دنیا

فلسطین-اسرائیل تنازع کے حوالے سے اہم معلومات

حماس کے 7 اکتوبر کے حملے میں 1400 اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے، اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملوں میں 7ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

مشرق وسطیٰ اس وقت آگ اور خون کی لپیٹ میں ہے۔

حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے حملے کے نتیجے میں 1400 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے شروع کر دیے تھے جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے اور ان حملوں میں اب تک7 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ہزاروں زخمی ہیں۔

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے اور 23 لاکھ لوگوں کو خوراک، پانی اور ایندھن جیسے بنیادی وسائل سے محروم کردیا گیا ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور بدترین انسانی بحران جنم لے رہا ہے۔

فلسطین اور اسرائیل کے اس بحران کے دوران چند ایسے الفاظ کا استعمال بھی دیکھنے میں آیا ہے جن سے عام قاری واقف نہیں ہے اور ہم نے یہاں چند ایسے ہی الفاظ یکجا کئے ہیں جن کا ہماری خبروں میں تواتر کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے۔

اینٹی سمیٹزم (یہود دشمنی)

گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے اوول آفس سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے امریکیوں پر زور دیا تھا کہ وہ کسی اشتعال انگیزی کے بغیر اسلامو فوبیا اور اینٹی سمیٹزم(یہود دشمنی) دونوں کا مقابلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ جب ایسا ہو تو ہم کھڑے اور خاموش نہیں رہ سکتے، ہمیں بلا امتیاز یہود دشمنی کی مذمت کرنی چاہیے، ہمیں اسلاموفوبیا کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔

اینٹی سمیٹزم یہودی مذہب یا یہودیوں کے پیروکاروں کا ایک خاص نکتہ نظر ہے جہاں ان کا ماننا ہے کہ اس کو یہودیوں سے نفرت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ یہودی یا غیر یہودی افراد یا ان کی املاک، یہودی کمیونٹی کے اداروں اور مذہبی اداروں کے حوالے سے یہود دشمنی پر مبنی بیانات دینا یا ان کا اظہار کرنا ہے۔

نسلی تعصب (اپارتھائیڈ)

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پوسٹ میں کہا تھا کہ اگر اسرائیلی نسل پرستانہ جنگی جرائم اور نسل کشی روکی نہیں گئی تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔

نسل پرستی یا نسلی تعصب سے مراد کسی کو بالکل الگ کر دینا یا امتیازی پالیسی یا نظام ہے، جنوبی افریقہ کے معاملے میں یہ جنوبی افریقہ کی مکمل سفید فام حکومت کی جانب سے نسلی علیحدگی تھی جس نے یہ حکم دیا تھا کہ غیر سفید فام جنوبی افریقیوں (آبادی کی اکثریت) کو گوروں سے الگ علاقوں میں رہنے اور علیحدہ عوامی سہولیات استعمال کرنے کی ضرورت تھی اور دونوں گروپس کے درمیان رابطہ محدود ہوگا، مختلف نسلی گروہوں کو ان کے مقام، عوامی سہولیات اور سماجی زندگی کے لحاظ سے الگ کر دیا گیا تھا۔

بالفور اعلامیہ

بالفور اعلامیہ 1917 میں برطانوی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک عوامی بیان تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی گھر کے قیام کی حمایت کا اظہار کیا گیا تھا، جہاں یہ مقام اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا، اس اعلامیہ کا نام آرتھر بالفور کے نام پر رکھا گیا تھا جو اس وقت برطانوی وزیر خارجہ تھے۔

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس اعلامیے میں اس وقت فلسطین میں رہنے والی عرب آبادی کے حقوق اور خواہشات کو نظرانداز کیا گیا تھا، یہ ایک متنازع دستاویز ہے جس نے 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

فلسطینی نژاد امریکی اسکالر ایڈورڈ سعید نے اس حوالے سے کہا کہ یہ اعلان ایک یورپی طاقت کی طرف سے ایک غیر یورپی علاقے کے بارے میں کیا گیا تھا اور اس علاقے میں مقامی اکثریتی باشندوں کی موجودگی اور خواہشات دونوں کو نظر انداز کیا گیا تھا، اور اسی علاقے کے بارے میں ایک اور غیر ملکی گروہ سے وعدہ کیا گیا کہ یہ غیر ملکی گروہ اس علاقے کو واقعتاً یہودیوں کے لیے قومی گھر بنا سکتا ہے۔

