کراچی: صدیوں کی کتھا (پہلی قسط)
اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
اگر آپ کبھی کراچی کے انتہائی شمال میں واقع علاقے منگھو پیر گئے ہیں اور وہاں مگرمچھوں والے تالاب کے اوپر اُس مقبرے تک گئے ہیں جہاں مقبرے کے شمال میں قدیم قبرستان ہے اور اُس سے بھی شمال مغرب میں پانی کی لاکھوں بلکہ کروڑوں برس قدیم گزرگاہیں ہیں تو اس وقت شاید آپ کو یہ اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ آپ کہاں کھڑے تھے؟
یہ وہ پہاڑی ہے جس کے جنوب، مشرق اور مغرب میں انسانی ارتقا کی کہانی ایسے بکھری ہوئی ہے جیسے ہماری زندگی کے غم اور خوشیاں کئی مقامات پر یادوں کی صورت میں بکھری پڑی ہوتی ہیں، کوئی یہاں کوئی وہاں، یہاں بھی ارتقا کے حقائق ایسے بکھرے پڑے ہیں، کوئی یہاں کوئی وہاں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ لوہے سیمنٹ کے جنگل نے ان پہاڑیوں اور برساتی بہاؤں سے ان کی قدامت اور شاندار پُرسکون خاموشی، رنگ اور خوبصورتی چھین لی ہے اور ان میں سے کئی عمارتوں کے نیچے بستیوں کی لاکھوں سال پرانی ارتقائی نشانیاں اور اُن زمانوں کے جانداروں کی ہڈیاں مدفون ہیں جنہوں نے ارتقائی عمل میں وہ اہم کردار ادا کیا تھا جو فطرت نے انہیں سونپا تھا۔
وقت کا کام چلنا جبکہ فطرت کا کام تغیر میں رہنا ہے اور یہ لاکھوں کروڑوں برسوں کے تغیر کا نتیجہ ہے کہ وقت اپنی باریک چھننی سے منفی گردوغبار کو گراتا رہتا ہے اور مثبت سے اس دنیا کی تعمیر ہوتی رہتی ہے۔ گزرا وقت تاریخ کا وہ تاریک جنگل ہے جہاں پُراسراریت کی کتھاؤں کی کئی جھاڑیاں اُگتی ہیں۔
اگر آپ اپنے گرد پھیلے ہوئے منظرنامے کو تھوڑی توجہ اور گہرائی سے دیکھیں تو اس پہاڑی کے ہر پتھر اور گھاٹی میں گزرے زمانوں کی کئی ٹھنڈی اور پُراسرار کہانیاں ہیں جو آنے والوں کا انتظار کرتی ہیں کہ کوئی آئے اور اُن سے گزرے زمانے کی کتھائیں سُنے اور آپ جب اُن سے کچھ پوچھیں گے تب وہ اپنے گزرے زمانے کے قصے کپڑوں کے رنگین تھانوں کی طرح کھول کر آپ کے سامنے رکھ دیں گی۔
ان کہانیوں کے ہر رنگ میں پُراسراریت کا ایک ننھا منا دِیا ضرور روشن ہوگا۔ ایسے بھی کئی پُراسرار راز ہیں جنہیں جاننے کے متعلق آپ اس لیے نہیں سوچ سکتے کیونکہ شاید اُن کے متعلق آپ جانتے نہیں ہیں یا اگر جانتے بھی ہیں تو اتنا کم کہ اس متعلق سوال کرنے کی کوئی تمنا آپ کے اندر نہیں اُگتی۔
مگر ان کہانیوں اور وقت کی گُتھیوں کو پرکھنے سے پہلے میں آپ کو بتادوں کہ آپ جس جگہ پر کھڑے ہیں یہ جگہ آپ کے لیے جان بوجھ کر چُنی گئی ہے۔ اس مقام سے مشرق، جنوب اور مغرب کے وسیع علاقوں کو آپ اچھی طرح دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی شاندار جگہ ہے جہاں آپ لاکھوں صدیوں کے گزرے زمانے کو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں اور بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
