نقطہ نظر

کراچی: صدیوں کی کتھا! (دسویں قسط)

آج کے سفر میں سکندراعظم کے ان حملوں پر بات کریں گے جو اس نے دریائے سندھ کے قرب و جوار بالخصوص مغرب کی طرف بسنے والی مقامی حکومتوں پر کیا تاکہ سکندراعظم کے کراچی تک پہنچنے کو سمجھا جاسکے۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


جب ہم نے 4 ستمبر 2023ء پیر کے دن، اس سلسلے کی شروعات کی تھی تب موسمِ گرما کے آخری ایام تھے اور جاڑوں کی آمد نے راتوں کو طویل اور دنوں کو چھوٹا کرنا شروع کردیا تھا۔ اب جب ہم مشکل ترین سفر طے کرتے ہوئے مارچ میں پہنچے ہیں تب جاڑے کا موسم اس طرح جانے کی تیاری میں لگا ہوا ہے جس طرح کوئی مہمان آتا ہے، کچھ دن رہتا ہے اور پھر جانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ تیار کرنے لگتا ہے۔

اس عرصے میں ہم نے سال 2023ء کو بھی الوداع کہا۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ جب اس سفر کا اختتام ہوگا اور ہم اور آپ ایک دوسرے سے جُدا ہوں گے۔ مگر ابھی اس جُدائی میں کچھ وقت ہے۔ یہ ساری تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کیونکہ آج کا ہمارا سفر بہت سے حوالوں کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے۔

ایک تو یہ کہ آج کے سفر میں ہم پہلے مختصراً سکندراعظم کے اُس حملے پر بات کریں گے جو اس نے دریائے سندھ کے قرب و جوار بالخصوص مغرب کی طرف بسنے والی مقامی حکومتوں پر کیا اور حملہ کرتے وہ جنوبی سندھ کے سمندری کنارے تک پہنچا۔ یہ ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس وقت کے حالات اگر ہمارے سامنے نہیں ہوں گے تو سکندراعظم کا کراچی تک پہنچنا اور پھر کراچی سے مغرب کی جانب اس کے سفر کو سمجھنے میں مشکل پیش آئے گی۔

اس سفر کی ایک اور بھی خصوصیت ہے کہ ہم قبل مسیح زمانے کے کگار پر کھڑے ہیں۔ سکندر ملیر ندی سے گزر کر کچھ عرصہ یہاں گزارے گا اور پھر حب ندی پار کرکے لسبیلہ اور سونمیانی سے ہوتا ہوا پرشیا کی طرف نکل جائے گا تو ہم قبل مسیح زمانے کو الوداع کہیں گے اور پھر ہمارے سامنے عیسوی عہد پھیلا ہوگا جس میں ہمیں کراچی کے متعلق معلومات ڈھونڈنی ہوں گی۔ کام تھوڑا مشکل ہے مگر ہم مل کر کچھ نہ کچھ ڈھونڈ ہی لیں گے۔

مجھے نہیں معلوم کہ سکندر اعظم پر کام کرنے والی، قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کی ڈاکٹر سلیمہ خان اور کارڈف یونیورسٹی کے پروفیسر لائیڈ لیولین جونز (Lloyd Llewellyn Jones) کی یہ باتیں کس حد تک درست ہیں کہ سکندراعظم تاریخ کے ایک روشن اور چمکتے زمانے کا نام ہے۔ وہ ایک شاعر، فلسفی، سائنسدان، ایک عظیم اور وسیع سلطنت قائم کرنے والا شاندار انسان تھا۔ مگر دوسری طرف وحشت بھی اس کے خون میں بہتی تھی کیونکہ اس کی ماں اولمپیا نے اس کے دماغ میں یہ خناس بھر دیا تھا کہ وہ زیوس کا بیٹا ہے۔ بہرحال جو بھی تھا، اس کی خاندانی پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے جنون نے بہت کچھ کر دکھایا۔

تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ جب پرشیا کے بادشاہ اردشیر کو زہر دے کر اس کی سانسوں کی ڈور کو وقت سے پہلے کاٹ دیا گیا تھا، تب کدومانس نے اپنے آپ کو دارا سوئم کا لقب دیا اور اپنے بڑے سیاہ گھنگریالے بالوں اور سرمے سے سجی آنکھوں سے 336 قبلِ مسیح (ق-م) میں تخت پر بیٹھا اور جولائی 330 ق-م میں سکندر اعظم سے جنگ میں ہار کی ذلت سے بھاگتا ہوا شمال مشرق میں اپنی حکومت کی آخری حدود تک آیا اور وہیں اپنے خاص آدمی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ سکندراعظم جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچا تو پرشیا کے بادشاہ کی لاش بگھی (Horse chariot) میں پڑی تھی۔ اس وقت سکندر کا کہا یہ جملہ کہ ’ایک بادشاہ کو اس طرح نہیں مرنا چاہیے، بالکل نہیں‘۔ یہ الفاظ ابھی تک تاریخ کی گلیوں میں سانس لیتے ہیں۔ سکندراعظم نے دارا سوئم کی لاش کو ایک بادشاہ کی لاش کی طرح تکریم دی اور بابل لے آیا جہاں رسم و رواج کے مطابق اس کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔

لیکن دارا کے اس طرح قتل ہونے سے قبل ہمیں یہ ضرور جان لینا چاہیے کہ دارا اول (522 سے 486 ق-م) میں ہونے والی جنگ تاریخ کے صفحات میں Battle of Plataea کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ جنگ 479 ق-م میں ہوئی تھی جس میں بڑی تعداد میں سندھو گھاٹی کے سپاہی شامل ہوئے تھے۔ اس جنگ کے اسکیچ کو اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو انڈین (سندھی) فوجی دستوں کا یونٹ نظر آجائے گا۔ یہ پرشین سلطنت کے کمال کا زمانہ تھا اور جس جنگ میں دارا سوئم قتل ہوا وہ پرشین سلطنت کے زوال کی آخری ہچکی تھی۔

یہ جنگ گگمیلا (Gaugamela) کی جنگ تھی جوکہ اربیل کے مقام پر ہوئی، اسی لیے اسے Battle of Arbela بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ یکم اکتوبر 331 ق-م کو ہوئی۔ ان دنوں سندھو گھاٹی ایران کی سلطنت کے زیربار نہیں تھی لیکن اس جنگ میں ہاتھیوں اور سپاہیوں کی شرکت ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت ایران سے ہمارے اچھے اور دوستانہ تعلقات تھے۔ ’ایرین‘ ہمیں گگمیلا جنگ کے متعلق بتاتے ہیں کہ ’مصر سے بابل کی طرف لوٹتے ہوئے سکندر نے دجلہ کو پار کیا اور اپنی فوج کو کچھ دن آرام کرنے کو کہا۔ تین چار دنوں کے بعد مخبروں نے سکندر کو خبر دی کہ ایران کی مدد کے لیے دارا کے لشکر میں، سوگدیا (ازبیکستان)، باختریہ (افغانستان)،انڈین (سندھو گھاٹی)، ساکا (ستھین)، آرچوسیا (پارتھین) اور سندھ کے پہاڑی سلسلے آرابتائی کے فوجی دستے بھی شامل ہیں جبکہ کچھ ہاتھی اور جنگی جتھے سندھو دریا کے اُس طرف (دریا کے مشرق) کے بھی دارا کی مدد کے لیے آئے ہیں۔ ہاتھیوں کی تعداد پندرہ کے قریب ہے‘۔

اس کے بعد جب گگمیلا میں جنگ ہوئی تو جنگ کے متعلق ایرین ہمیں بتاتا ہے کہ ’ایرانی فوج میں سندھی، البانی، کاریا اور میرڈانی کو تیر اندازی کے حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ جنگ میں ایران اور سندھ سے آئے گھڑسوار دستوں نے میسڈونی لشکر کا بہت زیادہ نقصان کیا، سکندر کو ان سے اتنے نقصان کی اُمید نہیں تھی‘۔ بہرحال جو بھی تھا اتنی بڑی فوج کے بعد بھی دارا نے یہ جنگ نہیں جیتی اور جنگ کے میدان سے بھاگ نکلا۔ یوں ایران کی وسیع سلطنت کا مالک سکندراعظم بنا۔

