کراچی: صدیوں کی کتھا! (پانچویں قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
موجودہ ادوار تک پہنچنے کے لیے ہم انتہائی تیزی سے یہ سفر طے کررہے ہیں۔ اس سفر میں شامل ہمارے تمام ساتھی اپنے ذہن کے وسیع لینڈاسکیپ پر ایک تصویر تخلیق کررہے ہیں جن کے نقوش دھیرے دھیرے واضح ہورہے ہیں۔ یہ کتنا شاندار ہوگا کہ جب ہم اپنے سفر کی آخری منزل پر پہنچیں گے تو اُن دنوں میں یہاں کی جو کیفیت ہوگی، گلیاں، بازار اور تعمیرات ہمارے لیے نئی نہیں ہوں گے کیونکہ ہم انہیں بنتے ہوئے دیکھتے آرہے ہوں گے۔
لاکھوں یا ہزاروں برس پہلے کے انسانوں کے ملنے والے فوسلز سے پتا چلتا ہے کہ قدیم انسان کبھی بھی قحط یا خوراک کی کمی کا شکار نہیں رہا کیونکہ اُس کے پاس خوراک کی تلاش کے سوا اور کوئی دوسرا کام نہیں تھا۔ ہاں کچھ ایسے مقامات بھی تھے جہاں خوراک کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی تھی اور خصوصاً ایسے مقامات پر جو سمندر کے کنارے موجود تھے اور وہاں موسموں کی سختی اور جانوروں سے تحفظ کے لیے معروضی حالات بھی شاندار تھے یعنی اوبڑ کھابڑ پہاڑی سلسلہ موجود تھا۔
ممکن ہے کہ ارتقائی انسان کے لیے ایسے سازگار حالات اس وقت کی دنیا میں دیگر مقامات پر بھی موجود ہوں اور شاید وہ ہمارے سمندری کناروں سے بھی زیادہ زبردست ہوں مگر ہم جس ساحلی کنارے پر یہ سفر اور گفتگو کررہے ہیں وہاں ایک اور اضافی سہولت موجود تھی اور وہ یہ تھی کہ اس پہاڑی سلسلے کے نزدیک مشرق میں لاکھوں برسوں سے میٹھے پانی کا بھاؤ بہتا تھا جس کی وسعت کا شاید ہم اندازہ بھی نہ لگا سکیں کہ وہ کتنا پانی لےکر شمال، جنوب، مشرق اور مغرب کی طرف سفر کرتا تھا۔ یہ بہاؤ ڈھائی ہزار کلومیٹر میں پھیلے ہوئے ہمالیہ پہاڑی سلسلے کی دین تھی جو تقریباً 9 کلومیٹر اونچا ہے اور 5 کروڑ برس پہلے طبعی تبدیلیوں کی وجہ سے زمین کی گہرائیوں سے کسی شاندار اور گھنے برگد کے پیڑ کی طرح اُگ پڑا تھا۔
ہم گزشتہ کسی قسط میں یہ ذکر کرچکے ہیں کہ کراچی کا سمندری کنارا اور یہاں سے شمال کی طرف جاتا کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ انسانی تاریخ کی قدامت کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ آج کی نشست میں پتھر کے زمانے کی آخری سرحد پر ہمارا پڑاؤ ہوگا۔ ہم انسانی ذہن کی ترقی کے تسلسل میں وہاں پہنچیں گے جب اس نے حیات کی ڈور ٹوٹنے کی صورت میں اپنے پیاروں کو دفن کرنے کی ابتدا کی اور انہیں دفنانے کے لیے اس زمانے کے وسائل کو شاندار طریقوں سے استعمال کیا۔
’کیا ہمارے ارد گرد ایسے مقامات موجود ہیں کیا؟‘
اس سفر کے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے یہ سوال اُس وقت کیا جب ہم تاریخ کی گزرگاہوں پر چلتے کچھ دیر پہاڑی کی اوٹ میں ایک چھوٹی سی جھیل کے کنارے زقوم کی گھنی جھاڑی کے پاس رُکے تھے جس پر تیز سُرخ رنگ کے پھول عَود کر آئے تھے۔ جاڑے کے دنوں میں جب آسمان کا رنگ صاف اور تیز نیلا ہوجاتا ہے تو زقوم کی تیز ہرے رنگ کی جھاڑی پر سُرخ پھول اتنے خوبصورت لگتے ہیں کہ اُن کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس طرح کے سوالات اور بھی ہوسکتے ہیں، اس طرح کی معلومات کی تشنگی کے ریگستان ذہن میں تب اُگتے ہیں جب ان پر معلومات کی بارش نہیں ہوتی۔ کیا ہم اپنے ذہن کو زرخیز بنانے کے لیے ایسی بارشوں کی تمنائیں نہیں کرتے ورنہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں وہ فطری طور پر ایسی زمین پر ہے جہاں ارتقائی انسان کی اوائلی بستیاں ہوا کرتی تھیں۔ قوموں کے سر پر غُرور کے تاج کی طرح سجنے والے قدامت کے اعزازات کی ہم نہ تعظیم کرتے ہیں نہ اُنہیں سر پر سجانے کی تمنا کرتے ہیں۔ کسی قوم یا ملک کے لیے یہ مثبت رویہ نہیں ہے۔ ہمیں اپنے گزرے دنوں کو جاننے کے لیے اگر زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت سنجیدہ ضرور ہونا چاہیے۔
آج ہم ساتھی کے اس سوال کے جواب کے لیے تاریخ سے پہلے کے ان اہم مقامات کو دیکھنے چل پڑے ہیں جنہیں دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے لوگ یہاں آتے ہیں۔ اس سفر کے لیے ہم نے مشہور انتھروپولوجسٹ اور کئی کتابوں کے مصنف محترم ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو کو اپنے ساتھ چلنے کی تکلیف دی ہے۔
ہم نے کوہستانی سندھ کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کلہوڑو صاحب کو اس لیے چنا کیونکہ کراچی ان تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ تو جب تک اطراف میں پھیلے قدیم تاریخی مقامات سے متعلق ہمیں معلومات نہیں ہوگی تب تک گزرے زمانے کے منظرناموں کی صاف اور درست تصویر ہمارے ذہن میں نہیں بن پائے گی۔ اس سفر میں ہم سُست مسافر کی طرح فقط دو باتیں کرکے پورا دن گزارنے والے نہیں ہیں۔ ہم جب سفر پر نکلے تھے تو ہم سب نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم کوشش کریں گے کہ جتنا ممکن ہوسکے ہم اُتنا گزرے زمانوں کی گہرایوں میں جائیں اور اب تک جو تحقیقی کام ہوا ہے اس کی سائنسی بنیادوں پر معلومات حاصل کریں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس وقت ہم آخری پڑاؤ تک پہنچے تب تک ہم سب یہ جان چکے ہوں کہ سندھ کے سمندری کناروں نے وقت کے کیسے کیسے رنگ دیکھے، کیسے کیسے سُکھ اور دُکھ دیکھے اور وہ کیا خوش قسمتی تھی جس نے انسان کی ارتقائی بستیوں والے سمندری کناروں اور پہاڑیوں کو دنیا میں ایک شاندار اور میگا سٹی کا اعزاز بخشا۔ مگر یہ ابھی بہت دور کی باتیں ہیں۔
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ روشنیوں میں ڈوبے اس شہر کے گِرد تاریخ سے پہلے کے زمانے کی کچھ سائٹس ابھی بچی ہوئی ہیں اور خوش قسمتی سے ان پر ابھی لینڈ مافیا نے قبضہ نہیں کیا ہے۔ ہمارے یہاں قدیم سائٹس کو تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کا جو حال ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ اہم سائٹس جو بے یارومددگار پڑی ہیں اُن پر ضرور قبضہ ہوجائے گا اور پھر آپ یہ بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ اس لیے یہ مناسب ہے کہ کبھی کبھار ٹھنڈے اور گرم کمروں اور گھروں سے نکل کر ان مقامات کو ضرور وزٹ کریں کیونکہ یہ ہمارا اثاثہ ہیں۔ یہ آپ کو بار بار اپنے پاس بلائیں گی مگر پتا نہیں ان کی آواز آپ تک پہنچتی بھی ہیں یا نہیں۔ یا پھر وہ آوازیں آپ تک پہنچتی ہوں مگر آپ آج کل پر ٹال دیتے ہوں؟ اور یونہی پلک جھپکتے وقت گزر جاتا ہے۔
