پاکستان

پرویز الہٰی کو کرپشن کیس سے ڈسچارج کرنے کے فیصلے پر اپیل پر ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب

جسٹس شہرام سرور چوہدری کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ضلع کچہری عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
|

لاہور ہائی کورٹ نے لاہور ماسٹر پلان کرپشن کیس میں گرفتار سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور صدر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پرویز الہٰی کو کیس سے ڈسچارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیل پر معاونت کے لیے ایڈووکیٹ جنرل کو طلب کر لیا۔

جسٹس شہرام سرور چوہدری کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے اینٹی کرپشن کے مقدمے میں پرویز الہٰی کو ڈسچارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پرویز الہٰی کو گوجرانولہ کے مجسٹریٹ نے اینٹی کرپشن کے مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دیا، پنجاب حکومت نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، سنگل بینچ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کو ڈسچارج کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا، سنگل بینچ کا فیصلہ حقائق کے برعکس ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت سنگل بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پرویز الہٰی کو اینٹی کرپشن کیس میں ڈسچارج کرنے کا فیصلہ برقرار رکھے۔

عدالت عالیہ نے پرویز الہٰی کی انٹرا کورٹ اپیل پر کارروائی آئندہ ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سے معاونت طلب کر لی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ لاہور کی ضلع کچہری عدالت نے لاہور ماسٹر پلان کرپشن کیس میں گرفتار پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں کیس سے ڈسچارج کر دیا تھا۔

قیصرہ الہٰی، راسخ الہٰی سمیت دیگر کی ضمانت میں 15 نومبر تک توسیع

دوسری جانب لاہور ماسٹر پلان میں مبینہ بدعنوانی سے متعلق مقدمے میں پرویز الہٰی کی اہلیہ قیصرہ الہٰی اور صاحبزادے راسخ الہٰی سمیت دیگر کی عبوری ضمانتوں پر سماعت ہوئی۔

اینٹی کرپشن عدالت کے جج علی رضا اعوان نے ضمانتوں کی درخواست پر سماعت کی، جج نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت سے تبادلہ ہو چکا ہے، کیس نہیں سن سکتا۔

عدالت نے ملزمان کو 15 نومبر تک گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے ان کی ضمانتوں میں 15 نومبر تک توسیع کردی۔

اینٹی کرپشن نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر رکھا ہے۔

لاہور ماسٹر پلان کرپشن کیس

اس سے قبل 16 ستمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے پرویز الہٰی کو راولپنڈی جیل سے رہائی سے قبل لاہور ماسٹر پلان کرپشن کیس میں ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا تھا، یہ ان کی یکم جون کے بعد 12ویں مرتبہ گرفتاری تھی۔

ترجمان اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کی جانب سے جاری بیان کے مطابق چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ماسٹر پلان کرپشن کیس میں راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی نے لاہور ماسٹر پلان منصوبے میں مالی فوائد کے لیے جعل سازی کی اور لاہور ماسٹر پلان میں ردوبدل کرکے اپنی زمینیں لاہور میں شامل کرنے کی کوشش کی، ماسٹر پلان میں ردوبدل کے لیے کنسلٹنٹ فرم کی جعلی مہریں اور مونوگرام استعمال ہوا۔

ترجمان اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے مزید کہا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی نے دارالہندسہ/کنسلٹنٹ کی طرف سے جمع کروائے گئے لاہور ماسٹر پلان میں جعل سازی کی، کنسلٹنٹ کے ترتیب دیے گئے ماسٹر پلان میں جعلی کاغذات کا اضافہ کیا گیا۔

بیان کے مطابق زرعی زمین کو کمرشل اور رہائشی میں تبدیل کرکے اربوں روپے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، سابق وزیر اعلی چوہدری پرویز الہٰی نے مالی مفاد کے لیے عہدے اور دفتر کا ناجائز استعمال کیا، انہوں نےاختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے متعلقہ افسران سے منصوبے کی منظوری کروائی۔

بیان میں بتایا گیا کہ چوہدری پرویز الہٰی کے خلاف لاہور ماسٹر پلان میں جعلسازی پر اینٹی کرپشن لاہور میں مقدمہ درج ہے، لاہور ماسٹر پلان کرپشن کیس میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا، اینٹی کرپشن کرپٹ اور بدعنوان عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں رواں سال 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی تھی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

5 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الہٰی کی تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا، تاہم رہائی کے بعد انہیں وفاقی دارالحکومت سے ایک مرتبہ پھر جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

8 ستمبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

15 ستمبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمپلکس توڑ پھوڑ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی ضمانت منظور کر لی تھی، تاہم رہائی سے قبل ہی 16 ستمبر کو اینٹی کرپشن حکام نے انہیں لاہور ماسٹر پلان کرپشن کیس میں گرفتار کرلیا تھا۔

حماس کی حمایت میں پوسٹ لگانے پر اسرائیلی پولیس نے فلسطینی اداکارہ کو گرفتار کرلیا

آسٹریلیا کی ورلڈ کپ میں تاریخ کی بڑی فتح، نیدرلینڈز کو 309 رنز سے شکست

مراد سعید، حماد اظہر، علی امین گنڈاپور سمیت پی ٹی آئی کے 10 رہنماؤں کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری