نقطہ نظر

پاک-ایران تعلقات: سرحدی کشیدگی اور عسکریت پسندی کی تاریخ پر ایک نظر

منگل کو ہونے والا حملہ پاکستان میں پہلا ایرانی حملہ نہیں تھا درحقیقت، دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی ایک تاریخ ہے جو 2012ء میں جیش العدل کے ظہور کے ساتھ مزید کشیدہ ہوئی۔

ایران کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر ہونے والی حالیہ دراندازی ماضی میں ہونے والے اس طرح کے حملوں کے مقابلے میں زیادہ مہلک تھی۔ اس کی وجہ یہ خیال ہے کہ ایرانی اقدام کے پیچھے دسمبر میں ایرانی قصبے راسک میں ہونے والے حملہ ہوگا۔ اس حملے کی ذمہ داری جیش العدل نے لی تھی اور اس میں 11 ایرانی سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

لیکن منگل کو ہونے والا حملہ پاکستان میں پہلا ایرانی حملہ نہیں تھا درحقیقت، دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی ایک تاریخ ہے، جو 2012ء میں جیش العدل کے ظہور کے ساتھ مزید کشیدہ ہوئی۔

جیش العدل کے آغاز اور ایران اور پاکستان کے درمیان اعتماد کے فقدان کو سمجھنے کے لیے 1970ء کی دہائی پر نظر ڈالنی چاہیے۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے، ایران کی جانب سے بلوچوں کے ساتھ سخت سلوک نے سیستان و بلوچستان میں سنی بنیاد پرستی کو ہوا دی۔ لیکن انقلاب سے بہت پہلے بھی، ایرانی بلوچ، بلوچستان اور کراچی ہجرت کر چکے تھے اور شاہِ ایران کے خلاف سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔

یہی وجہ ہے کہ محمد رضا شاہ پہلوی نے مشرقی ایران میں مقیم 12 لاکھ بلوچوں تک شورش کے پھیلنے کے خوف سے، 1973ء سے 1977ء کے دوران پاکستان میں بلوچوں کی دراندازی کے دوران پاکستان کی مدد کے لیے ایرانی پائلٹوں کے ساتھ 30 کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹر بھیجے۔ اس بات کو اسکالر اور صحافی سیلگ ایس ہیریسن نے بھی بیان کیا ہے۔

1990ء کی دہائی میں مولا بخش درخشاں (عرف ملوک) کی قیادت میں ایک عسکریت پسند گروپ سپاہِ رسول اللہ ابھرا جو بلوچستان کے علاقے کیچ سے ایران کے سیستان و بلوچستان میں سرحد پار سے دراندازی کو منظم کرنے والا پہلا گروہ تھا۔

ملوک کو پاکستان میں شیعہ مخالف گروہوں کی حمایت ملی۔ اس نے اپنی کوششوں کو ’جہاد‘ کے طور پر پیش کرتے ہوئے ایران کے خلاف بلوچ مزاحمت کی مذہبی جہت کو نمایاں طور پر تشکیل دیا۔ 2006ء میں اس کی موت کے بعد اس کے بھائی ملا عمر ایرانی نے سپاہ رسول اللہ کی قیادت سنبھالی۔ ایران کی طرف سے پھانسی پانے والے اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے مقصد سے متاثر ہوکر ملا عمر ایرانی نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

کلاہو، کیچ میں ملا عمر ایرانی کا کمپاؤنڈ، جو ایران کی سرحد سے 45 میل (72 کلومیٹر) مشرق میں واقع ہے، 25 نومبر 2013ء کو پہلے ایرانی میزائل حملے کا نشانہ بنا۔

ایران کے خلاف لڑائی کو مضبوط بنانے کے لیے ملا عمر ایرانی نے اپنی سپاہِ رسول اللہ کو جند اللہ کے ساتھ ضم کر دیا۔ اس کی قیادت ایک نوجوان عبدالمالک ریگی کر رہا تھا، جو ملوک کے زیر اثر پروان چڑھا تھا۔

2002ء میں قائم ہونے والی، جند اللہ نے دسمبر 2005ء میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے قافلے پر ناکام حملے کے بعد اہمیت حاصل کی۔ 16 مارچ 2006ء کو جند اللہ کے عسکریت پسندوں نے پولیس اور فوجی اہلکاروں کے لباس میں زاہدان اور زابل کے درمیان ایک چیک پوائنٹ قائم کیا جہاں انہوں نے 22 مسافروں کو اتار کر ہلاک کر دیا۔ اس افسوسناک واقعے نے ایران کو جند اللہ کے معاملے کو پاکستانی حکام کے سامنے اٹھانے پر مجبور کیا۔