اب ہم اینتھروپولوجسٹ کلہوڑو صاحب سے کراچی کے میگالتھس (Megaliths) سے متعلق باتیں کریں گے۔ میرے سامنے ڈکشنری آف کیمبرج موجود ہے جس میں میگالتھک لفظ کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے ’ایک بڑا سنگی ستون، کبھی اسے اکیلا اور کبھی چھوٹے سنگی ستونوں کے ساتھ زمین میں گاڑا جاتا ہے، پتھر کے زمانے کے لوگ اس کو مذہبی اور سماجی روایات کی بنا پر اہم اور مقدس سمجھتے تھے‘۔
کراچی گڈاپ کے تاریخی مقامات پر میں طویل عرصے سے مسلسل تحقیق کے حوالے سے سفر کر رہا ہوں۔ میں نے یہاں تاریخ سے پہلے کے زمانے کی کئی آبادکاری کے مقامات دیکھے ہیں۔ ہم جب تاریخ سے پہلے کے مقامات کی بات کرتے ہیں تو ہم ان انسانی سرگرمیوں کی بات کررہے ہوتے ہیں جن کا ریکارڈ موجود نہیں ہے یا ریکارڈ جمع کرنے سے پہلے کی انسانی سرگرمیوں کے زمانہ تقریباً 25 لاکھ سال پہلے 1200 قبل مسیح تک کا ہے یعنی پتھر، کانسی اور لوہے کے زمانے تک۔ یہ تحصیل ایسی تاریخی یادگاروں سے بھری پڑی ہے۔
چونکہ ہم یہاں میگالتھک کے حوالے سے بات کریں گے تو یہاں یادگار پتھروں کے دائرے، قطاریں اور لمبے بڑے سنگی ستون اہم ہیں۔ یہ بڑے سنگی ستون اُن زمانوں کی عکاسی کرتے ہیں جب تحریر کے حوالے سے انسان بالکل بھی نابلد تھا۔ مگر ایک دوسرے سے جدا ہونے کی کیفیت انسان کے اندر پنپتی تھی اور وہ جدا ہونے والوں کو بھلانا نہیں چاہتا تھا۔ تو ابتدائی انسان نے اپنے قریبیوں کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کے لیے بڑے وزنی سنگی ستون گاڑے جن کی عمریں یقیناً انتہائی بڑی ہیں۔ کراچی میں سنگی ستونوں (Menhirs) پر مخصوص گول دائروں (Cupules) کے نشان بنائے گئے ہیں جسے مرنے والے کی نسل یا شخصیت یا کسی کارنامے کی تعریف سمجھنا چاہیے۔
پاکستان کے دیگر حصوں جیسے ضلع غذر کی وادی یاسین، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا کی وادی سوات سے بھی میگالتھس سائٹس دریافت ہوئی ہیں۔ کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی میگالتھ سائٹس ملیں۔ خاص طور پر تھانہ بولا خان، مول، تونگ، مال ماڑی، جوہی، سہون، جبکہ تھرپارکر کے مٹھی کے علاقوں میں بھی ایسے قدیم مقامات ملتے ہیں۔ ٹھٹہ ضلع میں جنگ شاہی اور ننگرپارکر کے مقام پر بھی کندہ شدہ سنگی ستون دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں میگالتھس پر کپیول اور کندہ کاری ہوتی ہے۔ تھانہ بولا خان اور جوہی میں اس طرح کے کئی میگیلیتھک ڈھانچے ہیں جن میں پیٹروگلیفس (پتھروں پر کی گئی نقاشی، گراف اور تصاویر) کی گئی ہیں۔
تھانہ بولا خان تحصیل کی زمین سے گزرنے والے اہم پہاڑی برساتی بہاؤ باران، ڈیسوئی، ڈرگ، لویاچھ، مورائی اور مول ہیں۔ مول ٹاؤن، جس کا نام مول نئے سے اخذ کیا گیا ہے، آثار قدیمہ کے مطابق یہ بہت مالا مال ہے۔ مول کا بہاؤ 2 ہزار فٹ کی بلندی سے شروع ہوتا ہے اور جنوب کی طرف بہتا رہتا ہے یہاں تک کہ خدیجی کے ساتھ مل جاتا ہے اور پھر یہ بہاؤ مرکزی ملیر نئے سے مل جاتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ بہاؤ مشرق کی طرف تھوڑے سے فاصلہ پر گزری کریک کے راستے سمندر میں گرتا تھا۔
