عمران خان، شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت کل اڈیالہ جیل میں ہوگی
وفاقی وزارت داخلہ نے سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ کے خلاف سائفر کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفرکیس کی سماعت آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابولحسنات ذوالقرنین نے کی، شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری،چیئرمین پی ٹی ائی کی بہنیں جوڈیشل کمپلیکس پہنچیں۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ کیا اڈیالہ جیل میں ٹرائل کا کوئی نوٹیفکیشن آیا ہے؟ عدالتی عملہ نے جج ابوالحسنات کو آگاہ کیا کہ ابھی تک جیل میں ٹرائل کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں آیا۔
جج ابولحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جیل میں ٹرائل کا نوٹیفکیشن آجائے پھر دیکھ لیتے ہیں، شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی حد تک کوئی رپورٹ نہیں، انہیں تو پیش کریں، بیرسٹر تیمور ملک نے کہا کہ عدالتی حکم پر چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو آج عدالت پیش کرنا چاہیے تھا۔
جج ابولحسنات ذوالقرنین نے وکیل کو ہدایت کہ آپ گزشتہ سماعت کا فیصلہ پڑھیں،آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا سائفر کیس کی گزشتہ سماعت کا آرڈر پڑھا گیا، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جیل میں ٹرائل کا نوٹیفکیشن آجائے تو ہم دیکھ لیتے ہیں، جیل میں ٹرائل کا نوٹیفکیشن نہیں آیا تو ہم پروڈکشن آرڈر کروایں گے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ عدالت کا 23 نومبر کو چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی پروڈکشن کا آرڈر تھا، پھر خصوصی عدالت نے اپنے ہی آرڈر پر نظر ثانی کردی، جج نے کہا کہآپ 28 نومبر کا آرڈر پڑھیں آپ کی تمام باتوں کا جواب مل جائے گا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل نے گزشتہ سماعت پر عدالت کو خط بھیجاتھا، آپ نے پہلے آرڈر دیا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کیا جائے ، اگلی سماعت پر آپ نے خود ہی اپنے آرڈر کی نظر ثانی کردی تھی،آپ کا آرڈر جیل میں ٹرائل کے حوالے سے قانونی طور پر درست نہیں ہے،
وکیل صفائی سکندر ذوالقرنین نے کہا کہ اڈیالہ جیل ممنوعہ علاقہ ہے جہاں ویڈیو اور فوٹوگرافی ممنوع ہے، یہ طے ہونا چاہیے کہ صحافیوں کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت ہوگی، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ کیا خطرات کے حوالے سے دیکھنا عدالت کا اختیار ہے ؟
وکیل صفائی نے کہا کہ اگر کوئی ایڈیشنل آئی جی کہہ دے تو ناکافی ہے، منسلک رپورٹس بھی ہونی چاہیے، جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جیل سپرنٹینڈنٹ کے خط کے ساتھ سیکیورٹی رپورٹس بھی منسلک ہیں، وکیل صفائی نے کہا کہ جیل مینوئل میں لکھا ہے اڈیالہ جیل ممنوعہ جگہ ہے، موبائل استعمال نہیں ہوسکتا، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ صحافیوں کی موجودگی جیل میں ٹرائل کے دوران ضروری ہوگی۔
وکیل صفائی نے کہا کہ آپ کو جیل کو عدالت ڈیکلیئر کرنے کے ساتھ اس کو غیر ممنوعہ جگہ بھی ڈیکلیئر کرنا پڑے گا، جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ بالکل ہوگا اور صحافیوں کی موجودگی بھی جیل میں ٹرائل کے دوران ہوگی۔
وکیل صفائی علی بخاری نے کہا کہ آپ کا آرڈر مکمل نہیں ہے کیونکہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے کچھ نہیں لکھا، اس آرڈر میں وجوہات کا ذکر موجود نہیں کہ آخر کیوں جیل میں سماعت ہورہی ہے، وزارتِ قانون نے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، خصوصی عدالت ہائیکورٹ کے احکامات کی پابند ہے۔
وکیل صفائی علی بخاری نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کرنے کی زمیداری سیکیورٹی کی ہے، فردجرم، نقول کی تقسیم سب کچھ ملزم کی موجودگی میں ہونا چاہیے،سایفرکیس کی آج کی سماعت کا اختتام کیا ہوگا؟ کیا وزارتِ قانون کو ڈائریکشن عدالت دے سکتی؟ نہیں دے سکتی، شاہ محمود قریشی کو عدالت پیش کرنے پر اب بھی سوالیہ نشان ہے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ انصاف نہ صرف ہوگا بلکہ ہوت نظر بھی آئےگا،خصوصی عدالت جیل میں ٹرائل کرنے کی پابند تھی لیکن سماعت جیل سے مشروطہے، میں وزارت قانون کے نوٹیفکیشن کا انتظار کررہاہوں، اگر نوٹیفیکیشن نہ آیا تو میں ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کا نوٹس جاری کروں گا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ عدالت ہی ادھر لے جائیں، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ عدالت لے چلیں گے جیل میں فکر نہ کریں، ٹرائل پینڈنگ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اصل ملزم ہے، شسہ محمود قریشی شریک ملزم ہیں، عدالتی سماعت کی وجہ سے ہائی کورٹ نے اب تک کی سماعتیں غیرقانونی قرار نہیں دیں، اوپن کورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہائیکورٹ نے اب تک کے ٹرائل کو غیرقانونی قرار دیاتھا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ خصوصی عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کو قید رکھنا غیرقانونی ہے، اسپیشل پراسیکیوٹر زولفقار نقوی نے کہا کہوزارتِ قانون کے نوٹیفیکیشن کا آج انتظار کرلیں، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہدھوپ سیکیں، نوٹیفیکیشن کا انتظار کریں۔
دوران سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں روسٹرم پر آگئیں علیمہ خان نے کہا کہ جج صاحب نوٹیفیکیشن کب آئےگا؟ جج نے کہا کہ وزارتِ قانون کا نوٹیفیکیشن اگر نہیں تو آیا تو میں منگوا لوں گا، علیمہ خان نے کہا کہ ہم کمرہ عدالت کے ساتھ ہی بیٹھ جاتے ہیں، نوٹیفیکیشن کا انتظار کرتےہیں۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ وزارت قانون کا نوٹیفیکیشن عدالت میں جمع ہوچکا ہے، کل تک سائفر کیس کی سماعت مقرر کی ہے،وزارت قانون کا نوٹیفیکشن آگیا ہے، کیس کی سماعت کل کے لیے رکھ لیتے ہیں ،اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھی آگاہ کرنا ہے۔
وکیل علی بخاری نے استدعا کی کہ نوٹیفکیشن کیا ہے، ہمیں بتا دیں، عدالتی عملے نے وزارت قانون کا نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا، وکیل علی بخاری نے کہا کہ ہفتے کا دن ہمارے لیے آنا مشکل ہوجاتا ہے،
پی ٹی آئی وکلا نے کل سماعت مقرر کرنے پر اعتراض کیا، وکیل علی بخاری نے کہا کہہفتے کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ بںد ہوتی لیکن ٹرائل کورٹس میں ہمارے کیسز ہوتے، جج ابوالحسنات نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے بھی نوٹیفکیشن میں تحریر کیاگیاہے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے آج ہی اڈیالہ جیل میں سماعت مقرر کرنےکی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ میں تو آج ہی اڈیالہ جیل میں سماعت مقرر کرنے کے حق میں ہوں، پی ٹی آئی کے وکلا کی جانب سے 5 دسمبر تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔
جج نے کہا کہ 5 دسمبر کو سماعت رکھ لیں گے لیکن حاضری کے حوالے سے تو سماعت رکھنی ہے نہ، پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ آج چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری مقرر تھی، اس بات پر کیا کہیں گے؟ جج نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو اطلاع کرنی تھی اور وزار قانون کے نوٹیفیکیشن کا انتظار تھا آج، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم انتظار کرلیتے ہیں، آپ آج ملزمان کو جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کروا دیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ چاہتےکیا ہیں؟ ڈیڑھ گھنٹے سے ہہی باتیں کررہےہیں، وکیل علی بخاری نے کہا کہ کوئی اسٹے نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، وکیل علی بخاری نے جج سے مکالمہ کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور نہ آپ نے اپنے آرڈر عملدر آمد کروایا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی، عدالت نے کہا کہ پروڈکشن سے متعلق درخواست پر سماعت بھی کل تک کیلئے ملتوی کرتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے جیل ٹرائل کے حکم نامے کے خلاف درخواست دائر
چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین کی عدالت میں جیل ٹرائل کے حکم نامے کے خلاف درخواست دائر کردی گئی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس عدالت نے 23 نومبر 2023 کو حکم دیا کہ 28 نومبر کو ملزمان کو جوڈیشل کمپلیکس پیش کیا جائے، عدالت نے 28 نومبر کو جیل ٹرائل کا حکم دے دیا، 23 نومبر کے حکم نامے کی موجودگی میں 28 نومبر کا حکم نامہ غیر قانونی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 23 نومبر 2023 کے حکم نامے پر عملدرآمد کروائے۔
سائفر کیس
یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔
اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔
خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی ابتدائی سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی۔
پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔
اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز) کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