کراچی: صدیوں کی کتھا! (چودہویں قسط)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
تاریخ کے صفحات پر بکھرے گزرے زمانوں کے واقعات کا مطالعہ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ یعنی صاحب مطالعہ، چاہے اس تاریخ کے صفحات کا مطالعہ سخت گرمیوں میں اپنے ایئرکنڈیشنڈ ٹھنڈے کمرے میں کررہے ہوں یا گھر کے اُس دالان میں جہاں کوئی چڑیا چہچہاتی اپنے گھونسلے میں بچوں کو خوراک دینے کے لیے آتی جاتی رہتی ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ گاؤں میں بہتی نالی کے کنارے نیم یا کیکر کے گھنے درخت کے نیچے چارپائی پر ان گزرے واقعات کا مطالعہ کررہے ہوں، اُن لمحات میں آپ کو پتا تک نہیں چلتا کہ آپ مکافات عمل کے ایک وسیع کھیل کے میدان کو دیکھ رہے ہیں۔
ایسا میدان جہاں دیکھتے ہی دیکھتے برسوں گزر جاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بادشاہ، حملہ آور اور طاقتور ترین انسان جن کا سر غرور سے اونچا رہا، جو اپنے جسم پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے تھے، جن کے سامنے کوئی اپنی درست بات رکھنے کی بھی ہمت نہیں کر پاتا تھا، وہ اپنے غرور کی خاردار جھاڑی کو تازہ رکھنے کے لیے جنگ کے میدان سجاتے تو پیٹ میں لگی بھوک کی آگ مٹانے کے لیے غریب اور بے بس لوگوں کے جتھے ان کے ساتھ چل پڑتے۔
تاریخ کے صفحات پر ہمیں وہ چہرے نظر آتے ہیں جن کی آنکھوں نے اس دنیا کو جنگ کا میدان نہیں سمجھا، دشمنی اور نفرت کے بیج نہیں بوئے، سب کے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کی، جتنا ممکن ہوسکا سب کے بھلے کے لیے سوچتے اور عمل کرتے رہے۔ آج کی شاندار دنیا ان لوگوں کے خیالات اور مثبت اعمال کا ثمر ہے۔
تو بات شروع ہوئی تھی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے محترم دوستوں کے حوالے سے کہ جب وہ تاریخ پڑھتے ہیں تو فوری طور پر جان لیتے ہیں کہ مکافات عمل کیا ہوتا ہے۔
ہم اگر سندھ کی ہباری سلطنت کی سرحدوں کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ شمال میں اُچ، شمال مغرب میں سبی، جنوب مشرق میں ننگرپارکر اور ننگرپارکر سے اگر آپ مغرب کی طرف ایک ٹیڑھی میڑھی لکیر کھیچ لیں تو یہ لکیر جنوبی سندھ کے سمندری کنارے سے ہوتی ہوئی، بنبھور سے آگے کراچی سے حب ندی کے قریب مغرب میں جاکر شمال میں سبی کی جانب چلی جائے گی۔ ہباری خاندان کی حکومت کے دورانیے کے متعلق اگر ہم پنوھر صاحب سے کچھ رہنمائی لیتے ہیں تو اُن کے کہنے کے مطابق بغداد اور دمشق نے سندھ پر فقط 100 سے 150 برس تک حکومت کی۔ مرکز دور تھے تو یہاں آباد ہونے والے اور پیدا ہونے والے عربوں نے سندھ پر حکومت کی۔ اس لیے محققین نے ان 300 برسوں کے عرصے کو یک مشت ہباری حکومت کا نام دیا۔
سندھ پر سومرا دورِ حکومت (1011ء-1351ء) کے دوران تاریخ کے اوراق ہمیں کچھ اہم واقعات کی خبر دیتے ہیں خاص طور پر جنوبی سندھ اور سمندر کنارے بسے شہروں اور بندرگاہوں کے متعلق۔ سومرا حکومت کے بعد آنے والی ’سمہ حکومت‘ کی مرکزی حکومت بھی جنوبی سندھ میں تھی اور اس کے بعد ارغون، مغل، ترخان کا بھی مرکز جنوبی سندھ رہا۔ آگے آنے والے سفر میں ہماری کوشش ہوگی کہ ہم جنوبی سندھ کے سمندری کنارے کے قریب ہی رہیں اور یہ دیکھ سکیں کہ وقت کی کوکھ سے جنم لینے والی آندھیوں نے کیسے کیسے بڑے شہروں، بندرگاہوں اور انسانی آبادیوں کو نیست و نابود کیا اور وقت نے جب ان بستیوں سے آنکھیں پھیریں تو پھر ان مقامات پر زوال کی بارشیں ہی برستی رہیں اور ان بارشوں سے کبھی ان بستیوں کی فضا میں نہ کسی بچے کی کلکاری اُگی اور نہ شہروں کے ویران بازاروں میں بیوپاریوں اور خریداروں کی آوازیں جنم لے سکیں۔