مول نئے کے دونوں کناروں پر بڑی تعداد میں قدیم آباد کاری کے مقامات، راک آرٹ سائٹس، میگیلتھک ڈھانچے اور قبل از اسلام اور اسلامی دور کے مقبرے واقع ہیں اور ساتھ ان بہاؤں میں بڑی تعداد میں گبربند (قدیم ڈیم) بھی ملتے ہیں۔ یہاں دو گول گڑھے والی قبریں ہیں جہاں مقامی لوگوں نے خزانہ ملنے کی امید میں غیر قانونی طور پر کھدائی کی تھی۔ دونوں قبریں مول ٹاؤن سے تقریباً 10 کلومیٹر شمال میں دو برساتی بہاؤں مول اور ڈرگ کے درمیان واقع ہیں۔ ’ڈرگ نئے‘ مول نئے کی ایک معاون ندی ہے۔ دونوں ندیوں کے قریب بہت سے لمبے سنگی ستون دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میں یہاں کے کچھ اہم مقامات کے متعلق آپ کو بتاتا چلوں۔
بپرو ریک (بُٹھی) پہاڑی: اس کی اونچائی 15 میٹر ہے۔ پورے پہاڑی قبل از اسلام دور کی قبروں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہاں کی قبریں مشرق سے مغرب کی طرف ہیں۔ پہاڑی کے شمالی جانب پتھر کے گول دائرے میں بکھرے آثار ہیں لیکن مقامی لوگوں نے غیر قانونی طور پر کھود کر اُس کی اصل شکل بگاڑ دی ہے۔ قبر کا اندرونی اور بیرونی حصہ دونوں گول ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق، یہ پتھر کا گول ڈھانچہ تھا جو چھ فٹ اونچا تھا اور اس کا ایک دروازہ مشرق کی طرف کھلتا تھا۔ پتھروں کی گول قبروں کی اندرونی دیواروں میں سلیب ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے ہیں جن میں مرنے والے کی تدفین بالکل ایسی حالت میں کی گئی جس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ کنکال کے سر کے قریب مٹی کے چھوٹے برتن اور بیل کے پکی مٹی کے مجسمے (Terracotta) رکھے گئے تھے۔
گول قبروں کے جنوب میں تین کھڑے سنگی ستون واقع ہیں۔ مرکزی ستون جس کی لمبائی 10 فٹ کے قریب ہے اور وہ دیگر ستون سے لمبا ہے۔ دیگر ستون، مرکزی ستون سے چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی اونچائی بالترتیب چھ اور تین فٹ ہوتی جاتی ہے۔ ان ستونوں کے قریب چند گول ڈھانچے بھی واقع ہیں جن میں سے ایک کی کھدائی کی گئی ہے۔ ان گول ڈھانچوں میں سے مٹی کے برتنوں کے نمونے ملے ہیں جن کا تعلق کوٹ ڈیجی ثقافت سے ہے۔
شیخانی پہاڑی: یہ بپروریک سے 500 میٹر مغرب میں واقع ہے۔ اس پہاڑی (بُٹھی) کی اونچائی تقریباً آٹھ میٹر ہے۔ اس کے دامن میں چند قبریں دیکھی جاسکتی ہیں جن کا رخ مشرق و مغرب کی طرف ہے۔ پہاڑی کی چوٹی پر ایک گول گڑھے والی قبر نظر آتی ہے جس کی صورت بھی خزانے کی تلاش کرنے والوں نے کھدائی کرکے بگاڑ دی ہے۔
گول قبر کی گہرائی تقریباً 1.5 میٹر ہے جبکہ قطر دو میٹر ہے۔ پتھر کی گول قبر 5 فٹ اونچی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پتھر کے سلیب کی بیرونی سطح پر ہتھوڑے کے نشانات نظر آتے ہیں۔ قبر کی اکھڑے ہوئی ایک سلیب پر تین Cupules کے نشان ملتے ہیں۔ کپیول جنازے کی رسومات سے وابستہ دکھائی دیتے ہیں۔ بیل کے چھوٹے مجسمے اور مٹی کے پکے برتن (Terracotta) بھی ملے ہیں۔ مجھے صرف مٹی کے برتن دکھائے گئے جوکہ کوٹ ڈیجی کے دور کے ہیں۔ اسی طرح ’چاکھری (Chakhari) نئے‘ جوکہ مول نئے کا ایک معاون برساتی بہاؤ ہے، اُس کے قریب بھی مجھے اس طرح کی قبروں کے نشانات ملے ہیں۔
