نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (تیرہویں قسط)

تاریخ کے اوراق، بہمن آباد شہر کی وسعت اور خوبصورتی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے لیکن اس شہر کے زوال کے متعلق کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک محقق دوسرے محقق سے اتفاق نہیں کرتا۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


گزشتہ قسط میں ہم نے کوشش کی کہ یہ جان سکیں کہ آخر کراچی کو عورتوں کا بندر کیوں کہتے تھے۔ اس حوالے سے مزید بات ہوگی مگر اس نشست میں یہ ہونا مشکل ہے کیونکہ ہم اس قسط میں کوشش کریں گے کہ محمد بن قاسم کے حملے سے لےکر مقامی لوگوں کی حکومتیں قائم ہونے تک کا سفر طے کریں۔ البتہ عربوں کے حملے کے وقت کراچی کا ایک اور نیا نام ہمارے سامنے آتا ہے۔

تقریباً 662ء میں ہیون سیانگ واپس گیا۔ بدھ مت کے پیروکار اس سیاح کی واپسی کے بعد ہمیں مذہبی و سیاسی بنیادوں پر سخت اُتھل پُتھل کے حوالے ملتے ہیں۔ چونکہ یہ ہمارے موضوع سے باہر ہے اس لیے ان دنوں کے سیاسی حالات پر بات نہیں کرتے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جو بدیل کے دیبل میں مارے جانے کے بعد، حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو سندھ پر ایک زبردست حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔ ہمیں فقط اس حملے میں یہاں کے سمندری کنارے پر ایک نام ملتا ہے جس کو کچھ محققین نے استعمال کیا ہے۔

کچھ نے اپنی کتابوں میں ’چچ نامہ‘ کا حوالہ دے کر لکھا کہ ’محمد بن قاسم کے دیبل پر حملے کے وقت، ضروری جنگی سامان کشتیوں کے ذریعے پہلے ’دڑبو‘ (کراچی) لایا گیا کیونکہ اس وقت دیبل کے قریب کوئی دوسرا بندر نہیں تھا اس لیے سامان یہاں اُتارا گیا جبکہ اسی قدرتی بندرگاہ پر دیبل کے نزدیک محمد بن قاسم کی پہلی منزل بتائی جاتی ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس وقت کراچی بندر کا نام دڑبو ہی تھا‘۔

میرے سامنے چچ نامہ کا جو نسخہ موجود ہے اس کے حواشی اور تعلیقات ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے تحریر کیے ہیں۔ 500 صفحات پر پھیلے اس نسخے میں مجھے کہیں بھی دڑبو لفظ نظر نہیں آیا۔ اگر ہم یہ نام کراچی کے لیے استعمال بھی کریں تو اس حوالے سے ضرور کرسکتے ہیں کہ اس وسیع سمندری کنارے پر بسی سیکڑوں بستیوں میں سے یہ کسی ایک بستی کا نام ہوسکتا ہے جیسے کروکولا، مورنتوبار، گسری، واگھوڈر مگر ہمیں جس نام کی تلاش ہے یعنی کراچی کی، وہ ہمیں ساسانی سلطنت، رائے گھرانہ، بدھ مت طاقتوں، برہمن گھرانہ (240ء سے 711ء) اور نہ ہی عربوں کے سندھ پر حملے اور ان کی حکومت کے زمانے میں ملتا ہے۔

عربوں کے حملے کے بعد پوری سندھو گھاٹی اور خاص طور پر سندھ کے معروضی حالات میں بڑی تبدیلیاں آنے والی تھیں۔ چونکہ عرب یہاں تین صدیوں تک حکمران رہے اور تین صدیاں ایسے معاملات میں انتہائی اہم ہوتی ہیں وہ بھی اس وقت جب سندھ کے مغرب کی جانب ایران، عراق، مصر اور عرب سے مستحکم معاشی روابط رہے جس پر ہم تفصیل سے باتیں کرتے آئے ہیں کہ یہ خشکی اور سمندر کے راستے صدیوں تک متحرک رہے۔

