غزہ میں 18 ہزار 205 فلسطینی شہید، اسرائیل پر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام
فلسطین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں تقریباً 10 لاکھ لوگوں کے خلاف بھوک کو جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کی عدم فراہمی کو عالمی برادری کی ناکامی قرار دیا۔
خبر رساں ایجنسیوں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوراک نے کہا ہے کہ غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے نصف اس وقت شدید بھوک سے دوچار ہے اور اسرائیل نے غزہ کے عوام کی خوراک، ادویہ اور ایندھن تک رسائی کو ناممکن بنا دیا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں امداد پہنچائی جا رہی ہے اور جلد ہی کریم شالوم کراسنگ کھولنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
تاہم فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اسرائیل پر حماس کے خلاف جنگ میں غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اقوام متحدہ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت جب ہم بات کر رہے ہیں تو غزہ کی پٹی پر تقریباً 10 لاکھ فلسطینی جن میں سے نصف بچے ہیں، بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور یہ کسی قدرتی آفت یا امداد کی وجہ سے نہیں ہو رہا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ اسرائیل، جنگ میں ان لوگوں کے خلاف بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے جن پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے۔
ریاض المالکی نے کہا کہ فلسطینی عوام کے کھانے پینے کے بنیادی حقوق کا احترام کرنے کے بجائے تلخ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کو تمام انتہائی انسانی بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے جو فلسطینیوں کے تحفظ میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ادھر جنوبی غزہ میں اسرائیلی جنگی طیاروں اور ٹینکوں کی مسلسل بمباری اور زمینی کارروائی کے دوران شدید لڑائی کے سبب اقوام متحدہ نے بھوک کی شدت سے نڈھال غزہ کے عوام کو راشن کی سپلائی روک دی ہے۔
مصر کی سرحد سے متصل جنوبی شہر رفح میں رات گئے اسرائیلی فضائی حملوں میں گھروں پر اسرائیل کی شدید بمباری کے نتیجے میں 22 افراد مارے گئے اور سول ایمرجنسی کا عملہ ملبے تلے مزید افراد کی لاشیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رفح کے رہائشی چھ بچوں کے والد 40 سالہ ابو خلیل نے کہا کہ بمباری کی وجہ سے ہم رات بھر سو نہیں سکے اور صبح بچوں کے لیے کھانے کی تلاش میں گلیوں میں مارے مارے پھرے لیکن کچھ نہیں ملا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے روٹی نہیں ملی اور گزشتہ کچھ عرصے میں چاول، نمک اور دالوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔
دوسری جانب خان یونس میں اسرائیلی فوج کی ٹینکوں کے ذریعے زمینی کارروائیاں جاری ہیں اور ان کی توجہ کا مرکز شہر کے وسط میں واقع وہ علاقہ ہے جہاں حماس کے مرکزی رہنما یحییٰ السنوار رہائش پذیر تھے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ لڑائی کی شدت اور بمباری کی وجہ سے رفح میں غذا کی تقسیم کو محدود کردیا گیا ہے جبکہ غزہ میں امداد تقریباً رک چکی ہے۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کو ان لوگوں کو نہیں چلانے دیں گے جو دہشت گردی کی تعلیم، حمایت اور فنڈنگ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں حماس کے خاتمے اور قیدیوں کی بازیابی کے اپنے ہدف کے حصول میں امریکا کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے لیکن غزہ میں جنگ کی بعد کی صورتحال کیا ہو گی، اس پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
نیتن یاہو نے کہاکہ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں اسرائیل کو اوسلو کی غلطی دہرانے نہیں دوں گا۔
1993 کے اوسلو معاہدے کے تحت مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی محدود خود مختاری قائم کی گئی تھی۔
امریکا کی جانب سے مستقل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد اسرائیل کی غزہ اور خان یونس میں کارروائیوں میں تیزی آئی ہے اور گزشتہ کچھ دنوں میں کئی افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر سے اب تک غزہ پر اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں میں کم از 18 ہزار 205 فلسطینی شہید اور 50 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں اب تک لاپتا ہیں۔