فلسطین اور حماس کے جہاد کے ساتھ ہیں، شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا اعلان کرتے ہیں، فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہم فلسطین اور حماس کے جہاد پر فخر کرتے ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا برملا اعلان بھی کرتے ہیں۔
کراچی میں طوفان الاقصیٰ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمیں جو میراث ملی ہے وہ آزادی اور حریت ہے اور جمعیت علمائے اسلام کا منشور کہتا ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی قوم اپنی آزادی کی جنگ لڑے گی تو جمعیت علمائے اسلام اس کے مؤقف کی حمایت کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور برصغیر کے لیے جہاد ہماری تاریخ ہے لیکن آج کچھ ترجیحات بدل گئی ہیں، اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے، انگریز بھی ہمیں دہشت گرد کہتا تھا لیکن اس کے خلاف آزادی کی جنگ پر ہم فخر کرتے ہیں، ہم نے برصغیر سے انگریزوں کو بھگایا۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں روس آیا تو لوگوں کو دہشت گرد کہا گیا لیکن ہم نے مجاہد کہا، امریکا آیا تو افغانوں کو دہشت گرد کہا لیکن ہم نے ان کو مجاہد کہا، آج مجاہد فت حیاب ہے، روس اور امریکا دونوں کو شکست ہوتی ہے، لوگ امریکا کو عالمی طاقت کہتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ عالمی طاقت افغانستان کی سرزمین پر شکست خوردہ ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ افسوس اس بات پر ہے کہ جب فلسطین کے مجاہدین نے 7 اکتوبر کو فلسطین پر حملہ کیا تو ایک بار پھر اسرائیل کی طرف سے آواز آئی کہ یہ فلسطینی دہشت گرد ہیں، میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ریاستی دہشت گرد اسرائیل ہے اور فلسطینی مجاہد اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کل بھی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ تھے اور آج بھی ان تحریکوں کے ساتھ ہیں، ہم آزادی کے لیے کل بھی جہاد کے ساتھ تھے اور آج بھی جہاد کے ساتھ ہیں، ہم ان کے جہاد پر فخر کرتے ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا برملا اعلان بھی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے فلسطینی بھائیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے ہمیں آواز دی تو ہم نے اس پر لبیک کہا، ہم میدان میں اتر آئے ہیں ، آپ نے عوام کا سیلاب پشاور میں بھی دیکھا، کوئٹہ میں بھی دیکھا، آج کراچی میں بھی دیکھا اور پورے ملک میں یہ اجتماعات ہوں گے اور یہ سیلاب اور طوفان آگے بڑھے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اب تو الیکشن کا اعلان بھی ہو گیا ہے تو جنگ چھڑ چکی ہے، تم بھی میدان میں اور ہم بھی میدان میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نہ امریکا کی جاگیر ہے نہ اس ملک میں کسی طبقے کی جاگیر ہے، یہ عوام کی جاگیر ہے اور پاکستان کی پوری تاریخ پاکستان کے وسائل، اداروں اور پیسے کو استعمال کرتے ہوئے تم نے علما کا راستہ روکا، جمعیت علما کا راستہ روکا، ہم نے ایک طویل جدوجہد کے بعد آج عوام میں مقام پیدا کیا ہے اور اب الیکشن کے نظام میں ہم آپ کو دکھائیں گے کہ تم چوری کیسے کرتے ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ نے 2018 کے الیکشن میں دیکھ لیا کہ جعلی نتائج آئے، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ جمعیت علما ایسا ردعمل دے گی اور میں اپنے بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تو آج اسرائیل کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ہم نے تو 2018 کے بعد اسرائیلی ایجنٹ کے خلاف جنگ لڑی تھی اور آج اس کو مکافات عمل کے حوالے کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اس کے بعد معذرت خواہانہ سیاست کا دور ختم ہو چکا، اب آمنا سامنا ہو گا، دوبدو مقابلہ ہو گا، تم نے پاکستان کا چہرہ تبدیل کردیا ہے، لاکھوں مسلمانوں نے اس ملک کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا اور تم نے 75سال لا الہ الاللہ کے نعرے کا مذاق اڑایا، تمہیں اپنے کردار پر شرم نہیں آتی، اب ہم تمہیں مذاق نہیں اڑانے دیں گے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کرسی اقتدار کی ایسی حریص نہیں کہ وہ تمہاری خوش آمد اور ناجائز کو قبول کرے گی، ہم ڈنکے کی چوٹ پر اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو عالمی قوتوں کے اثرورسوخ سے آزاد کرنا چاہتے ہیں، ہم سیاسی، معاشی اور دفاعی طور پر بھی آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ملک کو آزاد اور اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں، بین الاقوامی اثرورسوخ سے نکالنا چاہتے ہیں، ہم امریکا کو بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی مرضی سے اقتدار میں نہیں آنا چاہتے۔
ان کا کہنا تھاکہ سندھ میں ڈاکوؤں کے راج اور اسٹریٹ کرائمز نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے، حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کی زندگیوں کو تحفظ دے، آپ تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ ہم سے پوچھیں کہ خیبر پختونخوا میں کیا صورتحال ہے، بلوچستان میں کیا صورتحال ہے، وہاں تو ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں، جہاں ادارے محفوظ نہ ہوں وہاں عام شہری کیسے اپنے تحفظ کا احساس کرے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کمزور ہو چکا ہے اور ملک کمزور ہو گا تو ادارے بھی کمزور ہوں گے، ہم معاشی لحاظ سے دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکے ہیں اور صوبہ خیبر پختونخوا نے تو سرکاری طور پر کہہ دیا ہے کہ ہمارے پاس لوگوں کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں، پاکستانی معیشت کو زمین بوس کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آج الیکشن کا اعلان تو ہو گیا اور خدا کرے کہ وقت پر الیکشن ہو جائیں، انتخابات غیریقینی صورتحال میں ہوں گے لیکن ہمیں سارے چیلنجز قبول ہیں، ہم میدان میں اتر چکے ہیں اور ان قوتوں کو پاکستان میں شکست دیں گے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اگر امریکا اور یورپ کھل کر اسرائیل کی حمایت میں میدان میں آ چکے ہیں اور اپنی جنگی قوت کے ساتھ میدان جنگ میں اتر چکے ہیں تو پھر اسلامی دنیا کیوں تحفظات کا شکار ہیں، اسلامی دنیا کے حکمران کیوں بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں، انہیں کس دن کا انتظار ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ چین اور روس نے فلسطین کے مجاہدوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور وہ عالمی قوتیں ہیں لہٰذا انہیں چاہیے کہ عالمی قوت میدان جنگ میں لائیں تاکہ دنیا میں طاقت کا توازن پیدا ہو اور اسلامی دنیا یکطرفہ طاقت کا شکار نہ ہو۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کانفرنس سے زوم کے ذریعے خطاب پر حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کا شکریہ ادا کیا اور ان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