بائیکاٹ، اثاثوں کی فروخت اور پابندیاں (بائیکاٹ، ڈائیویسٹمنٹ اور سینکشنز)

بائیکاٹ، اثاثوں کی فروخت اور پابندیاں ایک فلسطینی سول سوسائٹی کی تحریک ہے جس کا مقصد فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی جبر کی بین الاقوامی حمایت کا خاتمہ کرنا ہے۔ نسل پرستی کے خلاف جنوبی افریقہ کی جدوجہد سے متاثر ہو کر قائم کی گئی اس تنظیم کا مقصد اسرائیل پر دباؤ ڈالنا اور اس کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی پابندی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

بائیکاٹ میں اسرائیل کی حکومت سے حمایت واپس لینا، فلسطینی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات میں ملوث اسرائیلی اداروں اور بین الاقوامی کمپنیوں کو شامل کرنا شامل ہے، اثاثوں فروخت یا ڈائیویسٹمنٹ کا مقصد اسرائیل اور ایسی کمپنیوں سے فنڈز کی تخفیف کی کوشش کرنا ہے جو اسرائیلی نسل پرستی میں کردار ادا کرتی ہیں۔

پابندیوں کی مہم کا مقصد غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کے ساتھ کاروبار پر پابندی لگا کر فوجی اور آزاد تجارت کے معاہدوں کو ختم اور اقوام متحدہ کے اداروں اور فیفا جیسے بین الاقوامی فورمز میں اسرائیل کی رکنیت کو معطل کر کے حکومتوں کو مجبور کرنا ہے۔

استعماریت

نوآبادیات یا استعماری نظام ایک ایسی مشق ہے جس کے ذریعے تسلط قائم کیا جاتا ہے اور اس میں لوگوں کو دوسرے کے تابع کرنا شامل ہے اور اکثر شمالی امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، افریقہ، بھارت اور برازیل کے نوآبادیاتی نظام کو بیان کرنے کے لیے اس اصطلاح کا استعمال کیا جاتا ہے جہاں یہ تمام مقامات ایک بڑی مستقل یورپی کے زیر کنٹرول تھے۔

کالونی کی اصطلاح لاطینی لفظ colonus سے نکلی ہے، جس کا مطلب کسان ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ نوآبادیاتی نظام میں عام طور پر آبادی کو ایک نئے علاقے میں منتقل کرنا شامل ہے، جہاں اس جگہ آنے والے افراد اپنے آبائی ملک سے سیاسی وفاداری برقرار رکھتے ہوئے مستقل آباد کاروں کے طور پر رہتے تھے۔

نسل کشی

فلسطین میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیس نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل پہلے ہی اس جنگ کی دھند میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر اپنے دفاع کے نام پر اسرائیل نسل کشی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

نسل کشی افراد کے ایک مخصوص گروہ کے خلاف طے شدہ پالیسی ہوتی ہے جس کے تحت کسی دوسرے گروہ کو کسی مخصوص علاقے سے مذہبی، نسلی یا قومی بنیادوں پر منظم طریقے سے ختم کیا جاتا ہے، اس طرح کی پالیسی میں تشدد کا عنصر شامل ہوتا ہے اور اکثر اس کا تعلق فوجی کارروائیوں سے ہوتا ہے۔

غزہ کی پٹی

غزہ ایک ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے، 1917 تک یہ پٹی سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ رہی اور گزشتہ صدی کے دوران برطانویوں سے مصر اور پھر اسرائیلی فوجی حکمرانی تک منتقل ہوا اور اب یہ ایک حفاظتی باڑ کا حامل ایک ایسا علاقہ ہے 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔

قتل عام

اس ماہ کے اوائل میں نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اقوام متحدہ کے قتل عام یا نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن کا آرٹیکل 2 بھی اس حوالے سے واضح طور پر قتل عام کی تفصیل بیان اور اسے جرم قرار دیتا ہے۔

