جب اس کے دن پورے ہوئے تو اسے بھی قریب ہی دفن کیا گیا۔

میں نے آپ کے سامنے جس طویل نیم تاریخی کہانی کا لُب لباب پیش کیا ہے وہ میں نے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی کتاب سے لی ہے جس میں انہوں نے 18 کے قریب اس حوالے سے لوک کہانیاں، کہانی گروں سے سن کر محفوظ کی ہیں ساتھ ہی 1932ء میں مورڑو منگر مچھ کے حوالے سے شکارپور سے مسٹر پوکرداس کی پریس سے ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی تھی جسے میں نے بطور حوالہ استعمال کیا۔

اب وقت ہے نیم تاریخی کہانی کا۔ میں اسے مسلسل نیم تاریخی کہانی اس لیے تحریر کررہا ہوں کیونکہ یہ کہانی فقط تصوراتی نہیں ہے۔ اگرچہ اس میں کہانی بیان کرنے کے جو لوازمات ہیں وہ ضرور شامل ہیں مگر جو نام اور مقامات ہیں وہ مقامات آج بھی اگر تھوڑی کوشش کرلیں تو ہمیں سمجھ میں آ جاتے ہیں اور ہم انہیں ڈھونڈ بھی سکتے ہیں۔ اس لیے یہ تاریخ سے جڑی ایک زبردست کہانی ہے جس کی عمر کئی صدیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم شکر گزار ہیں ان کہانی گروں کی جنہوں نے اتنی صدیوں پرانی حقیقت کو ہم تک پہنچایا۔

آپ نے کلاچی جو کُن کے حوالے سے لوک کہانی پڑھی، اب وقت ہے اس نیم تاریخی کہانی کو درست ثابت کرنے کے لیے مستحکم حوالہ جات ڈھونڈنے کا تاکہ ہم یہ ثابت کرسکیں کہ یہ کہانی ان سمندری کناروں پر پنپی، جوان ہوئی اور اپنے اختتام کو پہنچی۔ اور اس کا اختتام ہمارے لیے کئی راستے چھوڑ گیا ہے جو ہمیں لے جائیں گے کراچی کی اُن بستیوں تک جہاں اوبھایو اور مورڑو کے خاندان آج تک بستے ہیں۔

ہم کوشش کریں گے کہ اگلی قسط میں ہم اس نیم تاریخی لوک کہانی کے حوالہ جات کو مکمل کرلیں جبکہ کراچی کے مشرق میں ملیر ندی کے کنارے ان زمانوں کی ایک اور لوک کہانی ہماری منتظر ہے۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