پاکستان

عمران خان کو سیکیورٹی نہیں دے سکتے تو انتخابات کا پُرامن انعقاد کیسے ممکن ہوگا؟ الیکشن کمیشن

سیکریٹری داخلہ کو 13 نومبر کو اس وضاحت کے لیے طلب کرلیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کے لیے کیوں پیش نہیں کیا جا سکا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سیکریٹری داخلہ کو 13 نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے تاکہ وہ یہ وضاحت پیش کریں کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو توہین الیکشن کمیشن کیس کی سماعت کے لیے کیوں پیش نہیں کیا جا سکا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت اُس وقت سامنے آئی جب نثار احمد درانی کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 4 رکنی بینچ نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے 2 سابق عہدیداروں فواد چوہدری اور اسد عمر کے خلاف ’توہین الیکشن کمیشن اور توہین چیف الیکشن کمشنر کیس‘ کی سماعت کی۔

سماعت کے لیے فواد چوہدری اور اسد عمر موجود تھے تاہم اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو پیش نہیں کیا گیا، جسے پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے الیکشن کمیشن کی ’حقیقی توہین‘ قرار دیا۔

اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آپریشنز) نے رپورٹ پیش کی جس میں عمران خان کو راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے سے لے کر آنے کے حوالے سے ممکنہ سیکیورٹی خدشات کی نشاندہی کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے خود کہا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، اس پر نثار احمد درانی نے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل سے عمران خان کے اِن دعوؤں کے بارے میں استفسار کیا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو اس کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کرنی چاہیے، اس پر بینچ نے وزارت داخلہ کی صلاحیتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اگر ایک فرد کی حفاظت کو یقینی نہیں بنا سکتے تو آئندہ انتخابات کیسے کرائیں گے؟

بینچ نے ریمارکس دیے کہ وزارت داخلہ الیکشن کمیشن کو کیسے حکم دے سکتی ہے؟ سیکریٹری داخلہ خود پیش ہوں، بعد ازاں الیکشن کمیشن نے کیس کی سماعت 13 نومبر تک ملتوی کر دی۔

خیال رہے کہ یہ فیصلہ توہین الیکشن کمیشن کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔

قبل ازیں 11 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں ہیں، اس لیے وہ الیکشن کمیشن کے مقدمات میں اس وقت تک حاضر نہیں ہوسکتے جب تک کہ ان کے پروڈکشن آرڈرز نہ جاری کیے جائیں۔

19 اکتوبر کو جاری ایک تحریری حکم نامے میں گزشتہ سال اگست سے التوا اِس کیس کا فوری فیصلہ سنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ یہ معاملہ اگست 2022 سے زیر التوا ہے جس کا بلا کسی تاخیر کے فیصلہ کیا جانا چاہیے‘۔

اس میں کہا گیا کہ مدعا علیہ جیل میں ہے اور معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے ملزم کی ذاتی حیثیت میں پیشی لازمی ہے، اس لیے جواب دہندہ عمران احمد خان نیازی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نہیں ہے۔

الیکشن کمیشن کے بینچ نے اپنے دفتر کو کہا تھا کہ وہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو عمران خان کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے تمام ضروری انتظامات کرنے کی ہدایات دیں۔

آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب پولیس سے بھی کہا گیا کہ وہ اس سلسلے میں عمران خان کی فول پروف سیکیورٹی یقینی بنائیں۔

دس روز میں پی آئی اے کی 300 سے زائد پروازیں منسوخ

ورلڈ کپ میں پاکستان کی پے درپے شکستیں، آخر مسئلہ کیا ہے؟

چین کے وزیر دفاع، سابق وزیر خارجہ کو کابینہ سے نکال دیا گیا