پاکستان

مسئلہ فلسطین پر قائد اعظم کے دو ریاستی حل کے مؤقف میں تبدیلی ’کفر‘ نہیں ہے، نگران وزیر اعظم

فلسطینیوں پر جو ظلم کیا جارہا ہے، اس کے تحت کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں اور کیا نتائج ہوں گے، اس پر مشاورت ہونی چاہیے، انوارالحق کاکڑ

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر قائد اعظم کے مؤقف سے ’روگردانی‘ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائد اعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔

بدھ کو نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ کے پروگرام ’الیونتھ آور‘ میں میزبان وسیم بادامی کو دیے گئے انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے مسئلہ فلسطین، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات، فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل، عام انتخابات اور غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کی بے دخلی سمیت دیگر معاملات پر تفصیلی گفتگو کی۔

انٹرویو کے دوران مسئلہ فلسطین سے متعلق دو ریاستی حل کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ میں نہیں پوری دنیا کہہ رہی ہے، دوریاستی حل کی بات ہم سے منسلک کردی گئی ہے، جیسے ہم نے اس کی تجویز دے دی ہے، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ جس طرح فلسطین میں بچے اور خواتین شہید کیے جارہے ہیں، بتائیں اس کا حل کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ کسی صورت میں اگر کوئی تجویز موجود ہے تو سامنے لائیں، فلسطینیوں سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں فلسطینی ہوں؟ آپ فلسطینی ہیں؟ یا کانفرنس کروانے والے فلسطینی ہیں؟ فلسطینیوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے ساتھ، اسرائیلیوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے؟ کن اصولوں پر زندگی گزارنی ہے؟ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، ہم ہمسائے ہیں، ہم ان کا حصہ نہیں ہیں، انوار کا بچہ نہیں مارا جا رہا، بادامی کا بچہ نہیں مارا جا رہا، جن لوگوں کے بچے شہید ہو رہے ہیں، پہلا حق ان کا ہے، ان سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟

حماس کے فلسطینیوں کے نمائندہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ بھی فلسطینی کریں گے، میں یا آپ نہیں کریں گے، ہماری طرف اس چیز کو دھکیلنا کہ ہم یہ تجویز دے رہے ہیں، یہ تاثر درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، کوئی سادہ معاملہ نہیں ہے اور اس حوالے سے جو اسلامی دنیا کا مؤقف ہے، اس کا ساتھ دینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ وہاں امن ہو۔

اس سوال پر کہ جب ہم اسرائیل کو سپورٹ کرتے ہیں تو کیا ایک طرح سے ہم اسرائیل کے وجود کو ہی نہیں تسلیم کر رہے، جو کہ قائد اعظم کے اس بیان سے روگردانی کرتا ہے کہ اسرائیل، امریکا کا ایک ناجائز بچہ ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے، کیا ہم اس کے خلاف نہیں جا رہے؟

اس پر انوارالحق کاکڑ نے جواب دیا کہ بہت سارے لوگ اس کا حوالہ دیتے ہیں، سیاست کوئی کام کرنے کا نام نہیں بلکہ سیاست کچھ حاصل کرنے کا نام ہے، قائداعظم میں اور جو ادیان کے نبی اور رسول گزرے ہیں ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ان پر جو الہام آیا ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، لیکن اس سے ہٹ کر جتنے بھی سیاسی رہنما یا سماجی دانشور آئے ہیں، حالات اور واقعات کی روشنی میں، آنے والے وقت میں جو دوسرے لوگ ہوتے ہں، وہ اس پر سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر کہیں پر کچھ تعمیری مؤقف یا کچھ تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ لائی جاسکتی ہے اور آسکتی ہے۔

’قائداعظم کی پوزیشن کے تبدیل ہونے پر پابندی نہیں ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم کی اس پوزیشن کے تبدیل ہونے پر پابندی نہیں ہے، اگر پاکستان کی پارلیمان، تمام سیاسی جماعتیں اور دانشور اس رہنما اصول پر سوچ و بچار کرتے ہیں اور قائداعظم جس نتیجے پر پہنچے تھے، اس کے برعکس کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو یہ کفر کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اس پر بحث ہوسکتی ہے۔

نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی بھی پاکستانی حکومت سب سے پہلے پاکستانی قوم کا مفاد دیکھتی ہے، ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ (فلسطین میں) جو ظلم کیا جا رہا ہے، اس کے تحت کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں اور کیا نتائج ہوں گے، اس پر مشاورت ہونی چاہیے۔

جب ان سے حماس کے رہنما اسمٰعیل ہنیہ کے حالیہ بیان کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کو کرنا چاہیے۔

انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ کسی ایک صاحب کے کہنے پر اگر پوزیشن لے لیں گے تو ایسا نہ ہو کہ کل کو اس پوزیشن لینے پر پچھتا رہے ہوں، میرے خیال میں مشاورت کا عمل پارلیمان کی صورت میں آنے والا ہے، ان کو یہ عمل کرنے دیں۔

’ٹی ٹی پی ناک رگڑ کر بھی تائب ہونے کا اعلان کرے تو معافی کا حق لواحقین کے پاس ہے‘

کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ تشدد کے استعمال اور مذاکرات کا حق ریاست کے پاس ہوتا ہے، لیکن ڈائیلاگ یا مذاکرات آپ اس وقت کرتے ہیں جب آپ کا حتمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ گروہ تشدد کو ترک کرچکا ہے، یہ تنگ آچکے ہیں، یہ رجوع کرنا چاہتے ہیں، یہ تائب ہوگئے ہیں، یہ پلٹ کر آنا چاہتے ہیں، اس طرح نہیں کہ سکندر اعظم کی طرح، فاتحین کی طرح آجائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کل کو یہ ٹی ٹی پی والے ناک رگڑ کے علی الاعلان یہ کہہ بھی دیں کہ ہم تائب ہیں، ہم نے اپنے ساتھ زیادتی کی، معاشرے کے ساتھ زیادتی کی، اس قوم کے ساتھ زیادتی کی تب بھی ان (دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے) لواحقین کو حق ہے کہ وہ سوچیں کہ ان سے بات کرنی چاہیے یا نہیں کرنی؟ ان کو معاف کرنا چاہیے یا نہیں؟ یہ حق ان کے پاس ہے اور ان کے توسط سے ریاست کے پاس ہے۔

انہوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والے حملوں اور افغان حکومت کے اس سلسلے میں کردار کے حوالے سے جواب دیا کہ افغان کی سرزمین سے حملے ہو رہے ہیں، یہ وہ بھی تسلیم کرتے ہیں، ہمیں بھی پتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس پر بات کی جا سکتی ہے کہ ان حملوں کو روکنے کے سلسلے میں ان کی صلاحیت کتنی ہے یا ان کے ارادے کیا ہیں؟ لیکن یہ لوگ افغانستان میں موجود ہیں، کچھ ہماری طرف بھی ان کے لوگ ہیں لہٰذا اس پورے پیرائے میں جب تک افغانستان کی صورت حال اور ان کی جانب سے عزم سامنے نہیں آئے گا تب تک یہ بات ختم نہیں ہوگی۔

افغانستان کی جانب سے تعاون سے متعلق سوال پر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ یہ چیزیں دو ممالک کے درمیان تعلقات پر محیط ہیں، ہم تو اور زیادہ تعاون چاہیں گے، ہمارے نقطہ نظر سے اب تک تعاون کم ہی رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ متعلقہ سطح پر ہمارے محکمے ان سے رابطے میں ہیں اور ہم اسے کامیابی سے اختتام کو پہنچائیں گے۔

عسکریت پسند تنظیموں کےساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوال پر نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اگر کسی کو اب بھی کنفیوژن ہے تو یہ قومی بدبختی ہے، آپ دہشت گردوں کے ساتھ اس طرح سے مذاکرات نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ آپ تو اس چیز کے حامی تھے کہ ٹی ٹی اے (افغان طالبان) اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہوں، اس میں کوئی شک ہیں، کیونکہ افغانستان امریکا کا گھر نہیں تھا، انہوں نے اپنے گھر واپس جانا تھا اور وہ ایک مقبوضہ فورس کے طور پر ٹریٹ ہو رہے تھے، لیکن ہم کہاں جائیں گے؟ میں یا آپ یہ سرزمین چھوڑ کر کہاں جائیں گے؟