سندھ پر عرب دور سے متعلق تحقیقی کام کرنے والے ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان ہمیں بتاتے ہیں کہ ’عرب سندھو گھاٹی کے بہت سے علاقوں پر 313 برس تک قابض رہے۔ ہمارے پاس تاریخی شواہد ہیں کہ عربوں کی بلوچستان، کَچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات کے کچھ حصوں میں مضبوط حکمرانی تھی۔ ان کی فوجیں مالوہ، راجستھان اور مشرقی پنجاب میں داخل ہوکر کارروائیاں کرتی رہتی تھیں۔ عربوں کے بحری جہاز مالابار سے سیلون تک یلغار کرکے مقامی حکومتوں کو ہراساں کرتے تھے۔

بنو اُمیہ کے خلفا کے بعد بنو عباس کے خلفا نے المتوکل کی وفات تک سندھ پر حکومت کی اور سندھو گھاٹی میں دو الگ الگ عرب ریاستیں وجود میں آئیں۔ ایک میں ملتان کی بادشاہت تھی جس میں جنوبی پنجاب کا بڑا حصہ شامل تھا اور وہاں بنو اسد قبیلے کے عرب سربراہ کی حکومت قائم تھی جبکہ دوسری سندھ کی ریاست تھی جس کی حدود اروڑ (سکھر) سے جنوب میں سمندر تک تھی جہاں بنو اسد قبیلے کی ایک شاخ بنو ہبار نے منصورہ میں اپنی بادشاہت قائم کی تھی۔ سندھ سے عرب حکومت کا اختتام محمود غزنوی کے زمانے میں ہوا اور مرکزی شہر میں اس کے اختتام کی آندھی چلی۔

ابن حزم (994ء سے 1064ء) اور ابن خلدون (1332ء سے 1406ء) کے مطابق، منصورہ سے عرب حکومت کا خاتمہ غزنی کے سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں ہوا۔ ان دنوں سندھ ریاست کا یہ مرکزی اور نامور شہر تھا اور یہ شمال اور جنوبی سندھ کے مرکز میں واقع تھا۔ میرے خیال میں چلتے چلتے ہم اس شہر کے متعلق تھوڑا بہت جان لیں تو آگے آنے والے وقت میں ہونے والی سیاسی اُتھل پُتھل کی تصویر ہم اپنے ذہن میں اچھے طریقے سے بنا پائیں گے۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ ’ایرانی حاکم ’بہمن ارد شیر‘ کا سندھ پر سیاسی اثرورسوخ تھا اور اس نے اس جگہ پر ایک شہر آباد کیا جسے اس کے نام سے بہمن آباد پکارا گیا‘۔

ڈاکٹر غلام محمد لاکھو تحریر کرتے ہیں کہ ’شہزادے بہمن (جو بعد میں بہمن ارد شیر اور دراز دست نام سے مشہور ہوا اور کیانی سلطنت کا پانچواں بادشاہ بنا) کو سندھ بھیجا گیا کہ وہ یہاں مستقل قبضے کا انتظام کرے۔ اس نے کچھ سرحدیں متعین کیں اور ایرانی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک شہر اور قلعہ تعمیر کرنے کا حکم دیا جسے ’بہمنیہ‘ یا ’بہمن آباد‘ کے نام سے پکارا گیا جبکہ انہوں نے اپنے مذہب کی تشہیر کے لیے ایک آتش کدہ بھی بنوایا تھا۔ ’برہمن آباد‘ کا نام فارسی ہے کیونکہ ’آباد‘ فارسی زبان کا لفظ ہے‘۔

’زین الاخبار‘ کے مصنف ’گردیزی‘ تحریر کرتے ہیں کہ ’ارد شیر نے سندھ میں جس شہر کی بنیاد رکھی وہ اس کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہ نام صدیوں تک قائم رہا مگر پھر جب ساسانیوں کا زور ٹوٹا اور سندھ پر برہمن خاندان کی حکومت آئی تو یہ نام ’بہمن‘ سے تبدیل ہوکر ’برہمن‘ ہوگیا‘۔

برہمن آباد بعد میں بدھ مت کا اہم مرکز بنا جسے دیکھنے کے لیے ہیون سیانگ یہاں آیا۔ ہیون سیانگ ہمارے لیے نیا نام نہیں ہے کیونکہ گزشتہ اقساط میں وہ ہمارے ساتھ تھا۔ وہ سندھ کے بڑے شہر پہنچنے کے لیے کَچھ کے شہر ’کوٹیسر‘ سے چل کر برہمن آباد پہنچا تھا۔ ہیون سیانگ کی تحریر کے مطابق وہ یہاں رشی ’تتھا گاتھا‘ کی راکھ کا دیدار کرنے کے لیے آیا تھا کیونکہ راکھ کی یہ ڈبیا کھولنے سے سے نور کی شعاعیں نکلتی تھیں اور زیارت کرنے والے سجدے میں گرجاتے تھے۔