آج ہم پہلے سومرا سرداروں کی تقریباً 300 برس کی حکومت کے بارے میں تاریخ کے صفحات سے جاننے کی بھرپور کوشش کریں گے کہ ان برسوں میں یہاں کے منظرنامے میں کیا کیا تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ سومرا سرداروں کے دور حکومت میں 1181ء میں شہاب الدین غوری دیبل پر حملہ کرنے کے ساتھ ساحل سمندر کے دیگر شہروں کو لوٹ کر غزنی چلا گیا۔
اعجازالحق قدوسی لکھتے ہیں کہ ’سلطان شہاب الدین غوری کو کوئی لڑکا نہیں تھا۔ اس نے اپنے غلاموں کی اپنی اولاد کی طرح پرورش کی تھی، اس لیے اس کی موت کے بعد اس کے غلام، قطب الدین ایبک، تاج الدین یلدوز اور ناصر قباچہ سب فرمانرواں کے مرتبے کو پہنچے۔ چنانچہ تاج الدین یلدوز، ایبک کو لاہور اور دہلی جبکہ قباچہ کو ملتان اور شمالی سندھ کی بادشاہت ملی‘۔
بہرحال یہ غوری کا دُکھ تھا مگر ہمارے سامنے اس وقت بنبھور کا دکھ ہے جہاں سے ایک شاندار وقت گزارنے کے بعد اب اچھے دن مہمان پرندوں کی طرح اُڑنے کے لیے پَر تولنے لگے تھے۔ 13ویں صدی کے شب و روز بنبھور کی تقدیر کے لیے کچھ بہتر ثابت ہونے والے نہیں تھے۔ پھر وہ وقت آن پہنچا جب اس اہم بندرگاہ پر خوارزم (وسط ایشیا کی ایک قدیم ریاست جو دریائے جیحوں کے طاس میں پھیلی ہوئی تھی۔ اب یہ علاقہ ازبکستان میں شامل ہے) کے جلال الدین خوارزم کے متعلق حقائق بتانے والا ہوں کہ وہ کہاں سے نکلا تھا، کیوں نکلا تھا اور جب ناکام ہوا تو ہمارے اس سمندری کنارے کا رُخ کیا کیونکہ ایک حملہ آور سے آپ یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ یہاں تعمیر کرنے آیا ہوگا۔
خوارزم کے متعلق بتانا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے حملے کی وجہ سے یہاں کے معاشی اور سیاسی حالات پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ جلال الدین سے متعلق منہاج الدین جوزجانی، محمد قاسم فرشتہ، اعجازالحق قدوسی اور عطا جیونی ہماری مدد کریں گے۔
خوارزم، سیحون (دریائے آمو) اور جیحون (سیر دریا) دریاؤں کا ڈیلٹا علاقہ ہے۔ بالکل ایسے جیسے دریائے سندھ کا جنوبی سندھ ڈیلٹا علاقہ ہے۔ ان دونوں دریاؤں کے بیچ میں جو علاقہ ہے اسے ’ماورا النہر‘ کہا جاتا ہے۔ خوارزم شاہی سلطنت، وسط ایشیا اور ایران کی ایک سُنی مسلم سلطنت تھی۔ یہ پہلے سلجوقی سلطنت تھی اور 11ویں صدی میں ان کا زمانہ ’انوشتگین‘ (1077ء) کے گورنر بننے سے ختم ہوا۔ یہ سلجوقی سلطان کا غلام تھا۔
خوارزمی سلطنت وقت کے ساتھ ساتھ پھلتی پھولتی رہی۔ ملک تاج الدین محمد، ملک جلال الدین خوارزم شاہ، ایل ارسلان، سلطان تکش، سلطان شاہ، یونس خان، ملک شاہ، علی شاہ، اس سلطنت کے اہم حاکم رہے۔ ہم اب اس سلطنت کے ان باپ بیٹے پر آتے ہیں جو اس سلطنت کے آخری حکمران تھے۔
