برکس ممالک کا غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ
برکس ممالک نے ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس کے دوران غزہ میں انسانی بنیادوں پر فوری اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اجلاس کے چیئر جنوبی افریقہ نے اسرائیل پر فلسطینی سرزمین میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایف پی کے مطابق بڑی ابھرتی ہوئی معیشتوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس ممالک کے ورچوئل اجلاس کی میزبانی پریٹوریا نے کی جس کا مقصد غزہ میں اسرائیل کے جاری فوجی حملے کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا تھا۔
گروپ نے اجلاس کے اعلامیے میں کہا کہ ہم نے انسانی بنیادوں پر فوری اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس دشمنی کا خاتمہ ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جنگ بندی کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جہاں ان کوششوں کا مقصد شہریوں کا تحفظ اور انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔
غزہ میں 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کے خلاف کارروائی کی تھی جس میں 1200 سے زائد اسرائیلی باشندے مارے گئے تھے جو ایک طویل عرصے کے بعد اسرائیل کے خلاف کیا جانے والا سب سے بڑا حملہ تھا۔
حماس کی اس کارروائی کے بعد اسرائیل کی جانب غزہ کی پتی پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو 46 دن گزرنے کے باوجود اب تک جاری ہے اور جس میں اب تک 14 ہزار سے زائد فلسطینی بانشدے شہید ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے طاقت کا غیر قانونی استعمال کرتے ہوئے فلسطینی شہریوں کو اجتماعی سزا دینا جنگی جرم ہے، غزہ کے باشندوں کو ادویات، ایندھن، خوراک اور پانی کی فراہمی روکنا نسل کشی کے مترادف ہے۔
منگل کے روز حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ نظر میں ہے، ثالث قطر نے حماس کی جانب سے پکڑے گئے یرغمالیوں کو آزاد کرانے کے لیے بات چیت کو آگے بڑھایا ہے اور یہ معاہدہ جلد طے پا سکتا ہے۔
برکس کے رہنماؤں اور نمائندوں نے کہا کہ امن کو یقینی بنانے کے لیے فلسطین اسرائیل تنازع کے طویل المدتی سفارتی حل کی ضرورت ہے اور چین کے صدر شی جن پنگ نے اس مقصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی امن کانفرنس کا مطالبہ کیا۔
ایک مترجم کے ذریعے بات کرتے ہوئے شی جنگ پن نے کہا کہ فلسطین کے مسئلے کے منصفانہ حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں کوئی پائیدار امن اور سلامتی نہیں ہو سکتی۔
چین تاریخی طور پر فلسطینیوں کا ہمدرد رہا ہے اور ہمیشہ سے اس تنازع کے دو ریاستی حل کا حامی رہا ہے۔
چین نے رواں سال مشرق وسطیٰ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بحال کرا دیے تھے اور اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کو روکنے اور جنگ بندی کے لیے ایک ایلچی کو خطے کی جانب روانہ کیا تھا۔
برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا نے حماس کے حملوں اور اسرائیلیوں یرغمال بنانے کے عمل کو وحشیانہ کارروائیاں قرار دی تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کو شہریوں کے خلاف اندھا دھند اور غیر متناسب طاقت کے استعمال کے جواب کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
مغربی مملک پر مشرق وسطیٰ میں تناؤ پھیلانے کا الزام عائد کرنے والے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ دوسری ریاستوں کو جنگ کا حصہ بننے سے روکنے کے لیے طویل مدتی اور پائیدار جنگ بندی انتہائی اہم ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ فلسطینی عوام کے خدشات کو سنجیدہ اور پائیدار انداز میں حل کیا جانا چاہیے اور ایسا صرف دو ریاستی حل سے ممکن ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب، ارجنٹائن، مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں کو بھی مذاکرات میں مدعو کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے اجلاس سے خطاب کے دوران 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے جامع اور ٹھوس امن عمل شروع کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب غزہ بہت مشکلات سے دوچار ہے اور ہم ایک بار پھر غزہ میں اسرائیلی حملوں کو پوری شدت سے مسترد کرتے ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ پٹی کے لیے فوری طور پر امدادی سامان بھجوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ برآمد کرنا بند کردیں۔