گولان کی پہاڑیاں

گولان کی پہاڑیاں جنوب مغربی شام میں ایک چٹان نما سطح مرتفع ہے، جو دمشق سے تقریباً 60 کلومیٹر (40 میل) جنوب مغرب میں واقع ہے اور تقریباً 1ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے، اس کی ایک سیاسی اور اسٹریٹیجک اہمیت ہے جو اس کے حجم پر مبنی ہے۔

اسرائیل نے 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے اختتام پر اسے شام سے چھین لیا تھا، تنازع کے دوران بہت سے شام کے عرب باشندوں نے یہاں سے ہجرت کر لی تھی، اسرائیل کے 1981 کے الحاق کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور شام ابھی تک اپنے علاقے کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔

یہ علاقہ دوبارہ فساد کی جڑ اس وقت بنا جب شامی قصبہ، جو اسرائیل کے زیر قبضہ گولان ہائٹس کے بیت جن میں واقع ہے، میں حالیہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں2 لوگ جاں بحق ہوگئے تھے۔

واپسی کا عظیم مارچ

مارچ 2018 سے دسمبر 2019 کے درمیان غزہ کی پٹی پر فلسطینیوں نے ’واپسی کے عظیم مارچ (جی ایم آر)کے مظاہرے کیے جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو ان کے ان گاؤں اور قصبوں تک رسائی کا حق دیا جائے جو اب اسرائیل کا حصہ ہیں اور ناکہ بندی کا خاتمہ کیا جائے۔

ان مظاہرون میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے تھے جو جمعے کے روز یا مخصوص مواقعوں پر سرحدی باڑ سے ملحقہ5 نامزد مقاموں پر جمع ہوتے تھے، ساتھ ہی ہفتے کے دوران ساحل سمندر اور رات کے وقت باڑ کے نزدیک دیگر مقامات پر چھوٹے احتجاج ہوتے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں حالیہ تنازعے کے چلتے 14 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جو کہ پوری پٹی کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 13 کے مطابق سب کو یہ حق حاصل ہےکہ وہ اپنے ملک واپس لوٹے۔

ہیبرون معاہدہ اسرائیل اور فلسطین کی آزادی کی تنظیم (پی ایل او) کے مابین 1997 میں دستخط کردہ ایک معاہدہ ہے، اس کا مقصد مغربی کنارے میں واقع شہر ہیبرون کے حفاظتی اور انتظامی امور کو حل کرنا تھا۔

اس معاہدے کے تحت ہیبروں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا، پہلا ایچ 1 جو فلسطین کی انتظامیہ کے کنٹرول میں تھا اور دوسرا ایچ 2 جس کو اسرائیلی فوجی کنٹرول کرتے تھے۔

انگریزی زبان کی ویب سائٹ ’دا نیو عرب‘ نے مغربی کنارے پر واقع ہیبرون شہر کو ’چھوٹے پیمانے پر اسرائیلی قبضے‘ کا نام دیا۔

ہولوکاسٹ

اسرائیلی صدر بنجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر جو بائیڈن کو کہا کہ حماس کا 7 اکتوبر کا حملہ ہولوکاسٹ کے بعد سب سے زیادہ وحشیانہ تھا۔

ہولوکاسٹ میں جرمن نازی پارٹی، حصہ داروں اور اتحادیوں کی جانب سے منظم طریقے سے ظلم و ستم اور 60 لاکھ سے زائد یورپی یہودیوں کا قتل کیا گیا، ہولوکاسٹ کے تحت یہ ظلم 1933 سے 1945 تک پورے یورپ میں ہوا۔

انتفادہ

لفظ انتفادہ کے لغوی معنی ’ہلانے‘ کے ہیں مگر جب وہ تنازع کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ’بغاوت‘ یا ’مقبول مزاحمت‘ ہو جاتا ہے۔

پہلا انتفادہ دسمبر 1987 میں ایک ٹریفک حادثے کے بعد شروع ہوا جس میں غزہ کے جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں ایک اسرائیلی ٹرک فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی گاڑی سے ٹکرا گیا، جس میں چار افراد ہلاک ہوئے، اس کے بعد پتھراؤ، ہڑتالیں اور شٹر ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا، یہ 1991 میں میڈرڈ کانفرنس کے ساتھ ختم ہوا حالانکہ کچھ تاریخوں کے مطابق اس کا باقاعدہ خاتمہ 1993 میں اوسلو معاہدے کے آغاز کے ساتھ ہوتا ہے، تشدد میں کم از کم 1500 فلسطینی اور 400 اسرائیلی مارے گئے۔