باپ جس کا نام سلطان علا الدین محمد بن تکش تھا۔ اسی کے زمانے میں تاتاریوں والا واقعہ ہوا تھا۔ جس نے ایشیا کے پانیوں کو خون سے سرخ کردیا تھا۔ ایک وحشت تھی جس کو اس واقعے نے بے قابو کردیا تھا۔ آگ کی چنگاری لگی خوارزم میں لیکن اُس کی آگ جنوبی سندھ کے شہروں تک آپہنچی۔ اس واقعہ کو طبقات ناصری کے مصنف ’فتنہ تاتار‘ کا نام دیتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’سلطان محمد، قدرخان پر مکمل فتح حاصل کرچکا تھا مگر اچانک چنگیزی-تاتاری کا فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا جو آخرکار اس اسلامی سلطنت کی تباہی و بربادی کا باعث بنا۔
چنگیز خان کا بڑا بیٹا توشی (جوجی) باپ کے حکم پر چین سے تاتاری لشکر کے عقب میں آیا۔ ادھر سلطان محمد کا رخ بھی اس طرف تھا، اچانک دونوں لشکروں میں تصادم ہوگیا۔ صبح سے شام تک جنگ جاری رہی۔ رات ہوئی تو دونوں لشکر میدان جنگ سے ہٹ گئے۔ دونوں کے درمیان ایک چھوٹی ندی حائل تھی۔ رات کو مغلوں نے اپنے کیمپ میں زبردست آگ جلائی جس کے شعلے بہت بلند ہوئے اور وہ خود رات میں وہاں سے چلے گئے۔ سلطان محمد نے بھی ان کی جنگی صلاحیتوں کا مشاہدہ کرلیا۔ دل و دماغ پر ان کا خوف مسلط تھا، اس لیے وہ بھی تعاقب کرنے کے بجائے وہاں سے واپس چلا آیا اور آئندہ ان کے مقابلے سے گریزاں رہا۔ یہی بات بعد میں پیش آنے والی مشکلات کا سبب بنی۔
’کچھ وقت کے بعد سلطان محمد خوارزم شاہ کے دماغ میں چین کو فتح کرنے کا سودا سمایا۔ اس نے چنگیز خان اور اس کے لشکر کے حالات کی چھان بین کے لیے بہا الدین رازی کو دیگر لوگوں کے ساتھ بطور سفیر چین بھیجا۔ چنگیز خان نے اس کی خوب خاطر مدارات کی اور دوستی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پھر پانسو اونٹوں کا قافلہ بھیجا لیکن جب قافلہ سلطان محمد کی حدود میں اترار پہنچا تو قدرخان نامی حاکم نے سفیروں اور تاجروں کو ہلاک کرکے مال و اسباب سلطان کے پاس بھیج دیا۔ صرف ایک ساربان بچ کر چنگیز خان کی دربار میں پہنچ سکا۔
اس خون کا رد عمل یہ ہوا کہ حالات خوازمی سلطنت کے ہاتھ سے نکل گئے۔ چنگیز نے اترار پر قبضہ کرکے قتل و غارت گری کی پھر 616 ہجری کی عید قربان کے دن بخارا پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد 617 ہجری میں ثمرقند پر قبضہ کرلیا۔ حالات اتنے بگڑتے چلے گئے کہ سلطان بھاگتا رہا۔ آخر درہ قیثہ میں مقابلہ ہوا۔ سلطان نے شکست کھائی اور اپنے بیٹے جلال الدین منکبرنی کے ساتھ بحیرہ قزوین (بحیرہ خضر) کے ایک جزیرے میں چھپ گیا۔ سلطان پر تاتاری وحشتوں کا اتنا شدید اثر ہوا کہ اس کے معدے نے کام کرنا چھوڑ دیا اور مالیخولیا کی بیماری نے اسے جکڑ لیا اور اسی طرح نومبر 1220ء میں اس کا انتقال ہوگیا’۔
تاتاریوں کی یلغار سے جب سلطان بھاگتا پھر رہا تھا تو اس کے ساتھ اس کا بیٹا جلال الدین تھا۔ اسی دوران خوارزم میں اس کے بھائی ’قطب الدین‘ کو تخت پر بٹھا دیا گیا تھا۔ منہاج الدین جوزجانی تحریر کرتے ہیں کہ ’جلال الدین کی غیرحاضری میں اس کے بھائی کو تخت پر بٹھادیا تھا۔ جلال الدین خاندانی سازشوں کے خوف سے خوارزم سے نکل کر غزنی پہنچا۔ جب چنگیز خان کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اپنے داماد فوتو قوتوین (فیقونویان) کو لشکر دے کر جلال الدین کے تعاقب میں بھیجا۔ لڑائی ہوئی تو تاتاری شکست کھا گئے۔ چنگیز خان طالقان (خراسان) میں تھا۔ یہ خبر سنتے ہی اس نے اپنے لشکر کا رخ غزنی کی طرف موڑ دیا۔ سلطان جلال الدین خوفزدہ ہوکر پشاور کی طرف آیا۔ وہاں جنگ ہوئی اور سلطان جلال الدین، دریائے سندھ میں کود گیا اور تیروں کی بارش میں دریا پار کر گیا‘۔