میں نے مہر، ٹکو باران، بیلی تھاپ اور تونگ کی وادیوں میں بھی پتھر کے اس طرح کی کئی گول ڈھانچے والی قبریں دیکھی ہیں۔ تحصیل تھانہ بولا خان کی وادی ریک، گاج اور نالی کی وادیوں میں بھی پتھر کے کچھ گول ڈھانچے موجود ہیں۔ ان میں سے پتھر کی سب سے بڑی گول ساخت والی تعمیر وادی گاج کے روحیل جی کنڈ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ان قدیم تعمیرات پر ابھی تک کوئی بنیادی تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔ البتہ مسٹر فیئرسرویس (Fairservis) نے بلوچستان کے لسبیلو اور مکران میں اسی طرح کے گول ڈھانچوں کا مطالعہ کیا اور ان ڈھانچوں کا تعلق موت کی رسومات سے جوڑ دیا۔ قبروں کی شکل اور قبروں میں پائے جانے والے مٹی کے برتن اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ تمام گول اور گنبدی تعمیرات انتہائی قدیم ہیں کیونکہ کسی بھی پہاڑ کی سطح پر کوئی لتھک (Lithic) مواد یا مٹی کے برتن نہیں ملے ہیں۔ مٹی کے برتن صرف قبروں کے اندر پائے گئے تھے اور یہ مٹی کے برتن کوٹ ڈیجی زمانے (3200-2800 قبل مسیح) سے تعلق رکھتے ہیں۔
سندھ کوہستان میں کوٹ ڈیجی آبادکاری کے مقامات، کوہتراش اور پھنگ پر دیکھے جاسکتے ہیں جن پر سب سے پہلے مجمدار (1934ء) اور بعد میں فلیم لوئس (1981ء) نے تحقیق کی۔ اس کے علاوہ اور کئی دیگر قبل از تاریخ کے آثار ہیں جن میں سے گبربند بھی اہم ہیں جن کا فلیم لوئس اور ہاروے (1993ء) نے بھی مطالعہ کیا تھا۔ ان کی تحقیقات کے مطابق پتھر کے گول دائرے والی قبروں اور اُن میں سے ملنے والے مٹی کے پکے چھوٹے مجسموں کا تعلق کوٹ ڈیجی کے زمانے سے ہے۔
اگر ہم پتھروں پر نقاشی کی بات کریں تو یہ قدیم ترین پیٹروگلیفس تقریباً 12 ہزار سال پہلے پلیسٹوسین سے ہولوسین تک منتقلی کے دور کے اوائل میں تخلیق کیے گئے تھے اور ماضی قریب تک ہزاروں سالوں میں جن مقامی لوگوں کا ان پہاڑیوں اور ریگستان میں بسیرا ہے وہ ابھی تک اس طرح کی نقاشیاں پتھروں پر کرتے ہیں۔ ان ستونوں اور ان پر بنے نقش و نگاروں کے متعلق میں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتاتا ہوں۔ جامشورو کی تحصیل تھانہ بولا خان میں ان سنگی ستونوں کی باریجا قبیلے کے لوگ پوجا کرتے ہیں۔ جب بارش نہیں ہوتی تو بارش کو لانے کے لیے بکری ذبح کرتے ہیں اور اس کا خون ستون پر چھڑکتے ہیں اور ستون کی پوجا کی جاتی ہے اور بارش لانے کے لیے پکارا جاتا ہے۔ اسی طرح مول کے کنڑا قبیلے کے لوگ بھی ان میگالتھ کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ اُس قدیم زمانے کی شاخ زریں ہیں جو ہزاروں برسوں بعد بھی ابھی تک ہری ہے۔
اب ہم سندھ کے کوہستانی علاقے کے اس مختصر سفر کے بعد کراچی لوٹ آتے ہیں جہاں گڈاپ تحصیل قدیم انسان کے ابتدائی میگلتھس مقامات سے بھری پڑی ہے۔ تمام مقامات کا تو نہیں البتہ کچھ اہم مقامات کا میں آپ کو ضرور بتانا چاہوں گا۔