سکندر شمال، مغرب اور جنوب میں نیل تک نیزوں اور تلواروں سے لوگوں کے گلے کاٹتا مشرق کی طرف بڑھا اور 326 ق-م میں 500 میل تک پھیلے ہوئے ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کو عبور کیا۔ جب کوئی حملہ آور پہاڑوں کی ہزاروں میٹر اونچائی اور سختیوں کو جھیل کر چٹیل میدانوں میں پہنچتا ہے تو اسے یہ لینڈاسکیپ ایک سہل پولو کھیل کے میدان جیسا لگتا ہے۔ سکندر کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ مشکلات سے عشق کرتا تھا اس لیے دریائے سندھ جیسے طاقتور بہاؤ رکھنے والے دریا کو پار کرنا اسے مشکل نہیں لگا۔

وہ ٹیکسلا پہنچا، ٹیکسلا کے بادشاہ امبھی نے کوئی جنگ نہیں کی البتہ جہلم پار کرنے کے بعد راجا پورس، سکندر سے لڑنے کے لیے میدان میں اُترا۔ تاریخ کے صفحات میں اس کو ہاتھیوں والی جنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جنگ میں سکندر کی جیت ہوئی مگر پھر طعام اور کلام کے سلسلے کے بعد ان کے درمیان نام نہاد دوستی کا رشتہ قائم ہوا اور سکندر نے پورس کو حکومت واپس کردی۔ اصل میں سکندر کی آخری منزل ’مُگدھ‘ کی بادشاہی اور اس سے آگے مشرقی سمندر تھا۔ مگر اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے سکندر کو مجبوراً واپسی کا راستہ لینا پڑا۔

واپسی کے اس راستے میں اسے تقریباً ہر جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا مگر سب سے زیادہ سخت مزاحمت کا ملتان اور اُس کے بعد بہاؤ کے مغربی کنارے میں سامنا ہوا۔ وہ ملتان کا قلعہ ہی تھا جہاں قلعہ حاصل کرنے کی جنگ کے دوران سکندر پر تیر سے حملہ ہوا اور اس تیر نے نہ صرف سکندر کے پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ وہ مرتے مرتے بچا۔

ان دنوں جب سکندر نے سندھو گھاٹی کو فتح کیا تب ہمیں یہاں ہخامنشی سلطنت کا کوئی وجود نظر نہیں آتا جس کا ذکر ہم نے گزشتہ قسط میں کیا ہے۔ بلکہ اس کی جگہ ہمیں سندھ میں چھوٹی چھوٹی آزاد حکومتیں نظر آتی ہیں اور بودھی اور برہمنوں کے ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ اس زمانے کی جن مقامی حکومتوں کے نام ہم ابھی تک جان سکے ہیں ان میں آگزیکینس (ماہوٹا)، مُوسیکینس (الور-اروڑ)، سامبس (سیوہن)، موئیرس 1 (پٹالا)، موئیرس 2 (باربیریکان)، آرابتائی (کوہستان، کراچی) اور اوریئیتائی (لسبیلہ) شامل ہیں۔

اُن دنوں کے معروضی حالات کے متعلق ہمیں نیارکس (Nearchus) کی تحریر سے مدد حاصل کرنا پڑے گی کیونکہ نیارکس سکندری جنگی بیڑے کا مہندار تھا اور وہ اس پورے سفر میں سکندر کے ساتھ بھی رہا تھا۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جنوبی سندھ اور مصر کے طبعی حالات تقریباً ایک جیسے ہی ہیں۔ نیارکس کے مطابق، ’جنوبی سندھ کی زمین سندھو دریا کے پانی کے ساتھ آئی ہوئی زرخیز مٹی سے بنی ہے جس کی نشانیاں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں‘۔

