نقطہ نظر

کیا جوابی کارروائی واقعی ایران کی فتح ہے؟

'ایران کا جوابی حملہ فلسطینیوں اور مسلم امہ کو ایک متاثر کُن پیغام دیتا ہے کہ کم از کم ایک مسلم ملک تو ایسا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں کترائے گا'۔

شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے ردِعمل میں تہران کی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی نے اسرائیل کو زیادہ نقصان تو نہیں پہنچایا لیکن اسے اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنے کے لیے ضرور مجبور کیا ہے۔ اس جوابی حملے کا مقصد اسرائیل کو یہ باور کروانا تھا کہ اس طرح کے اقدام کے نتیجے میں اسے جوابی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تاہم ایران کے اس حملے کے علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

ایران کا میزائل حملہ جوکہ 1973ء کی یوم کیپور جنگ کے بعد ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا، اس پر بڑے پیمانے پر عالمی ردِعمل سامنے آیا۔ بعض ناقدین نے اس حملے کو ’غیرضروری‘ قرار دیا جس سے پہلے سے کشیدگی کا شکار خطہ مزید غیرمستحکم ہوگا۔ دیگر نے سوال اٹھایا کہ اسرائیل میں تباہی مچانے کے حوالے سے یہ حملہ کتنا کارگر ثابت ہوا۔

دوسری جانب ایسی بھی آوازیں اٹھیں جنہوں نے ایران کی اسٹرائیک کو اس کی فتح قرار دیا۔

شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے میں کیا گیا حملہ جس میں 3 سینئر ایرانی کمانڈرز سمیت 7 عسکری مشیر ہلاک ہوئے، اس اقدام سے اسرائیل کے ساتھ ایران کے تنازع میں شدت آئی۔

جنوری 2020ء میں امریکا کی جانب سے فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں ایران نے عراق میں واقع امریکی کیمپ پر اسٹرائیک کی تھی۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی کو تب سے ایران کی جوابی کارروائی کرنے کی صلاحیت کا علم تھا اور وہ اپنے دفاع کی تیاری کررہے تھے۔

ایران نے بھی اپنے ارادے چھپانے کی زیادہ کوشش نہیں کی۔ ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہ نے بتایا کہ امریکا سمیت ایران کے ہمسایہ ممالک کو 72 گھنٹے پہلے حملے سے متعلق پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔

سینیٹ کے خارجہ اور دفاعی امور کی کمیٹیوں کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین نے ڈان کو بتایا کہ ’ایران نے اپنے دفاع اور بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق جو کیا درست کیا‘۔

دفتر خارجہ پاکستان کے ردعمل میں بھی دمشق کے قونصل خانے پر حملے کا حوالہ دیا گیا جہاں اسے اسرائیل کے خلاف ایرانی کارروائی کا بنیادی محرک بتایا گیا۔

جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’2 اپریل 2024ء کو پاکستان نے شام میں ایرانی قونصل خانہ پر حملے کو پہلے ہی غیرمستحکم خطے میں ایک بڑی کشیدگی کا پیش خیمہ قرار دیا تھا‘۔

اس موقع پر نمایاں عالمی قوتوں نے ایرانی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرنے اور اسرائیل کی سرزش کرنے سے گریز کیا۔ روس کی طرف سے تیار کردہ مذمتی بیان کی امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے مخالفت کے بعد بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیلی اقدام کی مذمت نہیں کی۔

دفترِ خارجہ پاکستان نے اجاگر کیا کہ ’آج کی پیش رفت سفارت کاری میں تعطل کے نتائج کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ان پہلوؤں میں سنگین مضمرات کو ظاہر کرتی ہے جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل عالمی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے‘۔

دفترخارجہ نے یہ بھی کہا کہ اگر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی اقدام کی مذمت کردیتی تو ایران کی جانب سے کیے گئے جوابی حملے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

بعض لوگوں کے نزدیک یہ بیانیہ پُرزور نہیں تھا کیونکہ اس میں کھل کر اسرائیل کا نام کہیں نہیں لیا گیا۔

تاہم دفترِخارجہ پاکستان نے اس امر پر زور دینے سے گریز کیا کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت خطے کے استحکام کو بگاڑ رہی ہے جبکہ چین کی جانب سے جاری کردہ بیانے میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پاکستان نے کہا کہ ایران-اسرائیل تنازع کی حالیہ کشیدگی ’غزہ تنازع کا نتیجہ‘ ہے اور ساتھ ہی اقوامِ متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا۔