دوسرا یا الاقصی انتفادہ 2000 میں شروع ہوا اس کے بہت سے اقدامات اور اثرات آج بھی ظاہر ہو رہے ہیں، مگر زیادہ ترحکام نے جولائی 2005 کی آخری تاریخ اس کے اختتام کے لیے مقرر کی، اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد میں کم از کم 3ہزار فلسطینی اور 1ہزار اسرائیلی مارے گئے تھے۔

ڈان اخبار کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی اسرائیلی حملوں میں اموات کی تعداد پہلے اور دوسرے انتفادہ کی مشترکہ ہلاکتوں سے زیادہ ہوگئی ہے۔

آئرن ڈوم

اکتوبر 24 کو وزارت دفاع کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ پینٹاگون اسرائیل کی حمایت کو بڑھاتے ہوئے انہیں مکمل فضائی دفاعی سسٹم آئرن ڈوم مہیا کرے گا۔

آئرن ڈوم اسرائیل کے دفاعی سسٹم کا ایک حصہ ہے، اسے آنے والے راکٹوں پر وار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،آئی ڈی ایف کے مطابق 2007 سے 2009 کے درمیان بننے والے آئرن ڈوم کی کامیابی کا تناسب 95.6 فیصد ہے۔

اسلامو فوبیا

اسلامو فوبیا مسلمانوں اور اسلام سےوہ شدید خوف اور دشمنی ہے جو اکثر نفرت انگیزی، نفرت پر مبنی جرائم اورسماجی اور سیاسی امتیازی سلوک تک لے جاتا ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے برج انیشی ایٹو کے مطابق ،کثیر سالوں سے اسے بڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی،گرفتاری ، حق رائے دہی سے محرومی اور مقامی اور بیرونی پالیسی پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

اسلامو فوبیا کو 1990 کے آغاز میں سیاسی کارکنان کی جانب سے ایک تصور کے طور پر بنایا گیا تھا جس کا مقصد مغربی لبرل جمہورتوں میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں بیان بازی اور اقدا م کی طرف توجہ دلانا تھا۔

اقوام متحدہ 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے جنگ کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے۔

اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف)

آئی ڈی ایف ریاست اسرائیل کی بنیادی فوجی تنظیم ہے، اس کی تین الگ شاخیں ہیں، اسرائیلی فوج، اسرائیلی فضائیہ اور اسرائیلی نیوی۔اس کا کہنا ہے کہ یہ غزہ میں پلان کردہ زمینی جارحیت سے قبل حملوں میں تیزی کردے گی، جیسا کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی نے انتباہ کیا ہے کہ ناکہ بندی والے علاقوں میں بدترین انسانی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

کبٹز

7 اکتوبر کو حماس نے جاری میوزک فیسٹیول پر حملہ کیا تھاجو کہ غزہ اور جنوبی اسرائیل کو علیحدہ کرنے والی دیوار سے 5.3 کلومیٹر دور، ریم کبٹز کے میدان میں منعقد کیا گیا تھا۔

کبٹز(کثرت:کبٹزم) اسرائیل میں ایک فرقہ وارانہ آبادکاری ہے جو وہاں رہنے والوں اور اسے چلانے والوں کی ملکیت ہے اور یکساں طور پر بنٹی ہوئی ہے۔ پہلی کبٹز 1909 میں قائم ہوئی ، اب اس کی تعداد 270 ہے اور اس کی آبادی 1 لاکھ 20ہزار لوگوں سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں بالغ افراد بڑے کوارٹرز میں رہتے ہیں جبکہ بچوں کو عام طور پر ایک گروپ کے طور پر رکھا جاتا ہے اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

نقبہ

فلسطین سے بڑے پیمانے پر لوگوں کے انخلا نے غزہ کے رہنے والوں کو نقبہ کی یاد دلا دی ہے۔

نقبہ یا ’تباہی‘ عرب اسرائیل کی 1948 مین ہونے والی جنگ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی بے دخلی اور نقل مکانی کو کہا جاتا ہے جس کی تشبیہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور فلسطینی معاشرے کی مکمل تباہی سے دی جاتی ہے۔

