دنیا

غزہ میں اسرائیلی جارحیت: صحت کا بدترین بحران مریضوں کیلئے مزید سنگین

تحریر اعظم کو ان کی دادی 5 اکتوبر کو ان کے آپریشن کے لیے مقاصد ہسپتال کے کر آئی تھیں جہاں وہ اپنے والدین سے رابطہ نہیں کر پارہی ہیں، رپورٹ

مشرقی یروشلم کے مقاصد ہسپتال میں نرس تحریر اعظم 16 سال سے کم سن اور شدید بیمار فلسطینی مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔

خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق 7 اکتوبر سے غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری کے دوران تحریر اعظم اب ان مریضوں کو ڈھونڈنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق عام طور پر غزہ میں روزانہ تقریباً 100 مریض صحت کی پیچیدہ ضروریات کی سہولت جیسے موذی کینسر کے علاج اور اوپن ہارٹ سرجری مقاصد جیسے ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے، اسرائیل اور دیگر ممالک میں حاصل کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ عمل 7 اکتوبر کے بعد رک گیا ہے، جب حماس نے غزہ کی سرحد پر باڑ توڑ دی تھی، جس کے بعد اسرائیل کے اندر تقریباً ایک ہزار 400 افراد ہلاک اور تقریباً 240 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

اسرائیل نے جواب میں غزہ کا مکمل محاصرہ کیا، ساحلی پٹی پر بمباری کی اور زمینی حملہ کیا، غزہ میں صحت کے حکام کے مطابق اب تک 10 ہزار سے زائد فلسطینی، جن میں 4 ہزار سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں، جاں بحق ہو چکے ہیں۔

تحریراعظم اور اس کے ساتھی تب سے اپنے مریضوں تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں فیس بک چیک کرنا بھی شامل ہے کہ آیا وہ سلامت ہیں بھی یا نہیں۔

رائٹر کو انٹرویو کے دوران مقاصد ہسپتال کی نرس نے بتایا کہ ہم نے ایک پوسٹ دیکھی جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ ہمارا ایک بیمار بچہ حملوں میں مارا گیا ہے، وہ ایک ہفتہ پہلے ہی محکمے میں آیا تھا، جن کی عمر 6 سال تھی۔

عالمی ادارہ صحت اس بات پر زور دے رہا ہے کہ طویل مدت سے زیرعلاج مریضوں میں سب سے زیادہ کمزور افراد کو علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جائے، مصر، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک نے مریضوں کو لینے کی پیش کش کی ہے۔

اسرائیل-حماس جنگ سے پہلے ہر سال تقریباً 20 ہزار مریض اسرائیل سے صحت کی دیکھ بھال کے لیے غزہ کی پٹی چھوڑنے کے لیے اجازت نامہ طلب کرتے تھے، ان میں سے اکثر کو بار بار سرحد پار جانے کی ضرورت پڑتی تھی۔

ان میں تقریباً ایک تہائی بچے شامل ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق اسرائیل نے 2022 میں ان میں سے تقریباً 63 فیصد افراد کی طبی بنیاد پر باہر جانے کی درخواستیں منظور کر لی گئی ہیں۔

غزہ میں صحت کی سہولیات 16 سالہ اسرائیلی محاصرے، ناکہ بندی اور بار بار کی لڑائی میں جکڑا ہوا ہے۔

پچھلی جنگوں میں سرحدی گزرگاہ ایک یا دو دن کے لیے بند ہو جاتی تھی لیکن پھر مریضوں کی دوبارہ آمد رفت ہو جاتی تھی، مقاصد ہسپتال کے سپروائزر اسامہ قدومی نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب نقل و حرکت پر اتنی جامع پابندی عائد کی گئی ہے اور غزہ کے مریض وہاں سے باہر منتقل نہیں ہوسکتے ہیں۔

اسامہ قدومی نے مزید کہا کہ ہمارا انتظار طویل ہوگیا تو چند مریضوں کی حالت اتنی ہی زیادہ خراب ہو جائے گی، کئی لوگ محض علاج تک رسائی نہ ہونے پر دم توڑ دیں گے۔