تاریخ کے اوراق، اس شہر کی وسعت اور خوبصورتی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ میں نے اس شہر کے وسیع رقبے میں پھیلے آثار اور اس کے مشرق میں بہتے دریائے سندھ کے بہاؤ کو دیکھا ہے۔ یہ یقیناً اُن زمانوں میں کسی خوبصورت خواب کی طرح لگتا ہوگا۔ چونکہ یہ مرکزی شہر تھا تو راجا کی رہائش بھی یہیں تھی۔ ابن خلدون اس کو ہندوستان کے مضبوط قلعوں میں سے ایک کا درجہ دیتا ہے۔ البیرونی اور رشیدالدین کی تحریروں میں اس شہر کو ملتان سے بھی بڑا شہر قرار دیا گیا ہے۔ اس قلعے میں 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوجی دستہ تعینات تھا جبکہ اس عظیم الشان قلعے کے چار دروازے تھے جنہیں مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا جیسے ’بھارند‘، ’ساتیہ‘، ’بنورہ‘ اور ’سالہا‘۔

319 قبل مسیح (ق-م) میں چندرگُپت کی حکومت گنگا گھاٹی میں پھیل گئی۔ یہ زمانہ سنسکرت کے عروج کا زمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ’ونسینٹ اسمتھ‘ کی تحقیق کے مطابق یہ پراکرت کی سنواری گئی نئی شکل تھی۔ پراکرت اُس زمانے میں سندھ اور پنجاب میں رائج تھی اور اسی زمانے میں ہندو ثقافت کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی مگر سندھ کے لوگوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا اور وہ بدھ مت پر قائم رہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کے مطابق، ’یہاں چوتھی صدی میں جب ایک برہمن راجا گوبند نے اپنا راج قائم کیا تو اس شہر کا نام ’بہمن‘ سے بدل کر ’برہمن‘ ہوا مگر یہ راج طویل عرصے نہ چل سکا‘۔

کچھ عرصے بعد مقامی راجا ’دیواجی‘ نے موقع کا فائدہ اُٹھا کر سندھ میں رائے گھرانہ کی بنیاد رکھی۔ 455ء میں رائے گھرانہ کو اپنی طاقت کو وسعت دینے میں آسانی پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے راجاؤں کا اثر پوٹھوہار سے کچھ دور کاٹھیاواڑ تک بڑھادیا جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ایک سلطنت کا روپ لے لیا جس میں سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب، سرحد کے کچھ حصے، کَچھ اور کاٹھیاواڑ شامل تھے۔ ریاست بڑی ہونے کی وجہ سے اسے کئی انتظامی یونٹس میں تقسیم کیا گیا جن میں مرکزی حیثیت برہمن آباد، سیوستان، ملتان اور کیکانان کو حاصل رہی۔

رائے سہاسی اول کے بعد اس کا بیٹا رائے سہارس دوم تخت پر بیٹھا اور یہی رائے گھرانہ کا آخری حاکم تھا کیونکہ وہ بےاولاد تھا۔ اس کے بعد اس کا وزیر ’چچ بن سیلائج‘ سندھ کا حاکم بنا۔ چچ کو برہمن حکومت کا بانی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ خود ایک کٹر برہمن تھا۔ چچ کو سندھ میں حکومت کرنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔ ایک تو اسے یہاں کے جنگجو قبائل سے جنگ کرنا پڑ رہی تھی جبکہ دوسری جانب اسے رائے سہاسی کے وفاداروں سے بھی لڑنا پڑ رہا تھا۔

یہاں کے مقامی لوگ جیسے جت، لوہانا، سما، سہتا اور چنہ قبیلوں کے لوگ بدھ مت سے گہری وابستگی رکھتے تھے اسی لیے وہ ہندوؤں کی حکومت ماننے کو تیار نہیں تھے۔ سیاسی حوالے سے بدھ شمنی (پروہت) ایک سیاسی طاقت تھے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ’چچ‘ خود برہمن آباد کے پروہت کے پاس نہ جاتا۔