’افغانوں کی واپسی پر کوئی مستقل پابندی نہیں‘

افغانوں کے انخلا کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہماری بنیادی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہمیں پاکستانیوں کے دلوں کا خیال رکھنا ہے کہ ان کے دل میں کیا ہے؟ جن پر آپ آئینی طور پر حکومت کرتے ہیں ان کے دل اور دماغ کو ہم کیسے جیتیں؟ ہم افغانوں پر تو حکومت نہیں کرتے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ افغانوں کی واپسی پر کوئی مستقل پابندی نہیں ہے، وہ اپنے وطن جائیں اور سفری دستاویزت بنوا کر جس وجہ سے آنا چاہتے ہیں، اس جواز کی وضاحت کرکے آئیں، اس میں ایسی کون سے غیر شرعی، غیر قانونی بات ہے جس سے لوگوں کے دل دکھ رہے ہیں؟

’الیکشن میں کوئی التوا نظر نہیں آرہا‘

8 فروری 2024 کو عام انتخابات اور سیکیورٹی کی صورت حال کے حوالے سے نگران وزیراعظم نے کہا کہ آج کی تاریخ میں انہیں الیکشن میں کوئی التوا نظر نہیں آرہا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے مطابق تو 8 فروری کی صبح 9 سے 5 بجے کے درمیان پولنگ کا وقت ہے اور یہی معاملے کا اختتام ہے۔

’جنہوں نے فوجی تنصیبات پرحملہ کیا، ان کا کیس فوجی عدالتوں میں چلنا چاہیے‘

سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے حوالے سے دیے گئے گزشتہ روز کے فیصلے کو انوار الحق کاکڑ نے اصول کی جیت قرار دیا، انہوں نے کہا کہ میں سپریم کورٹ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے اس نظریے کو سمجھا اور اس پر اپنا اظہار کیا، جو سوشل آرڈر کے لیے بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے 9 مئی کو فوجی تنصیبات پرحملہ کیا، ان کا کیس فوجی عدالتوں میں چلنا چاہیے، ہاں سول اداروں کے سامنے احتجاج کرنے والوں، پلے کارڈز اٹھانے والوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح سپریم کورٹ، پارلیمان کو پتھر مارنے والے کا کیس بھی فوجی عدالت میں نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو 9 مئی کے واقعات کا ماسٹر مائنڈ ٹھہرانا ان کا کام نہیں، ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے یہ تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ کا کام ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کیے جانے کے سوال پر نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک کاغذ لہرا کر انہوں نے کہا کہ یہ سائفر کا حصہ ہے اور اپنا بیانیہ بنایا، ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نےسابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اپنی حکومت گرانے میں ملوث ذمہ داروں کے تعین کے حوالے سے بیانات سے متعلق سوال پر کہا کہ اگر ہم نے سبق سیکھنا ہے تو 14 اگست 1947 سے شروع کریں کہ کہاں کہاں غلطیاں کیں۔

’اسٹیبلشمنٹ اور ایوان صدر سے اچھے تعلقات ہیں‘

انوارالحق کاکڑ نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ اور ایوان صدر سے تعلقات بہت اچھے ہیں۔

انہوں نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس منصب کے حوالے سے جتنی حکومت کو ضرورت پڑی، وہ حمایت ہمیں ملی ہے، بہت زیادہ رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، صدر پاکستان ملک سے پیار کرنے والے شخص ہیں، ایسا لگتا نہیں کہ صدر ریاست کے معاملات میں بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی 8 فروری کے عام انتخابات ملتوی کرانے کی سازش کر رہی ہے، شہباز شریف

چیئرمین پی ٹی آئی کا انتخاب آئین و قانون کے تحت ہوا، علی ظفر

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی ’اوپن‘ سماعت، یکم جنوری تک جواب طلب