تشویش ناک صورت حال

رپورٹ کے مطابق تشویش صرف انتہائی پیچیدہ معاملات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں کینسر اور ذیابیطس سمیت 3 لاکھ 50 ہزار دائمی امراض کے شکار افراد کے ساتھ ساتھ 50 ہزار حاملہ خواتین بھی موجود ہیں۔

اس سے قبل اکثر مریضوں کو غزہ میں ہی طبی سہولیات میسر ہو سکتی تھیں لیکن اب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ علاقے کا مخدوش نظام صحت تباہی کے دہانے پر ہے، فضائی حملوں سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور ادویات اور ایندھن کی فراہمی بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ معمولی امداد کی فراہمی جبکہ صرف 80 مریضوں کو باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔

غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے لیے عالمی ادارے کے نمائندے ڈاکٹر رچرڈ پیپرکورن نے گزشتہ ماہ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم ہمیشہ جنگ سے متاثر ہونے والے مریضوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو بالکل درست ہے لیکن ہمیں 3 لاکھ 50 ہزار مریضوں کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ کچھ ضروریات شدید ہوتی ہیں، غزہ میں تقریباً ایک ہزار مریضوں کو زندہ رہنے کے لیے گردے کے ڈائیلاسز کی ضرورت ہے لیکن مقامی ہسپتالوں میں موجود 80 فیصد مشینیں انخلا کے احکامات پر ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ غزہ کا واحد کینسر ہسپتال اب کام نہیں کر رہا ہے، اسرائیل کی فوج نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ شمالی غزہ سے نکل جائیں، جہاں متعدد ہسپتال واقع ہیں کیونکہ وہ حماس کو ختم کرنے کی مہم چلا رہی ہے، فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس نے اپنے کمانڈ سینٹرز کو ہسپتالوں کے نیچے چھپا رکھا ہے جبکہ حماس اس دعوے کی تردید کرتی رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ جنگ سے قبل علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے والے تقریباً 400 مریض اور ان کے ساتھی مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں پھنسے ہوئے ہیں، غزہ میں موبائل سروس اور بجلی کی تعطلی کے باعث شہری اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

اپنی 6 سالہ پوتی حالاکو ان کی ریڑھ کی ہڈی کے تیسرے آپریشن کے لیے 5 اکتوبر کو مقاصد ہسپتال لے کرآنے والی ام طحہ الفراح نے کہا کہ میں انہیں یہ نہیں بتا سکی کہ سرجری کیسے ہوئی، حالا کی والدہ کو اس کے ساتھ ہسپتال جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔

ام طحہٰ کا کہنا تھا کہ جب حالا کے والد فون کرتے ہیں تو صرف ایک یا دو منٹ بات ہو پاتی ہے اور لائن کٹنے سے پہلے پوچھتے ہیں کہ حالا کیسی ہیں؟ میں کہتی ہوں کہ خدا کا شکر ہے، اور بس۔

حالا کو اپنے والدین اور اپنے گھر کی یاد آتی ہے، انہوں نے ایک آئس کریم، ایک خرگوش اور ایک چھوٹی بچی کی ڈرائنگ تھامی ہوئی ہے، ڈرائنگ میں ایک بلبلے کے اندر لکھا ہوا ہے کہ میں اپنی امی اور ابو سے سے محبت کرتی ہوں۔

ام طحہٰ نے بتایا کہ میں نہیں جانتی کہ میرے خاندان میں کون زندہ ہے؟ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے سب کچھ نہیں بتا رہے ہیں۔

یو یو ہنی سنگھ اور شالنی تلوار کی شادی طلاق پر ختم

’ناانصافی کے شکار‘ میتھیوز کا کرکٹ کونسل سے انصاف کا مطالبہ

سندھ کا غیر قانونی تارکین وطن کو بذریعہ ٹرین افغانستان بھیجنے کا فیصلہ