اسرائیل کی شدید بمباری، اہل غزہ کیلئے امید کی کرن نہ راہ فرار
ایک جانب غزہ کی پٹی کے 23 لاکھ رہائشیوں میں سے زیادہ تر پانی اور بجلی کی سہولیات سے محروم ہیں اور دوسری جانب چھوٹے سے محصور علاقے میں مسلسل اسرائیلی حملوں کے شکار باسیوں کے لیے کوئی راہ فرار اور جان بچانے کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کا کہنا تھا کہ ہفتے سے اب تک پرہجوم ساحلی علاقے میں کم از کم ایک ہزار 55 افراد جاں بحق اور 5 ہزار 184 زخمی ہوچکے ہیں جب کہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد 1200 تک پہنچ گئی ہے اور 2700 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں، اسرائیلی فوج نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ علاقے سے تقریباً 1500 جنگجوؤں کی لاشیں ملی ہیں۔
گزشتہ کئی روز سے وقفے وقفے سے کام کرنے والا غزہ کا واحد پاور اسٹیشن بھی بدھ کے روز ایندھن ختم ہونے کے بعد بند ہو گیا، بجلی کے بغیر گھروں میں پانی نہیں پہنچایا جا سکتا، رات کے وقت تقریباً مکمل تاریکی میں آگ کے گولوں اور موبائل فونز کی فلیش لائٹ کی روشنی ہی چمکتی نظر آتی ہے۔
چار بچوں کے باپ، غزہ کے رہائشی 35 سالہ یامین حماد جن کا گھر اسرائیلی حملوں سے تباہ ہوگیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ماضی میں تمام جنگوں اور جھڑپوں کو دیکھا لیکن میں نے اتنی خطرناک جنگ کبھی نہیں دیکھی ہے۔
جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس کا ایک ہسپتال کا مردہ خانہ لاشوں سے بھرا ہوا تھا جہاں لاشیں فرش پر پڑی تھیں۔
سوگوار اپنے پیاروں کو جلد از جلد دفنانے کے لیے بے چین تھے کیونکہ گرم موسم زور پکڑ رہا ہے۔
خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ نے غزہ میں موجود تین درجن سے زیادہ لوگوں سے بات چیت کی جنہوں نے خوف اور ناامیدی کی صورتحال کی منظر کشی کی اور ایسے خوفناک تشدد کو جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
غزہ کی واحد دوسری سرحد مصر کی ہے جسے مصری حکام کی جانب سے بند کردیا گیا ہے جب کہ لوگوں نے کہا کہ وہ پھنس چکے ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ بدترین حملہ ابھی کیا جانا ہے جس میں ممکنہ طور پر زمینی حملہ بھی شامل ہے جب کہ اسرائیل ملک کی 75 سالہ تاریخ کے مہلک ترین حملے کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔
ہفتے کے روز کیے گئے اچانک حملے میں حماس کے جنگجوؤں نے سیکڑوں لوگوں کو ہلاک کردیا تھا جب کہ سیکڑوں لوگوں کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کردیا گیا تھا۔
حماس کے حملے کی امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں نے شدید مذمت کی تھی۔
’غیرمعمولی‘ نقصان
اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ میں فوجی مہم کو تیز کرنے کا عزم کرتے ہوئے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل، حماس کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔
حماس اور مقامی رہائشیوں کے مطابق اسرائیل کے ساتھ سرحد کے قریبواقع بیت حنون، اسرائیل کے جوابی حملوں میں سب سے پہلے متاثر ہونے والے مقامات میں شامل تھا جہاں بہت سی سڑکیں اور عمارتیں تباہ اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔
’ہم خطرے سے نکل کر موت کے منہ میں چلے گئے‘
31 سالہ نوجوان نے بتایا کہ وہ ہفتے کے روز اپنی حاملہ بیوی، والد، بھائیوں، کزن اور سسرال والوں کے ساتھ شہر سے فرار ہو گیا تھا، وہ ساحل پر واقع ساحلی پناہ گزین کیمپ میں چلے گئے لیکن فضائی حملوں نے اس علاقے کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا تو وہ مشرقی ضلع شیخ رضوان کی طرف چلے گئے۔
نوجوان نے بتایا کہ منگل کی رات کو ایک فضائی حملہ اس عمارت پر ہوا جہاں علا الکفرنح اور ان کے اہل خانہ پناہ لیے ہوئے تھے، اس حملے میں ان کے علاوہ تمام افراد ہلاک ہو گئے۔
نوجوان نے بتایا کہ ہم خطرے سے نکل کر موت کے منہ میں چلے گئے۔
45 سالہ یوسف دئیر نے کہا کہ میں اب بے گھر ہوں، شاید یہ محفوظ جگہ ہے، شاید نہیں، کہیں بھی کوئی محفوظ ٹھکانہ نظر نہیں آتا۔
اقوام متحدہ کے مطابق ہفتے کے روز سے ایک لاکھ 75 ہزار سے زیادہ غزہ کے باشندے اپنا گھر بار چھوڑ چکے، غزہ میں کچھ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں۔
غزہ میں ریڈ کراس کی عالمی کمیٹی کے ترجمان نے کہا کہ اس بار عام شہریوں کا ایسا نقصان ہوا جس کی مثال نہیں ملتی۔
ایک اور ہسپتال میں میڈیسن سانز فرنٹیئرز کے ڈاکٹر نے کہا کہ کئی برسوں سے طبی سامان کی کمی ہے، اسرائیلی محاصرے میں شدت کا مطلب ہے کہ تیزی سے کم ہوتا سامان ہفتوں میں ختم ہو جائے گا۔
ہر صبح تباہی کے نئے مناظر
اگر کچھ روز تک حالات ایسے ہی رہے تو صحت کا نظام زمین بوس ہو جائے گا۔
بجلی کی کمی کے باعث محصور علاقے کو پانی کی سپلائی بہت کم ہوچکی، غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ جنریٹرز پر چلنے والے ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز کی بجلی بھی آئندہ چند دنوں میں ختم ہونے کا خدشہ ہے، خدشہ ہے کہ سیوریج ٹریٹمنٹ کی سہولیات بھی معطل ہوجائیں گی جس سے پورے علاقے میں فضلہ جمع ہوجائے گا اور بیماریاں پھیلیں گی۔
غزہ میں ہر صبح تباہی کے نئے مناظر پیش کرتی ہے جہاں پورے کے پورے رہائشی بلاکس حملوں سے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔
بمباری سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، شہری دفاع کے رضا کار اکثر حملوں کا نشانہ بننے والے مقامات تک نہیں پہنچ پاتے اور مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ملبہ خود اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اسکول اپنے گھروں سے بھاگنے والے غزہ کے باشندوں کے لیے پناہ گاہوں میں تبدیل ہوچکے جہاں متاثرین کا ہجوم کلاس رومز میں قیام پذیر ہیں۔