آپ اگر یہاں ابتدائی ادوار کے انسانوں کی کچھ باقیات ڈھونڈنا چاہیں تو شاید آپ کو تاریخ و تحقیق کے صفحات مایوس نہیں کریں گے کیونکہ کھیرتھر کے وسیع پہاڑی سلسلے کی پہاڑیوں پر ارتقا پانے والے انسانوں کی باقیات بکھری ہوئی ہیں۔ ذرا سوچیں کہ سُننے میں یہ کتنا جادوئی اور سحر انگیز ہے۔ یعنیٰ انسانوں کی وہ دنیا جہاں اُن کے لیے سب کچھ نیا اور خوفناک تھا۔
وہ کیسا دور ہوتا ہوگا؟ ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کریں گے کہ جہاں ہم کھڑے ہیں اُس سے شمال، مشرق، جنوب اور مغرب میں لاکھوں سال پہلے کا منظرنامہ کیسا ہوتا ہوگا۔
مگر یہ تو اس سفر کا ابتدائی پڑاؤ ہے جہاں ابھی نہ کلاچی کا کوئی نشان ہے اور نہ کراچی کا دُور دُور تک کوئی پتا ہے۔ مگر یہ ضرور یاد رہے کہ ہمارا یہ سفر جس کی ابتدا ہم تاریخ سے پہلے (Prehistoric) کے زمانوں سے کررہے ہیں، اُس کی کھوج اُس کلاچی سے کراچی تک پہنچنے کے لیے ہے۔ مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہی بہتر طریقہ ہے کیونکہ یہاں جتنے ادوار گزرے ہیں ہم کوشش کریں گے کہ اُن کو سلسلہ وار بیان کریں تاکہ اس تسلسل میں کوئی ابہام نہ رہے۔
کراچی کے ماضی اور حال کو سمجھنے کے لیے اس پہاڑی سے زیادہ موزوں اور کوئی جگہ ہو ہی نہیں سکتی۔ آپ کی بائیں طرف سے ملیر ندی (’نئے‘ یا ’نے‘ بھی کہتے ہیں جوکہ فقط بارشوں کے موسم میں پہاڑیوں سے آئے ہوئے پانیوں سے بہتی ہیں) ہے۔ ملیر کے مغرب میں لیاری ندی (نئے) ہے اور آپ کی دائیں طرف سے حب ندی کے بہاؤ ہیں۔ اگر آپ گوگل سے دیکھیں تو شمال سے جنوب کی طرف آپ کو بارش کے پانی کے کئی بہاؤ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے نظر آئیں گے۔
بناوٹ کے حساب سے شمال کی سطح بلند جبکہ جنوب کی سطح نشیبی ہے اس لیے پانی کے راستے شمال سے جنوب کی طرف آتے ہیں۔ چونکہ کراچی کی زمین پر دریائے سندھ کا کوئی بہاؤ نہیں ہے اس لیے بارش کے پانی کی ان ندیوں نے یہاں قدیم زمانے سے حیات کو تخلیق کیا ہے۔ یہ ایک فطری منظرنامہ ہے، ندیوں کے اس پانی نے زمین کو سرسبز اور بستیوں کو آباد کیا ہے۔ کراچی کو کراچی بنانے میں سمندر، ملیر، لیاری اور حب ندیوں کا اہم کردار ہے بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ کراچی شہر ان آبی وسائل کا شاندار تحفہ ہے۔
گل حسن کلمتی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’ کراچی کے تاریخی علاقے ملیر، لیاری، منگھو پیر، اورنگی، امیلانو بازار، کھدیجی، باکران، گڈاپ، مھیر، گسری، ریڑھی میان اور حب قدیم تہذیبوں کے مرکز رہے ہیں’۔
بلکہ جہاں آپ اس وقت کھڑے ہیں یہاں بھی آثارِ قدیمہ والوں کو ایسی قدیم انسانی بستی کے آثار ملے ہیں جس کا زمانہ پتھر اور دھات کے درمیان یعنی کانسی (Bronze age) کا زمانہ (3300 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح تک) ہے۔ محققین کے مطابق کسی زمانے میں یہاں ایک بڑی جھیل یا تالاب ہوگا جس میں بہت سے مگرمچھ ہوں گے۔ اس کے کنارے بسنے والی لوگ ان مگرمچھوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔
آپ اسی قدیم پہاڑی سے اگر تھوڑا مشرق کی طرف دیکھیں گے تو ملیر وادی میں بھی آپ کو قدیم بستیوں اور گھنے جنگلوں کی تاریخی شہادتیں مل جائیں گی۔ یہاں سے اگر آپ سیدھے سیدھے 30، 32 کلومیٹرز جنوب کی جانب دوڑ لگائیں تو آپ سمندر کے کنارے ابراہیم حیدری کے نزدیک شمال میں اس سلسلے کی آخری پہاڑیوں تک پہنچ جائیں گے جہاں آپ کو ارتقائی انسان کی ایک اور قدیم بستی ملے گی اور ایسا ہی گندھک ملا پانی کا چشمہ بھی ملے گا جیسا منگھو پیر پر ہے۔ سندھ کی ارضیات پر تحقیق کرنے والے ایچ-ٹی-لیمبرک کو یہاں موجود قلعے کے قدیم آثار ملے تھے۔ لیمبرک اسے ’واگھو ڈر‘ (مگرمچھوں کی غار) کہتے ہیں۔
گل حسن کلمتی اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ اس مقام پر مگرمچھوں کی قبریں بھی ملی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ سُن کر ہم حیران ہوں مگر گزرے زمانوں میں طاقتور اور اُن چیزوں کی پوجا ہوتی تھی جن کو انسان اپنے بس میں نہیں کرسکتا تھا۔ سندھو گھاٹی کے قدیم مذہب میں مگرمچھوں کو دیوتا مان کر پوجا کی جاتی تھی۔ وہاں کی گئی کُھدائی سے ایک مہر بھی ملی جس پر مگرمچھ کو مچھلی کھاتے دکھایا گیا ہے۔
اس سے قبل ہم کراچی کے حوالے سے تین تفصیلی سفر کرچکے ہیں۔ کراچی دو وادیوں میں بسا ہوا شہر ہے۔ مشرق کی طرف ملیر وادی اور مغرب کی طرف لیاری وادی۔ چونکہ ملیر وادی پر اس سے پہلے ہم بات کرچکے ہیں تو اب اگر لیاری بہاؤ پر بسی بستی کی قدامت اور ساتھ میں کراچی کی ارضیاتی کیفیت پر تفصیلی بات کرلیں تو شاید ہم سب کو اچھا لگے گا۔
شہر کراچی اب جہاں بستا ہے، ارضیاتی لحاظ سے وہ سطح پست انداز مرتفع ہے جس کی سطح سمندر سے اوسط بلندی تقریباً 25 فٹ ہے۔ یہ میدان کوہ کھیرتھر سے بہہ کر آنے والی مٹی اور پتھریلے ملبے سے بنا ہے جس کی عمر کا تعین تاریخ ارضی کے دور ثلاثہ کی بالائی عمر (Upper Tertiary Age) سے کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اس دور کے اولیگو سین (Oligocene) زمانے یعنی تقریباً ساڑھے 4 کروڑ سال قبل یہ تمام علاقہ اُتھلا سمندر تھا جس میں کوہ کھیرتھر سے آنے والے نالوں کا ملبہ رفتہ رفتہ جمع ہوتا گیا۔
ان تہہ دار چٹانوں میں ہمیں جگہ جگہ ایسی سیپوں اور گھونگوں کے سنگوارے (Fossils) ملتے ہیں جو اپنی اقسام کے لحاظ سے کم گہرائی کے سمندروں اور گرم آب و ہوا میں پروان چڑھتے تھے۔ یہ قدیم آبی حیاتیاتی آثار اب سطح سمندر سے بہت بلند اور ساحل سمندر سے دور دور کے علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ اس دور میں جمع ہونے والے ملبے سے جو مختلف قسم کے پتھر وجود میں آئے انہیں ناڑی طبقہ عصر (Nari Formation) کہتے ہیں۔