سرکاری بیان میں کہا گیا کہ ’ اب صورتحال کو مستحکم کرنے اور امن کی بحالی کی اشد ضرورت ہے، ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انتہائی تحمل سے کام لیں اور کشیدگی کو کم کرنے کی طرف بڑھیں’۔

ایرانی اسٹرائیک کس حد تک مؤثر ثابت ہوئیں؟

اقوامِ متحدہ، امریکا اور برطانیہ میں پاکستان کی سابق مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ڈان کو بتایا کہ ’ایران کی جوابی کارروائی بہت سوچ سمجھ کر کی گئی تھی جس کا مقصد تباہی نہیں بلکہ تل ابیب کو ایک مضبوط پیغام دینا تھا کہ وہ بھی اس طرح کے اقدمات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘۔

منظم ترین فضائی حملوں نے اسرائیل کے جدید دفاعی نظام کو چیلنج کیا جسے امریکا نے ’بےمثال‘ قرار دیا۔ ایران نے نئے اور پرانے دونوں طرح کے کُل 300 سے زائد ڈرونز اور میزائل فائر کیے جن میں سے زیادہ تر اسرائیلی دفاعی نظام کو گمراہ کرنے کے لیے فائر کیے گئے تھے۔

اسی اثنا میں ایران نے ہائپرسونک میزائل داغے جن کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے نیواتیم ایئربیس اور ماؤنٹ ہرمون میں ایک انٹیلی جنس ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا، البتہ ان میں سے بہت سے میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کردیا گیا۔ تہران کے مطابق ان دو مقامات سے دمشق پر ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا۔ تاہم ان تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے کوئی تصدیق یا بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

عسکری نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس آپریشن نے نہ صرف اسرائیل کے آئرن ڈوم میزائل سسٹم کی حدود کو آشکار کیا بلکہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے غیر ملکی اثاثوں پر اس کے انحصار کو بھی ظاہر کیا جن میں امریکا، اردن اور برطانوی فوجی تعاون اور یورپی ریڈار کوریج شامل ہیں۔

اہم اسرائیلی مقامات پر حملہ کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ، ایران کو نہ صرف یقینی طور پر اندرونی اور علاقائی حمایت حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا بلکہ یہ اسے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلم مفادات کے قابل محافظ کے طور پر بھی پیش کرے گا۔

سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں، ’یہ فلسطینیوں اور مسلم امہ کو ایک متاثر کُن پیغام بھی دیتا ہے کہ کم از کم ایک مسلم ملک تو ایسا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے میں ایک لمحہ بھی نہیں کترائے گا‘۔

اس حملے کے اثرات بھی سیاسی ہیں۔ ہمسایہ عرب ممالک کی جانب سے اسرائیلی سلامتی کو ترجیح دینا بالخصوص اردن جیسے ممالک جنہوں نے فوری طور پر دفاعی اقدامت کیے، انہیں ممکنہ طور پر اندرونی ردِعمل کا بھی سامنا ہوگا کیونکہ عوام نے قضیہ فلسطین سے غداری کے طور پر دیکھا۔

کشیدگی میں ممکنہ اضافہ

ایران-اسرائیل معاملے میں تنازعات اور تحمل دونوں کے امکانات موجود ہیں۔ بین الاقوامی سفارتی مداخلت کے اثرات کے ساتھ ساتھ آنے والے دنوں میں اسرائیل کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات، پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے کے اگلے مرحلے کی تشکیل میں اہم ثابت ہوں گے۔

ملیحہ لودھی نے کہا، ’ایران کے حالیہ اقدام نے علاقائی جنگ کے خدشات کو ہوا دی ہے۔ لیکن اسرائیل کے علاوہ کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ اس کشیدگی کو مزید بڑھاوا دے۔ امریکا اور نہ ہی ایران چاہے گا کہ خطہ مزید بڑے تنازع کا شکار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہہ رہا ہے اور اس نے خبردار بھی کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا‘۔

وہ امید ظاہر کرتی ہیں کہ صورت حال میں مزید بگاڑ پیدا ہونے سے روکنے کے لیے مؤثر سفارتی کوششوں پر توجہ دی جائے گی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

باقر سجاد سید
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