تاریخ جہان گُشا کے لکھاری، علاالدین عطا ملک جوینی کی تحریر کے مطابق، ’سلطان نے 500 گھڑ سواروں کے لشکر کے ساتھ دریائے سندھ کو پار کیا۔ اس کے بعد وہ نزدیک ایک جنگل میں رہا اور یہاں بہت سے جتھے ان سے آ ملے اور اس کی فوج کی تعداد 34 ہزار تک پہنچ گئی۔ جب یہ خبر چنگیز خان کو ملی تو اس نے حملے کے لیے لشکر بھیجا۔ یہ بات سن کر جلال الدین دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ منگولوں نے کچھ فاصلے تک اس کا پیچھا کیا مگر پھر واپس لوٹے اور راستے میں پڑتے شہر ملکفور (ریورٹی کے مطابق وہ شہر راولپنڈی کے نزدیک جہلم ندی پر تھا) کو برباد کرتے چلے گئے۔ خوارزم شاہ جب دہلی سے 100 میل تک آپہنچا تو اس نے شمس الدین التمش کی طرف اپنا ایلچی بھیجا اور عارضی پناہ کی درخواست کی۔ درخواست انتہائی فضیلت کے ساتھ نامنظور کی گئی اور ایلچی کو قتل کردیا گیا۔ سلطان مایوس ہوکر واپس لوٹا‘۔
یہاں میں جوزجانی کا ایک جملہ ضرور بطور مستعار لوں گا، وہ لکھتے ہیں کہ ’التمش نے جلال الدین کا رخ حسن تدبیر سے سندھ کی طرف موڑ دیا‘، اور اس حسن تدبیر کا نتیجہ جو نکلا وہ قتل گیری، لوٹ گھسوٹ اور آگ کے شعلوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دہلی میں پناہ نہ ملنے کی وجہ سے واپس لوٹا تو اُچ کے شہر کو آگ لگاتا وہ سیوہن آیا اور وہاں ایک مہینے کے قریب رکا۔ وہاں قباچہ کا گورنر مقرر تھا جس نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ اس لیے اسے اسی عہدے پر بحال رکھا۔ اس کے بعد وہ جنوبی سندھ کی طرف نکل پڑا۔ اس نے اپنی فوجی چھاؤنی دیبل اور شاہ کپور (دمریلہ) کے مشہور شہروں کے بیچ میں لگائی۔ وہ یہاں بہت عرصہ رہا۔
اس وقت جنوبی سندھ پر سومرا سرداروں کا راج تھا اور وہاں ’سنان الدین چنیسر‘ حاکم تھا۔ اسے جب جلال الدین کے آنے کی خبر ملی تو وہ کشتیوں پر سوار ہوکر بھاگ نکلا۔ یہ سن کر سلطان نے خس خان کو ایک جری لشکر کے ساتھ بھیجا کہ وہ اونٹوں کو لے کر وہاں سے نہروالہ (انہولواڑہ گجرات) پر حملہ کرے اور انہولواڑہ سے واپسی پر گجرات کے شمالی علاقوں کو لوٹتے جلاتے پارینگر (ننگرپارکر کے شمال مشرق میں اپنے زمانے کا مشہور شہر اور بندرگاہ) آپہنچے۔ اس مشہور بندرگاہ کو بھی لوٹ کر ویران کردیا۔ بربادی اور لوٹ مار کا یہ وحشیانہ کھیل، جلال الدین خوارزم نے تقریباً یہاں دو برس تک کھیلا۔
کرمان اور فارس جانے سے پہلے اس نے دیبل (بنبھور) کو لوٹا اور آگ لگادی۔ ڈاکٹر ایم-ایچ-پنوھر صاحب، ایف-اے-خان کی بنبھور کی کھدائی کی رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’بارہویں اور تیرہویں صدی کے ان وحشیانہ حملوں نے بنبھور کو برباد کرکے رکھ دیا۔ اس عالیشان اور بستے ہوئے شہر کو خوارزم شاہ نے 1223ء میں برباد کردیا۔ کھدائی سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بنبھور کی ہر گلی میں جنگ ہوئی اور پھر اس شہر کو آگ لگا کر جلادیا گیا جیسے جلال الدین نے سندھ کے اور کئی آبادیوں اور شہروں کے ساتھ کیا‘۔