اگر یہاں سندھو دریا بہہ کر نہیں آتا تو یہ خطہ رہنے کے قابل کبھی نہ ہوتا کیونکہ یہاں جنوب کی طرف بارشیں بالکل کم پڑتی ہیں۔ مگر جب شمال میں پڑی بارشوں کی وجہ سے یہاں دریا میں بے تحاشا پانی آتا ہے اور سیلاب جیسی کیفیت ہوتی ہے تو سانپ اور دوسرے جانور خشکی پر رہنے والے انسانوں کی بستیوں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے بچنے کے لیے یہاں کے لوگ چار لکڑیوں پر ڈالی ہوئی لکڑیوں کی چھت اور اس پر گھاس بچھا کر سوتے ہیں جو زمین سے تین چار فٹ اونچی ہوتی ہے (اسے مقامی زبان میں ’پیھو‘ کہا جاتا ہے، یہ اب بھی بنایا جاتا ہے۔ اکثر گاؤں کے گھروں کے آنگن میں گرمیوں کے موسم میں سونے کے لیے اور گھروں سے باہر جو فصلوں کی راکھی کے لیے بنایا جاتا ہے اس کی لکڑیاں اونچائی میں البتہ گھر والے پیھو سے بڑی رکھی جاتی ہیں تاکہ دُور دُور تک فصل پر نظر رکھی جا سکے اور پرندے یا جانوروں سے فصل کو بچایا جاسکے)۔

اس وقت جنوبی سندھ میں آکر دریا دو بڑے بہاؤ اختیار کرتا تھا۔ اس جگہ پر پاتال یا پٹیالا کا شہر اور بندرگاہ تھی (ابھی تک پٹیالا کی اصل مقام کی تحقیق نہیں ہوسکی ہے لیکن کچھ محققین کا خیال ہے کہ وہ مقام حیدرآباد تھا جبکہ کچھ محققین کا خیال ہے کہ پٹیالا حیدرآباد سے کم سے کم 25 سے 40 میل جنوب مشرق میں تھا)۔ سکندر نے بھی وہاں قبضہ کیا اور بندرگاہ کو وسعت دی۔ سکندر وہاں کافی وقت رہا اور دونوں بہاؤں کے آخر تک سفر کیا تاکہ وہ اندازہ لگا سکے کہ اس کے فوج کا جنگی بیڑہ محفوظ انداز میں کس بہاؤ سے سمندر میں داخل ہوسکتا ہے۔ پھر اس نے نیارکس کو مغربی بہاؤ سے سمندر میں داخل ہونے کی ہدایات دیں اور اپنی فوج کا ایک حصہ اپنے ساتھ لے کر ایران کی طرف چل پڑا۔ سکندر جب تک کراچی (آرابتائی) کے علاقے میں پہنچتا ہے تب تک ہم نیارکس کے جنگی بیڑے کے راستے کے متعلق کچھ معلومات لئمبرک اور کچھ نیارکس اور ایرین سے حاصل کر لیتے ہیں۔

نیارکس پٹیالا سے جنگی بیڑہ لے کر نکلا۔ 18 میل جنوب کی طرف دریا میں سفر کرکے سمندر میں پہنچا اور پھر کھلے سمندر میں پہنچ کر مغرب کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ وہ انڈس ڈیلٹا کے سمندری کنارے سے ہوتا ہوا، شمال میں مکلی پہاڑیوں کے سلسلہ کو دیکھتا [یہ پہاڑی سلسلہ کراچی اور راس مانزی (Cape Monze) تک چلا جاتا ہے] اور گُجو کی پہاڑی جس کو وہ سکندری بندر کہتا ہے، وہاں موسم خراب ہونے کے باعث کچھ دن رُک کر پھر وہ آگے مغرب کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔ ’سارنگ‘ اور ’ساکل‘ یعنی وٹیجی اور ابراہیم حیدری سے ہوتا ہوا، گزری کھاری( یہ ملیر نئیں کا پانی سمندر میں جانے کی Estuary بھی رہی ہے) سے گزر کر یہ بیڑہ ’مورنتوبار‘ پر لنگرانداز ہوتا ہے۔

کراچی کے کنارے پر مورنتو بار ضرور کوئی جگہ ہوگی یا بندر ہوگا۔ یہاں جو راستہ بتایا گیا ہے یعنی گُجو پہاڑی (سکندری بندر) سے کراچی بندر تک اندازاً 50 میل ہوتا ہے جبکہ نیارکس کے اندازے کے مطابق سکندری بندر سے مورنتوبار تک کا فاصلہ 660 اسٹاڈیا یعنی 73 میل تھا جو اس نے تین مراحل میں طے کیا۔ ’مورنتوبار‘ کی کراچی بندر سے مشابہت ایک صدی پہلے ماہرِ جغرافیہ ہینری کئپرٹ (Henry Kierpert) نے ثابت کی تھی جو قدیم ہندوستان کے نقشے بنانے کا ماہر تھا۔