14 جون 2008ء کو، پاکستان نے عبدالمالک ریگی کے بھائی عبدالحمید کو ایران کے حوالے کیا۔ اسے چند ماہ قبل ضلع کیچ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ حوالگی دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی کوشش تھی۔ عبد الحمید کو بعد ازاں مئی 2010ء میں زاہدان میں پھانسی دے دی گئی۔

لیکن اس سے جند اللہ باز نہ آئی۔ اکتوبر 2009ء میں اس گروپ نے (ایران کی طرف کے) پشین میں بڑا ایک بم حملہ کیا جس میں ایرانی پاسداران انقلاب کے 6 کمانڈروں سمیت 43 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد پہلی بار ایران نے کھل کر پاکستان اور مغرب پر جند اللہ اور عبد الملک ریگی کی حمایت کا الزام لگایا۔

فروری 2010ء میں تہران نے ریگی کو اس وقت گرفتار کرلیا جب وہ دبئی سے کرغزستان کی پرواز پر تھا۔ اگرچہ اس کو اسی سال جون میں پھانسی دے دی گئی لیکن جنداللہ نے الحاج محمد ظہیر بلوچ کی قیادت میں فروری 2010ء سے 2011ء تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جنداللہ کی طاقت میں کمی واقع ہوئی۔

یہی وہ وقت تھا جب تربت سے تعلق رکھنے والے ملا عمر ایرانی نے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر 2012ء میں جیش العدل کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم 2012ء میں پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں قائم کی گئی تھی۔ اگرچہ اس کی قیادت کافی حد تک نامعلوم ہے لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ملا عمر ایرانی اس کے اہم بانیوں میں سے ایک تھا۔

اکتوبر 2013ء میں سراوان میں سڑک کے کنارے نصب بم سے پاسداران انقلاب کے 13 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد اس گروپ نے اہمیت اختیار کی۔ جواب میں ایران نے سراوان بم دھماکوں کے ایک ماہ بعد کیچ میں ملا عمر ایرانی کے کمپاؤنڈ پر ایک میزائل داغا۔ اس کے نتیجے میں ملا عمر ایرانی کے گھر اور ملحقہ مسجد کو نقصان پہنچا لیکن وہ خود حملے میں بچ گیا۔

تشدد کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران فروری 2014ء میں جیش العدل 4 ایرانی فوجیوں کو اغوا کر کے مبینہ طور پر پاکستان لے آئی۔ اس پر ایران کی جانب سے سرحد پار سے دراندازی کو کنٹرول کرنے میں پاکستان کی ناکامی کا الزام لگایا گیا۔ ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر فوجیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ پاکستان میں فوج بھیج دے گا۔ ان فوجیوں کو بالآخر اسی سال اپریل میں رہا کر دیا گیا۔

اکتوبر 2014ء میں جیش العدل کے ایک حملے کے نتیجے میں سراوان میں ایرانی سیکیورٹی فورسز کے 4 ارکان ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد سراوان کے بریگیڈیئر جنرل حسین سلامی نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان جیش العدل کو لگام دینے میں ناکام رہا تو وہ پاکستان میں فوج بھیجیں دیں گے۔

مارچ 2016ء تک صورت حال مزید شدت اختیار کرگئی جب پاکستان نے ایرانی سرحد کے قریب بلوچستان کے علاقے ماشکیل میں بھارتی بحریہ کے ایک ریٹائرڈ افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد ایران پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان میں شورش میں ملوث بلوچ علیحدگی پسندوں کو پناہ دے رہا ہے۔

کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مئی 2016ء میں اپنے دورہ ایران کے دوران چابہار بندرگاہ کی تعمیر اور اسے چلانے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ایران نے گوادر کو اپنی چابہار بندرگاہ کے مدمقابل کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ الزام تراشی کا کھیل بڑھتا گیا اور پھر ایران نے پاکستان کے سرحدی شہروں میں راکٹ داغے۔ اس کے بعد جولائی 2017ء میں ایران نے پنجگور پر راکٹ فائر کیے۔

نومبر 2020ء کی ایک شام تربت پولیس نے مبینہ طور پر ایران کے انتہائی مطلوب عسکریت پسند رہنما ملا عمر ایرانی کو اس کے دو بیٹوں سمیت مبینہ مقابلے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس سے صرف دو دن قبل ہی ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملا عمر ایرانی تربت کے پوش علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں روپوش تھا۔


یہ مضمون 19 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

کییا بلوچ

کییا بلوچ ایک فری لانس پاکستانی صحافی ہیں اور اس وقت ناروے میں مقیم ہیں، آپ انہیں ٹوئٹر پر فالو کرسکتے ہیں۔ twitter.com/KiyyaBaloch

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