بھارت میں شہریت کے متنازع قانون پر عملدرآمد شروع
بھارت نے شہریت کے متنازع قانون کے تحت پہلی مرتبہ 14 تارکینِ وطن کو شہریت کی دستاویزات حوالے کر دی گئی ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق واضح رہے کہ 11 مارچ کو مودی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو نافذ کرنے کے لیے قوانین متعارف کرائے تھے، جس کے مطابق پی بی جے 31 دسمبر 2014 سے قبل بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندوؤں، پارسیوں، سکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں اور مسیحیوں کو شہریت دے سکتی ہے۔
مذکورہ قانون کے خلاف 2019 میں بدترین احتجاج ہوا تھا اور مذہبی فسادات برپا ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا اور اسی وجہ سےاس قانون پر عمل درآمد میں تاخیر کردی گئی تھی۔
رواں سال ملک میں انتخابات سے قبل متنازع قانون کے نفاذ کے خلاف بھارت میں مظاہرے شروع ہوئے تھے، مظاہرین نے مودی حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے تھے۔
تاہم اس کے باوجود جاری انتخابات سے چند ہفتے قبل بھارت نے اس ایکٹ کو مارچ میں نافذ کیا تھا۔
15 مئی کو نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران سیکریٹری داخلہ اجے کمار بھالا نے تارکینِ وطن کو شہریت کے سرٹیفکیٹس دیے جب کہ بھارت کی وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تارکینِ وطن کی دستاویزات کی تصدیق کے بعد ان سے وفاداری کا حلف لیا گیا اور انہیں شہریت کے سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں۔
بھارت دنیا میں تیسرا بڑا ملک ہے جہاں 20 کروڑ سے زائد مسلم آبادی رہائش پزیر ہے، رائٹس اینڈ اپوزیشن گروپس نے مودی اور حکمران جماعت بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اقلیتی برادری کو نشانہ بناتے ہیں۔
مودی اور بی جے پی ان الزامات کی تردید کی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ تمام برادریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شہریت کے قانون کا مقصد صرف غیر مسلم پناہ گزینوں کی بہتر زندگی گزارنے میں مدد کرنا ہے اور یہ کسی سے شہریت چھیننے کے بارے میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان پناہ گزین شہریت سے متعلق باقاعدہ قوانین کے تحت درخواست دے سکتے ہیں۔