سکندر اعظم کے سندھ کے سفر پر ہمیں زیادہ اعتماد والی معلومات ایرین (Arrian) (جنم: 90ء-وفات: 140ء) اپنی کتاب میں دیتا ہے۔ اس نے پہلے ان تمام کتابوں کا مطالعہ کیا جو اس کی تحریر سے پہلے لکھی جاچکی تھیں اور پھر مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر اس نے اپنی کتاب تحریر کی۔ ایرین کے مطابق نیارکس، مورنتوبار پر لنگرانداز ہونے سے پہلے اس جنگی بیڑے کو دو سمندری پہاڑیوں کے بیچ میں سے گزرنا پڑا تھا جو جہازوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ ان دنوں سمندر بھی پُرسکون نہیں تھا، بڑی بڑی لہریں تھیں جن کی وجہ سے کسی وقت بھی کشتیوں کا پہاڑوں سے ٹکراؤ ہوسکتا تھا۔

ان پہاڑیوں کو اب Oyster Rocks کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ ایک پہاڑی سلسلہ تھا جو کلفٹن اور منوڑہ کو آپس میں جوڑنے کی ایک دیوار مانند تھا مگر پھر پانی کی لہروں نے اسے توڑ دیا۔ کراچی بندر کی پہلی بار 1836ء میں سائنسی بنیادوں پر لیفٹیننٹ کارلیس نے تحقیق کی تھی۔ اس کے بعد ابھی تک سمندری منظرنامے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان پہاڑیوں کے بیچ والی گزرگاہ کچھ زیادہ بڑی ضرور ہوچکی ہوگی۔

جب ان پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے وہ آگے آئے تو انہیں بندر (ساحلی علاقہ جہاں جہاز، مسافر اترتے یا چڑھتے ہو) نظر آیا لیکن وہ کیسا تھا؟ آئیے نیارکس سے سنتے ہیں، ’بندر بڑا تھا، گولائی میں تھا، گہرا تھا اور بڑی تیز لہروں سے محفوظ تھا مگر اس میں داخل ہونے کے لیے جو راستہ تھا وہ تنگ تھا‘۔ وہ کچھ دن وہاں ضرور رُکے ہوں گے۔ البتہ جب وہاں سے جانے لگے تو ایرین کے مطابق ’انہیں بائیں طرف سمندر میں ایک جزیرہ نظر آیا جو بالکل کنارے کے نزدیک تھا۔ وہاں سے گزرنے کے لیے جو پانی میں راستہ تھا وہ اندازاً سات سے آٹھ اسٹاڈیہ (1.479 کلومیٹر) تھا۔ اس جزیرے کے کنارے گھنے پتوں والے درخت تھے اور پورا جزیرہ ہریالی سے بھرا ہوا تھا‘۔ ایرین کا یہ ذکر جو اس نے نیارکس کی تحریر سے اخذ کیا ہے وہ منوڑہ جزیرے کا ہے۔

لئمبرک کے مطابق جن درختوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ تمر کے درخت اور اُن کی نرسریز کا ہے۔ مورنتوبار کی جگہ کراچی بندر کی تھی۔ نیارکس مورنتوبار (کراچی) سے 190 اسٹاڈیہ مغرب کی طرف اربیس (Arabis) ندی کے موہانے پر لنگر انداز ہوا۔ یہاں ندی سے میٹھا پانی سمندر میں جارہا تھا اس لیے وہ پانی پینے جیسا نہیں تھا۔ اس لیے انہیں میٹھے پانی کی جستجو کرنا پڑی جو انہیں 40 اسٹاڈیہ شمال مشرق میں ایک تالاب سے ملا۔

نیارکس کے مطابق ’بندر کے نزدیک ایک جزیرہ ہے جس کے اطراف میں بے تحاشا سیپیاں اور مچھلیاں ہیں جہاں لوگ شکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ آربتائی لوگ ہیں جن کی مغرب میں یہ آخری حدود ہیں‘۔ نیارکس مورنتوبار سے اربیس ندی کے مہانے کے فاصلے کا تخمینہ 14 میل بتایا ہے اور یہاں سے آگے ’اورئتی‘ (Oreiti) لوگوں کے علاقہ (لسبیلو) کا ذکر کرتا ہے جو اُس کی تحریر کے موجب، سرکش تھے۔