اسرائیل کو وجود میں لانے میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا تاکہ ایک یہودی اکثریتی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

1947 سے 1949 کے درمیان 19 لاکھ لوگوں پر مشتمل آبادی میں سے ساڑھے سات لاکھ لوگوں کو ریاستی سرحدوں کے باہر پناہ گزین بنا دیا گیا

نکسا

ال نکسا یا نکسا ،کو ہر سال 5 جون کو فلسطینی ہار کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔

نقبہ کی طرح نکسا بھی 1967 کی چھ روزہ جنگ میں فلسطینیوں کی بے دخلی کی یادگار ہے،جس کے نتیجے میں تاریخی طور پر فلسطین کے بچے ہوئے مغربی کنارے کے علاقے،مشرقی یروشلم، غزہ کی پٹی کے ساتھ ساتھ شام کی گولان کی پہاڑیاں اور مصرئ سینائی جزیرے پر اسرائیل قابض ہوگیا تھا۔

نو آبادیاتی نظام

نو آبادیاتی نظام ایک ایسا عمل ہے جس میں سابق آبادیاتی ممالک اپنے سابقہ کالونی کے قواعد و ضوابط کا استحصال کرتے ہیں جو اب آزاد، ترقی پذیر یا کم ترقی یافتہ ہیں تاکہ اپنا بالواسطہ ان پر اپنا تسلط قائم کر سکیں۔

بنیادی طور پر نو آبادیاتی نظام کو معیشت میں دیکھا گیا ہے حالانکہ یہ معاشی استحصال، سیاسی اور ثقافتی استحصال سے جڑا ہوا ہے۔

اوسلو معاہدے

اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے چیئرمین یاسر عرفات نے 13 ستمبر 1993 کو غزہ اور جیریکو میں فلسطینیوں کے لیے عبوری خود مختاری کے انتظامات (ڈی او پی) سے متعلق اعلامیے پر دستخط کرتے ہوئے پورے خطے کے جغرافیائی سیاسی نقشے کو ازسرنو مرتب کیا جو مشرق وسطیٰ کی بیسویں صدی کی تاریخ کے سب سے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔

ڈی او پی پر واشنگٹن میں دستخط کیے گئے، امریکی صدر بل کلنٹن نے تقریبات کے ماسٹر کا کردار ادا کیا، اس معاہدے پر اوسلو میں مذاکرات ہوئے اور اگست کے آخر میں اس کا آغاز کیا گیا۔

پہلا حصہ اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان باہمی طور پر تسلیم کرنا تھا، دوسرا حصہ، ڈیکلیریشن آف پرنسپلز تھا جو غزہ اور جیریکو سے شروع ہونے والے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی خود مختاری سے متعلق مذاکرات کا ایجنڈا طے کرتا ہے۔

معاہدے کے تیس سال بعد بھی ان معاہدوں کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے۔

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ای او)

فلسطین کے علاقوں پر اس وقت دو حکومتوں کا کنٹرول ہے، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) مغربی کنارے کے علاقے فتح پر حکومت کرتی ہے جب کہ غزہ پر حماس کا کنٹرول ہے۔

پی ای او کا قیام 1964 میں مزاحمتی گروپوں، سیاسی جماعتوں اور فلسطینی سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں کے اتحاد کے طور پر عمل میں آیا جس نے 1970 کی دہائی کے وسط میں ”فلسطینی عوام کے واحد جائز نمائندے“ کے طور پر عالمی شناخت حاصل کرلی۔

پی ای او نے مسلح مزاحمت کی اپنی پالیسی کو ختم کرنے پر اتفاق کیا جس کے نتیجے میں پی ایل او کی موجودگی اور اس کی حکومت کو عالمی برادری نے تسلیم کر لیا تھا۔

1996 کے انتخابات کے دوران رائے دہندگان نے پی ای او کو زبردست فتح دلائی اور پی ایل او کو مغربی کنارے اور غزہ پر حکمرانی کا مینڈیٹ دیا، تاہم 2007 میں غزہ میں پی ایل او اور حماس کے درمیان مسلح تصادم نےپی ایل او کو غزہ سے بے دخل کر دیا۔

