نقطہ نظر

مودی کی ہیٹ ٹرک!

مودی جو دیوتا کا روپ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، ووٹرز کی بڑی تعداد کو احساس ہوگیا ہے کہ یہ دیوتا بھی ایک عام انسان ہے جس میں بہت سی خامیاں ہیں۔

گزشتہ روز صورت حال دیکھ کر یہ گمان ہورہا تھا کہ گویا ان کی تمام پریشانیاں دور ہوچکیں۔ ایگزٹ پولز کے ابتدائی غیرحتمی نتائج کے مطابق نریندر مودی اور ان کا حکمران اتحاد ایک بار پھر بھارت میں برسراقتدار آسکتا ہے، ہاں شاید وہ 400 نشستوں کی برتری حاصل نہیں کرپائیں کہ جس کی وہ امید کررہے تھے۔ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی جماعتیں بھی ان تخمینوں کو لےکر درست شکوک و شبہات کا شکار تھیں۔

یہ توقع تو سب کو تھی کہ نریندر مودی ہیٹ ٹرک اسکور کریں گے۔ مودی، جواہر لال نہرو کے بعد لگاتار تین انتخابات جیتنے والے بھارت کے دوسرے وزیراعظم ہوں گے۔ تاہم ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ووٹ کا تناسب کبھی بھی کانگریس کی جانب سے 1951ء سے 1962ء تک کے انتخابات میں حاصل کردہ ووٹ شیئر کے قریب نہیں آیا یعنی یہ ہمیشہ 50 فیصد سے کم ہی رہا۔

حتیٰ کہ 1984ء میں راجیو گاندھی نے اپنی ماں اندرا گاندھی کے قتل (اور اس کے بعد ہونے والے خوفناک سکھ مخالف فسادات) کے بعد بھی انتخابات میں حصہ لیا تو کانگریس نے اس وقت 404 نشستیں (514 میں سے) حاصل کی تھیں جوکہ ملک میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کا 49 فیصد تھا۔

ایک ایسا نظام کہ جس میں دیگر انتخابی امیدواروں سے کم ووٹ لینے والا امیدوار جیت جاتا ہے، اس کے تحت یہ ضروری نہیں لوک سبھا میں زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت کا ووٹ شیئر بھی اسے ملنے والی نشستوں کے برابر ہو۔ یہی نظام برطانیہ میں بھی لاگو ہے جوکہ جمہوریت کی نمائندگی میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ برطانیہ کو وقت کی ضرورت کے تحت متناسب نمائندگی کی طرف جانے کی ضرورت پڑسکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت میں نشستیں، ہر جماعت کو ملنے والے ووٹ شیئر کے مطابق ہوں۔ بھارت اور پاکستان بھی برطانیہ کی پہل کے بعد ایسی تبدیلی لانے پر غور کرسکتے ہیں۔

رواں سال بھارت کے انتخابات 6 ہفتوں تک منعقد ہوئے جوکہ غیرضروری طور پر طویل تھے۔ وہ انتخابات جن میں ووٹرز کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہوتی ہے، اس میں کچھ توجہ اس بات پر بھی رہی کہ پولنگ اہلکار دور دراز علاقوں سے ملنے والے صرف چند ووٹ کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ کچھ علاقے جیسے اتر پردیش میں مسلم رائے دہندگان کو پولنگ اسٹیشنز سے واپس بھیج دیا گیا (کچھ مواقع پر تشدد کرکے ایسا کیا گیا)۔

بہ ہرحال تادمِ تحریر اپوزیشن اتحاد انڈیا کو اتر پردیش میں فیصلہ کُن برتری حاصل ہے جوکہ ریاست کے ناقابلِ نفرت وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کو مہاراشٹر میں بھی نمایاں برتری حاصل ہے جبکہ تامل ناڈو اور کیرالہ میں حکران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے قدم جمانے کے خواب حقیقت کا روپ لیتے ہیں یا نہیں، اس کا حتمی فیصلہ ابھی سامنے آنا باقی ہے۔

اسی طرح ’چار سو پار‘ کرنے کا خواب بھی خواب ہی رہ گیا اور اسے پورا کرنے میں تقریباً 100 نشستیں کم رہ گئیں۔ انتخابات کے آخری مرحلے سے قبل نریندر مودی نے تامل ناڈو میں 45 گھنٹے مراقبہ کیا جہاں انہوں نے بہ ظاہر صرف ناریل کے پانی اور انگور کا رس پی کر ’تنہائی میں‘ وقت گزارا۔ ایسی تنہائی کہ جس میں درجن بھر ٹی وی کیمرے ان کے ساتھ تھے۔ دیوتا کا روپ ہونے (یا ان سے متاثر) کے ان کے دعوے کے باوجود رائے دہندگان کی بڑی تعداد کو اس حقیقت کا احساس ہوچکا تھا کہ یہ دیوتا بھی ایک عام انسان ہے جس میں بہت سی خامیاں ہیں۔