چچ ذہین حاکم تھا اس لیے بدھ مذہب کو اہمیت دی، ان کے اسٹوپا اور مذہبی مقامات کی تعمیر میں بھی مدد کی اور ان پروہتوں کو اپنی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں سے بھی نوازا۔ چچ نے 40 برس تک حکومت کی مگر مقامی لوگ بدھ مت سے ہی وابستہ رہے۔ اس کے بعد چچ کا بھائی ’چندر‘ تخت پر بیٹھا اور سات برس حکومت کی۔ چندر کی وفات کے بعد راجا ڈاہر تخت پر بیٹھا اور برہمن آباد پر اپنے بھائی ’ڈہرسیں‘ کو گورنر مقرر کیا۔ راجا ڈاہر مقامی لوگوں کی بغاوت کی وجہ سے محمد بن قاسم سے جنگ لڑتے ’راوڑ‘ کے مقام پر 711ء میں مارا گیا۔

716ء میں ’ولید بن عبدالمالک‘ کا انتقال ہوا جس کی وجہ سے دمشق میں خلیفہ تبدیل ہوا۔ ان کی جگہ ان کا بھائی ’سلیمان بن عبدالمالک‘ خلیفہ بنا۔ خلیفہ سلیمان نے محمد بن قاسم کو برطرف کرکے اس کی جگہ پر ’یزید بن ابی کبشہ سکسکی‘ کو سندھ کا گورنر مقرر کیا اور حکم دیا کہ محمد بن قاسم کو گرفتار کرکے عراق بھیج دیاجائے جہاں محمد قاسم کو اذیتیں دےکر جیل میں ہی ماردیا گیا۔

یہاں سندھ میں بغداد سے جو گورنر مقرر ہوکر آتے اُن کا رویہ کبھی بہتر نہیں رہا۔ ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان لکھتے ہیں کہ ’جیسا کہ سندھ خلفا کے انتظامی مراکز دمشق اور بغداد سے بہت دور تھا اس لیے یہ اپنے گورنرز کی ظالمانہ روش کو ضابطے میں نہ رکھ سکے۔ ’بنو اُمیہ‘ کے بعد ’بنو عباس‘ اسلامی دنیا کے سربراہ بنے۔ عہد بنو اُمیہ نے سندھ میں اپنے نو گورنرز مقرر رہے جبکہ بنو عباس کے بھی تقریباً نو گورنرز ہی رہے۔ سندھ میں حالات بہتر نہ ہونے کا سبب عرب قبائل کا سندھ میں آباد ہونا تھا۔ انہوں نے سندھ کی زراعت اور بیوپار سے متاثر ہوکر یہاں اپنی بستیاں آباد کیں۔ چونکہ عرب فاتح اور ریاست کے سربراہ تھے، اس لیے ملک کے معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی میں انہیں مرتبہ حاصل تھا۔ وہ جاگیروں کے مالک بنے مگر ان میں جو عصبیت تھی، اس کی وجہ سے وہ ترقی میں کسی بھی قسم کا حصہ نہیں ڈال سکے‘۔

عربوں کے دو طبقے تھے، ’معزی‘ اور ’یمنی‘۔ معزیوں کو نزاری، عدنانی اور حجازی عربوں کے نام دیے گئے اور وہ یمنیوں کی نسل سے الگ تھے۔ ’یمنیوں‘ کو حمیر، سبا اور قحطان کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسلام سے قبل ان قبائل میں دشمنی چلی آرہی تھی اور وہ ہمیشہ لڑنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ بنو اُمیہ کے زوال کے بعد عباسیوں نے ان فسادات کو ختم کروانے کی بڑی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ عرب لڑتے تو آپس میں تھے مگر مقامی آبادیوں کو ان جھگڑوں کی وجہ سے نقصان اُٹھانا پڑتا تھا۔

عباسی خلیفہ ’المعتصم بااللہ‘ کے دور حکومت میں سندھ کے دو عرب قبائل ’معز‘ اور ’حمیر‘ میں خانہ جنگی شروع ہوئی جس کا اثر سندھ کے شہروں اور دیہاتوں پر پڑا کیونکہ انہوں نے ایک دوسرے کے بہت سے آدمی قتل کردیے تھے۔ سندھ کے اس وقت کے گورنر ’عمران بن موسیٰ برمکی‘ نے ’حمیر‘ (یمنی) قبیلے کے ساتھ ’مضریوں‘ (حجازی) عربوں پر ظالمانہ کارروائیاں کیں اور یوں بہت سارا خون بہا۔ اس جنگ کا فائدہ حاصل کرکے، مضری قبائل نے ’ہبار بن الاسود‘ کے اولاد میں سے ’عمر بن عبدالعزیز ہباری‘ کو اپنا لیڈر بنایا جس نے گورنر عمران کو شکست دی اور منصورہ کے شہر اور خزانے پر قبضہ کرلیا۔

’الیعقوبی‘ نے بتایا کہ یہ واقعہ 240 ہجری (854ء) میں پیش آیا۔ عمر بن عبدالعزیز، عباسی خلفا کی رضامندی سے حکومت کرتا رہا مگر جب عباسی خلافت کمزور ہوئی تو اس کا فائدہ اُٹھا کر ایک آزاد اور خودمختار ملک کا مالک بن گیا جس کو منصورہ کی عرب حکومت بھی کہا جاتا ہے۔

’المسعودی‘، ’الاسطخری‘ اور دیگر سیاحوں کے علاوہ آخر میں آنے والا ’بشاری مُقدسی‘ جو تقریباً 988ء میں منصورہ میں آیا تھا، اُس کے مطابق، منصورہ سندھ کا مرکزی شہر ہے۔ حکومت کا کاروبار یہاں سے چلایا جاتا ہے۔ یہاں کی عمارتیں اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں مگر شہر کی جامع مسجد پتھر، چونے اور اینٹوں سے بنائی گئی ہے۔ اس مسجد کا نمونہ عمان (مسقط) طرز کا ہے۔ اس شہر کے قلعے کے چار مرکزی دروازے ہیں جن کے نام ’باب البحر‘، ’باب سندان‘، ’باب مُلتان‘ اور ’باب تُوران‘ ہیں۔ جامع مسجد شہر کے مرکز میں ہے جہاں سارے راستے یہاں آکر ملتے ہیں۔ یہاں کی رسمیں عراق جیسی ہیں کیونکہ کفار کا ملک میں زور ہے’۔

ابواسحاق الاصطخری کہتے ہیں کہ’ منصورہ کا سندھی نام ’برہمن آباد‘ ہے’۔

اس شہر کے زوال کے متعلق کمال کی بات یہ ہے کہ کوئی ایک محقق دوسرے محقق سے اتفاق نہیں کرتا۔ کوئی کہتا ہے دریا نے اپنا رخ تبدیل کیا تو برہمن آباد ویران ہوا۔ کوئی کہتا ہے یہ تمام بربادی زلزلے کی وجہ سے ہوئی پھر کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ سومرا سرداروں نے یہ سب کیا۔ ہم ابتدا میں بتا چکے ہیں کہ ابن حزم اور ابن خلدون کے مطابق اس کا خاتمہ غزنی کے سلطان ’محمود غزنوی‘ نے سومناتھ کو فتح کرنے کے دوران کیا تھا جو کچھ رن پار کرکے 1025ء میں منصورہ آیا تو باشندوں پر مرتد ہونے کا الزام لگا کر ہنستے بستے شہر کو خون سے نہلانے کے بعد نذر آتش کردیا۔

اسی برس محمود غزنوی نے ملتان اور اُچ کے حکمرانوں کو شکست دی۔ 1026ء میں بکھر اور سیوہن کے لیے لشکر کشی کی۔

آج کی اس نشست میں ہم نے لگ بھگ 365 برس کا سفر کیا ہے یعنی 646ء سے 1011ء تک۔ یہ وسیع سندھ کی تاریخ کے انتہائی اہم سال تھے۔ گیارہویں صدی تاریخ کے صفحات میں اپنی ایک الگ پہچان بنتی ہوئی نظر آتی ہے کیونکہ اس صدی کی ابتدا میں یہاں کے مقامی لوگ اپنی مقامی حکومت قائم کرنے کے لیے جُٹ ہوکر بیٹھے۔ یہی وہ صدی ہے جس میں ہمیں پہلی بار کلاچی یا کراچی کا نام تحریروں میں پڑھنے اور کانوں کو سننے کے لیے ملتا ہے۔

آج کل گرمیوں کا موسم ہے اس لیے دن دھوپ سے جلنے لگے ہیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ اگلے سفر کا پڑاؤ کسی جزیرے پر کریں جہاں ٹھنڈی ہوا اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا سمندری نیلا پانی بھی ہو۔ تو جلد ملتے ہیں گیارہویں صدی کے شاندار اور یادگار زمانے میں۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