رفح کراسنگ

غزہ کی پٹی اور مصر کے سینا کے درمیان رفح کراسنگ اسرائیل کے باہر سے براہ راست غزہ میں داخل ہونے کے لیے واحد راستہ ہے جو اسرائیلی علاقے کی طرف نہیں جاتا۔

رفح کراسنگ مصر کے زیر انتظام ہے۔

یہ سرحد اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان بڑھتے تنازع کے درمیان توجہ کا مرکز بن گئی ہے جب کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ شہر اور پٹی کے شمال کو چھوڑنے کی دھمکی کے بعد لاکھوں فلسطینیوں نے جنوبی غزہ کی طرف رخ کرلیا ہے۔

غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے واحد ممکنہ راستہ مصر کے علاقے سینائی سے رفح سرحد ہے، یہ غزہ کے ان رہائشیوں کے لیے واحد راستہ ہے جو وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مصر غزہ کے ساتھ سرحد سے متعلق عدم تحفظ کا شکار ہے جہاں اسے ایک شورش کا سامنا کرنا پڑا جو 2013 کے بعد عروج پر تھی اور جس پر اب بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔

آبادکار استعماریت

مقبوضہ فلسطینی سرزمین کے بارے میں اقوام متحدہ کے آزاد ماہر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو گزشتہ سال بتایا کہ اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی اور آباد کاری نوآبادیاتی صورت حال سے مختلف نہیں ہے جسے فلسطینیوں کے اپنے حق خود ارادیت کے استعمال کی پیشگی شرط کے طور پر ختم ہونا چاہیے۔

آبادکار نوآبادیات طاقت کا ایک جاری نظام ہے جو مقامی لوگوں اور ثقافتوں کی نسل کشی کرتا ہے اور جبر کو برقرار رکھتا ہے۔

شیبہ فارمز

شیبہ فارمز لبنان اور اسرائیل کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے جو لبنان اور شام کی سرحد کے قریب واقع ہے۔

شیبہ فارمز پر اسرائیل نے 1967 کے مشرق وسطیٰ کے تنازع کے دوران قبضہ کر لیا تھا، یہ اسرائیل کے زیر قبضہ گولان پہاڑیوں کا حصہ ہے، دوسری طرف شام اور لبنان کا دعویٰ ہے کہ یہ لبنان کی سرزمین کا حصہ ہے۔

لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحد پر جھڑپیں ہوتی رہی ہیں، مؤخر الذکر نے شیبہ فارمز میں تین اسرائیلی چوکیوں پر راکٹ داغے اور جوابی کارروائی میں پہلے فیرق نے لبنان میں حزب اللہ کی چوکی کو نشانہ بنایا۔

دو ریاستی حل

دو ریاستی حل ایسا معاہدہ ہے جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست بنائی جائےگی۔

دو ریاستی حل برطانیہ، امریکا، اقوام متحدہ اور خود اسرائیل کا بھی سرکاری مؤقف ہے لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اس کے حصول کی امید بہت کم ہے۔

مغربی کنارہ

مغربی کنارے میں تقریباً تیس لاکھ فلسطینی شہری آباد ہیں۔

کم از کم 15 ویں صدی قبل مسیح سے آباد مغربی کنارے پر تاریخ میں مختلف طاقتوں کے زیر غلبہ رہا ہے۔

صیہونیت

صیہونیت ایک قوم پرست تحریک ہے جو اپنے قدیم وطن صہیون میں یہودی لوگوں کے لیے آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے۔

جو بائیڈن نے اسرائیل کے دورے کے دوران وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ میں نہیں مانتا کہ صیہونی ہونے کے لیے آپ کا یہودی ہونا ضروری ہے، میں بھی ایک صہیونی ہوں۔“

صیون ایک مقام کا نام ہے جو عبرانی بائبل میں یروشلم (بیت المقدس) کا مترادف لفظ ہے۔

صیہونیت مخالف نظریے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ریاست نہیں ہونی چاہیے۔

سوشل میڈیا اسٹار زید علی کے والد انتقال کرگئے

’بڑھتی عمر کے بعد ہی عورت جان پاتی ہے اس کے جسم کے ساتھ ہوا کیا‘؟

آج کا اسرائیل گولڈا میئر کے بیان کا کیا جواب دے گا؟