وہ لوگ جو اس خدشے کے تحت فکرمند تھے کہ مودی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوں گے، خوشگوار حیرت میں مبتلا ہیں۔ اگرچہ مودی کا وزیراعظم کی حیثیت سے دستبردار ہونے کا امکان بہت کم ہے لیکن بہ نسبت گزشتہ چند ہفتوں کے، یہ امکانات بڑھ چکے ہیں۔ ایک دہائی قبل مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے انہیں مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل رہی ہے، تاہم ان ممالک کو حمایت کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔ یہ امکان تو بہت کم ہے کہ مستقبل قریب میں مودی کا سخت رویہ اور جارحانہ سلوک تبدیل ہو۔ لیکن تازہ ترین انتخابات دہلی میں راشٹریہ سوام سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے گٹھ جوڑ کا اختتام ثابت ہوسکتے ہیں۔

بھارت کی موجودہ منظرنامہ زیادہ خوش آئند تو نہیں لیکن بہ ظاہر لگ رہا ہے کہ بھارت ایک مثبت اور پُرامید سمت کی جانب گامزن ہے۔ لگاتار تین انتخابات جیتنے والے جواہر لال نہرو مذہب کی بنیاد پر تقسیم بشمول ہندو-مسلم تقسیم کے سخت مخالف تھے۔ اپنی سوانح عمری میں ایک سے زائد بار انہوں نے لکھا کہ مسلم کمیونٹی میں جس قسم کا وقار موجود ہے، اس کی جھلک ہمیں ہندو کمیونٹی میں نہیں ملتی۔

وراثت میں ’پنڈت‘ کا لقب ملنے کے باوجود جواہر لال نہرو کا جھکاؤ مذہب کی جانب زیادہ نہیں تھا لیکن وہ بہ خوبی واقف تھے کہ ان کے کئی کانگریس ساتھی سیکولر نظریات کی آڑ میں فرقہ وارانہ تعصبات کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔

جواہر لال نہرو شاید اپنے کانگریس کے جانشینوں سے مایوس ہوں گے بشمول اپنی بیٹی اور نواسے کہ جنہیں بے رحمانہ انداز میں قتل کردیا گیا۔ شاید اپنے نواسے کی اولاد کی حالیہ انتخابات میں متحرک کوششوں کی صورت میں نہرو کو فخر کرنے کا موقع مل گیا ہو۔ راہول گاندھی کی تقدیر میں وزیراعظم بننا لکھا ہے یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن موروثی سیاست ہمیشہ برصغیر اور مجموعی طور پر براعظم ایشیا پر ایک سیاہ بادل کی مانند منڈلاتی رہی ہے جس کی کوکھ سے مختلف مسائل نے جنم لیا ہے۔

چند دہائی قبل بھارت ان پاکستانیوں کے لیے ایک رول ماڈل تھا جوکہ ملک کی ملٹری کی سرپرستی میں مذہبی بنیاد پرستی کے فروغ سے ناخوش تھے۔ 2014ء میں بھارت بھی اسی ڈگر پر چل پڑا۔ جولائی 1977ء پاکستان نے اس راہ پر گامزن ہوا اور اس کے بعد اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ حالیہ انتخابات میں بھارتی رائے دہندگان نے کچھ حد تک ہندو قوم پرست روش سے اپنی ناپسندیدگی ظاہر کی بالخصوص جب اس قوم پرستی سے نہ انہیں بے روزگاری سے نجات مل رہی ہے اور نہ ہی انہیں وہ برابری مل رہی ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

اس بار شاید نریندر مودی کی حکومت پہلے کی نسبت کمزور ہو اور شاید طنز کے نشتر برسانے والے امیت شاہ بھی منظرنامے میں نہ رہیں۔ بی جے پی کی قیادت میں حکمران اتحاد اگلے 5 برسوں تک بھارت پر حکمرانی کرے گا۔ لیکن موجودہ رجحانات کو دیکھا جائے تو شاید یہ حکومت اتنے عرصے تک قائم نہ رہ پائے۔ چلیے اچھے کی امید کرتے ہیں۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

ماہر علی

لکھاری سے ای میل کے ذریعے رابطہ کریں: mahir.dawn@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