خوارزم کے اس حملے نے بنبھور شہر کی زندگی کو اس طرح گھونٹا کہ اس کی گلیوں اور گھروں کے آنگنوں میں پھر جینے کی تمنا پنپ نہ سکی۔ ایک شہر مسلسل حملوں میں آخر کتنے برسوں تک خود کو معاشی طور پر زندہ رکھ سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کو پھر سے آباد کرنے کی کوشش کی بھی گئی ہو کہ وہ دریائے سندھ اور سمندر کنارے تھا، مگر اس کو دوبارہ آباد کرنے میں شاید دریائے سندھ کی رضامندی نہیں تھی۔ مسلسل صدیوں سے بہنے کی وجہ سے بہاؤ میں ریت بھر گئی اور تقریباً 1250ء میں میٹھے پانی کے ساتھ اندرون ملک کشتیوں کی آوت جاوت بھی بند ہوگئی ہوگی۔
بنبھور کے ویران ہونے سے حیات نے اپنے سفر کو جاری رکھنے کے لیے نئے راستے ڈھونڈ لیے۔ وہ بیوپاری قافلے جو پہلے شمال، شمال مغرب اور مغرب سے بنبھور آتے تھے وہ پھر بنبھور کے راستے مشرق میں 40 کلومیٹر پر ٹھٹہ جانے لگے اور بیوپاری جہاز جو پہلے بنبھور یا دیبل کے کنارے رکتے تھے وہ پھر بنبھور سے جنوب مغرب 20 کلومیٹر جاکھی بندر جانے لگے۔
جاکھی سے جہازوں سے اُترا سامان جاکھی (لاڑی بندر) 55 کلومیٹر شمال مشرق میں ٹھٹہ آنے جانے لگا۔ یہ جنوبی سندھ کے سمندری کنارے کی آج سے تقریباً آٹھ صدیاں پہلے کی صورتحال تھی جو یہاں کے پرانے منظرنامے کی جگہ نئے منظرنامے کو بُننی تھی۔ اب چونکہ ہمارا پڑاؤ جاکھی بندر پر ہوگا، یہ جگہ ہم سب نے اسی لیے منتخب کی ہے کہ یہاں ہم خود کو مرکز میں بیٹھا محسوس کریں گے۔ ہمارے شمال مشرق میں ٹھٹہ ہے اور ہمارے شمال میں بالکل سامنے کراچی ہے اور اسی زمانے میں ہمیں پہلی بار کلاچی یا کراچی کے متعلق بہت ساری اہم اور بنیادی معلومات ملنے والی ہیں۔
ابن بطوطہ، سرمد اور محمد بن تغلق کا اس جانب سفر ابھی باقی ہے۔ ہمیں ’باراچ‘ اور اس کے بیٹے اوبھایو کو بھی سون میانی کے قریب ڈھونڈنا ہے اور ساتھ ہی کراچی کی قدیم بستیوں میں سے کلاچیا، لاڑا اور بندری خاندان بھی ڈھونڈنے ہیں کہ جن کا تعلق اوبھایو کے بیٹوں سے ہے جو مورڑو مانگر کی لوک داستان سے جُڑے ہوئے ہیں۔
سورج ڈھل رہا ہے۔ ہمارے سامنے جاکھی بندر کی عمارت اور شہر میں روشنی کے لیے شمعیں جل گئی ہیں۔ ان مہینوں میں اکثر شام کو ہوائیں رُک جاتی ہیں تو ان گھروں سے دھوئیں کی لکیریں اٹھتی دکھائی دیتی ہیں جہاں رات کا کھانا بنایا جارہا ہے۔ بس جلد ہی ملتے ہیں اس بندرگاہ کے شاندار شہر میں۔
حوالہ جات
- ’طبقات ناصری‘ ۔ منہاج الدین جوزجانی ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
- Tarikh-i-Jahan-Gusha .(Translate: The history of world-conqueror.ii)Ala-adin Ata-Malik Juvaini
- ’تاریخ فرشتہ‘ ۔ محمد قاسم فرشتہ ۔ المیزان کتب، لاہور
- ’تاریخ کے مسافر‘ ۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
- ’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکر شیخ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور۔
- ’تاریخ سندھ‘ ۔ اعجازالحق قدوسی ۔ سندھیکا اکیڈمی ۔ کراچی
- ’سندھ عرب دور‘۔ ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