’اربیس‘ ندی کے متعلق لئمبرک اور ایم-ایچ-پنوھر یہ کہتے ہیں کہ ’یہ ندی بغیر کسی شک کے حب ندی ہے‘ (الیگزینڈر کنگھام کے ساتھ ہم اتفاق کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ حب ندی نہیں بلکہ پورالی ندی ہے جو لسبیلو کے علاقے سے بہہ کر سون میانی کے قریب سمندر میں داخل ہوتی ہے۔ سون میانی پر ’بالا کوٹ‘ بندر کا ذکر ہم ساتویں قسط میں کرچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے جس بندر کا ذکر کیا گیا ہے وہ اس قدیم بالاکوٹ بندر کا ہو یا اس کے آثاروں پر دوسرا بندر آباد کیا گیا ہو) جو راس مانزی کے اس طرف سمندر میں گر کر موجودہ سندھ کی سرحد بناتی ہے۔ بہرحال یہاں سمندری کنارے سے نیارکس کے جانے کے بعد یہاں موجود خشکی کے راستوں سے سکندر کو گزرنا ہے جو پٹالہ سے اپنی آدھی فوج کے ساتھ اس سفر کے لیے نکل پڑا ہے۔

325 قبل مسیح میں سکندر نے اپنے جنگی بیڑے کو پٹیالہ کے مقام پر نیارکس کے حوالے کیا اور اُسے ہدایات دے کر اپنی آدھی فوج کے ساتھ مغرب کی طرف سفر شروع کیا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ ہم لئمبرک اور کنگھام کے اس بہاؤ کے جھگڑے کو ایک طرف رکھ کر یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہاؤ حب کا تھا یا پورالی کا مگر اس بہاؤ کے مشرق میں کراچی کے طرف جو آبادیاں تھیں انہیں یونانی تحریروں میں ’آرابی‘ یا ’آرابتائی‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ ان آبادیوں کے لوگ، سکندر کے آنے کا سُن کر جنگلات اور پہاڑیوں میں پناہ لینے کے لیے چھپ گئے۔ خود سکندر بھی انہیں زیربار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سکندر اور اس کی فوج کچھ عرصے حب یا پورالی کے مشرق میں رہا۔ اور وہاں رہ کر لسبیلو اور اس کے اطراف میں رہنے والے ’اوریئتائی‘ قبیلوں پر حملہ کرنے کے لیے فوج کو منظم کیا کیونکہ یہ قبائل سرکش تھے۔

اگر سکندر کے واپس جانے کے قدیم نقشوں کو دیکھا جائے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ پٹیالہ کے بعد سمندری کنارے کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف بڑھا اور ہم یہ بھی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ’آرابتائی‘ (کوہستان) سے جب وہ گزرا تو اس نے ملیر ندی کو بھی ضرور پار کیا ہوگا جس کے متعلق ایرین لکھتے ہیں کہ ’اس ندی میں کچھ انچوں سے زیادہ پانی نہیں تھا البتہ اس کا پاٹ وسیع تھا‘۔

یہ کتنا اچھا ہوتا کہ ’آرابتائی‘ کے اس ساحلی علاقے سے گزرتے ہوئے سکندر اپنی کوئی یادگار چھوڑتا تو یوں ہمیں تحقیق کرنے میں آسانی ہوجاتی۔ بہرحال سکندر ’اوریئتائی‘ کی طرف جاچکا ہے اور سکندر کے جانے کے بعد سندھ بالخصوص اس کے ساحلی علاقوں کے متعلق تاریخ پر خاموشی کی دُھند کی گہری چادر تنی ہوئی ہے۔ البتہ عیسوی سن کی ابتدا کے ساتھ ہمیں مورنتوبار کا نام اپنی صورت تبدیل کرتا ہوا نظر آتا ہے اور مورنتوبار پگھلتا ’کلاچی‘ کے نام کی شکل لینا شروع کرتا ہے۔

ہم جلد ہی ملتے ہیں کلاچی میں جہاں سمندر کا پانی ہے کیونکہ جب میٹھے اور کھارے پانی ملتے ہیں تو وہاں گہرے پانیوں میں بھنور پڑتے ہیں اور کناروں پر داستانیں تخلیق ہوتی ہیں۔

حوالہ جات

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