تھوہر کنارو گاؤں: کراچی سے 50 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور میگالیتھک یادگاروں کے لیے مشہور ہے۔ گاؤں کے جنوب، شمال اور مشرق میں تین میگالیتھک سائٹس موجود ہیں۔ مرکزی میگالیتھک کمپلیکس گاؤں کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ پتھر کا دائرہ، ایک مربع ڈھانچہ، سنگی ستون، اور چھوٹے سنگی ستونوں کی دو قطاریں ہیں۔ پتھروں کے اس دائرے کو بنانے کے لیے تقریباً 19 سنگی ستون استعمال کیے گئے تھے۔
تین بڑے ستون خستہ حالت میں زمین پر پڑے ہیں۔ اس کا قطر 68 فٹ ہے، جو سندھ میں اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا پتھر کا دائرہ ہے۔ پتھر کے دائرے کے جنوب میں ایک مربع ڈھانچہ ہے جسے مقامی طور پر کوٹیرو کہتے ہیں۔ اس طرح کے مربع ڈھانچے صوبہ سندھ کے علاقے سندھ کوہستان میں باکثرت پائے جاتے ہیں۔ مربع ڈھانچے کا مرکزی دروازہ مشرق کی طرف کھلتا ہے۔ دیواروں کی اونچائی تین فٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس مربع ڈھانچے کے قریب کچھ قدیم مستطیل قبریں اور سنگی ستونوں کی دو قطاریں ہیں۔
پہلی کی قطار میں 6 یک سنگی ستون اور دوسری میں 5 یک سنگی ستون ہیں۔ دونوں قطاریں مشرق سے مغرب کی طرف ہیں۔ آپ کو یہاں تین چار ایسے سنگی ستون بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن پر قدیم انسان کی کچھ تراشیدہ لکیریں ہیں جن میں کچھ کہنے کی کوشش کی گئی ہے ساتھ میں آپ کو ان پر گول دائرے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایسے سنگی ستون جن پر کچھ تراشا گیا ہو اور گول دائرے بھی ہوں، ہندوستان میں اُن مقامات سے ملے ہیں جوکہ محققین قدیم انسان کی بستیوں کے حوالے سے جانتے ہیں۔
تھوہر کناروں کے دو سنگی ستونوں پر انسانی تصویر بنانے کی ایک اچھی کوشش، ہندسوں کے نقش اور چار گولائی میں نظر آنے والے پیٹرن کے دلچسپ نقش و نگار بھی ہیں۔ نیچے سے اوپر تک پوری سطح ایسے چار نقطوں سے کندہ ہے۔ یہ بنائے ہوئے نقش اور کنندہ آڑی ترچھی لکیریں اس قدیم وادی میں رہنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھیں جس نے آگے چل کر روحانی (Animistic) عقیدوں کی ایک نئی دنیا کو جنم دیا۔
ابھی گڈاپ کے کچھ اور میگالیتھکس مقامات کا ذکر باقی ہے۔ آپ نے آج کے اس سفر میں Terracotta اور Proto-writing code یا Petroglyphs کے الفاظ پڑھے ہیں تو آپ سمجھ لیں کہ ارتقائی انسان کے ذہن کے یہ تین دروازے تھے جن کے کھلنے سے بہت سی نئی دنیاؤں کی تار و پود ہونے والی تھی اور انہیں دنیاؤں کی پگڈنڈیوں سے چل کر ہم نے ترقی کی نئی جہتوں کو ڈھونڈ نکالا۔ اور یہ سفر تھا ذہنی ترقی کا جس میں ان تین لفظوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ جلد ہی ملتے ہیں تاریخ کی انہی پیچیدہ پگڈنڈیوں پر۔
حوالہ جات
- بندہ بشر۔ نوح ہراری۔ سٹی بک پوائنٹ، 2019۔ کراچی
- شاخ زریں۔ سر جیمز جارج فریزر۔ نگارشات، 2012۔ لاہور
- Archaaeology, Art and Religion in Sindh. Zulfiqar Ali Kalhoro. 2018.Culture Department of Sindh.
- The Rock Art of Karachi. Zulfiqar Ali Kalhoro. 2020. CultureDepartment of Sindh.
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