سمندر میں ملبہ جمع ہونے کا عمل مایو سین اور پلایو سین دور تک یعنی آج سے تقریباً 20 لاکھ سال قبل تک جاری رہا۔ ان دو ادوار میں ملبے سے جنم لینے والی چٹانوں کے مثالی نمونوں کو گاج طبقہ عصر (Gaj Formation) کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ ان چٹانوں کے مثالی نمونے شمالی سندھ میں گاج نامی گھاٹی میں موجود ہیں۔ اس طویل عرصے میں سمندر اُبھر کر خشک زمین بن گیا اور اس پر چھوٹی چھوٹی جھیلیں اور ندی نالے وجود میں آگئے۔ اس خشک زمین کی ناہموار سطح پر بہنے والے پانی سے جو کٹاؤ پیدا ہوا اس کا ملبہ بھی تہہ دار چٹانوں کی شکل اختیار کرگیا لیکن اس پر ملنے والے جانداروں کی قسم نمکین پانی میں پرورش پانے والے جانداروں سے مختلف تھی۔
اس ملبے کے پتھروں کو منچھر طبقہ عصر (Mancher Formation) کا نام دیا گیا کیونکہ ان کے مثالی نمونے منچھر جھیل کے اطراف میں ملے۔ قدامت کے لحاظ سے گاج اور منچھر ہم عصر ہیں کیونکہ یہ ایک ہی عہد یعنی مایوسین (Miocene Era) اور پلایوسین (Pliocene Era) دور کی پیداوار ہیں۔ البتہ فرق فقط یہ ہے کہ جہاں سمندر میں ملبہ جمع ہوا وہ گاج اور جہاں تازہ پانی میں جمع ہوا اسے منچھر طبقہ عصر کے نام سے موسوم کیا گیا۔
آج سے 20 لاکھ برس قبل کھیرتھر پہاڑ کے مشرقی اور جنوبی نواح کا پورا علاقہ پلائس ٹوسین (Pleistocene Era) زمانے کے اوائل میں سمندر سے اُبھر کر خشک میدان بن گیا تھا اور اس خشکی پر ملیر، لیاری، حب، سفوراں اور دوسرے ندی نالے وجود میں آئے۔
کھیرتھر کا پہاڑی سلسلہ دراصل کوہ سلیمان کا جنوبی حصہ ہے جو طاس سندھ اور سطح مرتفع میں حد فاصل ہے۔ ہمارے ملک کی ارضیاتی تاریخ میں کوہ سلیمان اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جن کو محوری خطہ (Axial Belt) کہا جاتا ہے۔ دکنی ہندوستان کی ماقبل کیم بریائی چٹانیں جو سندھ طاس میں زمین سے اوپر اُبھری ہوئی نظر آتی ہیں ان میں سانگلہ ہل، شاہ کوٹ کی پہاڑیاں اور چینوٹ کے قریب کیرانہ کی چٹانیں شامل ہیں۔ کراچی سے قریب ترین علاقہ جہاں یہ چٹانیں ملتی ہیں وہ ننگرپارکر (تھرپارکر) پہاڑیوں کا ہے جہاں گلابی سنگ سیال (Pink Granite) ملتا ہے۔
کراچی اور اس کے اطراف میں کئی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں یا ہموار سطح کے ٹیلے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسے ملیر وادی میں کورنگی، ابراہیم حیدری اور سی-او-ڈی کی پہاڑیاں، وادی لیاری میں کوہ سار (ہل پارک)، گلستان جوہر اور کراچی یونیورسٹی کی پہاڑیاں۔ ان پہاڑیوں کی ڈھلوانوں میں منچھر طبقہ عصر کی چٹانیں موجود ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں جن میں پتھروں کی پرت عموماً افقی سطح میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں دراصل ابھری ہوئی سطح مرتفع (Hoarst) ہیں جنہیں چھوٹے پیمانے پر رونما ہونے والے پشتہ دار پہاڑ (Block Mountains) کہا جاتا ہے۔ ان کا وجود اس بات کی علامت ہے کہ پلائس ٹوسین دور سے ہی اس علاقے میں زمین کی شکست و ریخت شروع ہوچکی تھی۔
منچھر اور گاج دور میں تعمیر ہونے والی کراچی کی سطح مرتفع میں ترتیب تہہ داری (Stratigraphy) کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ملبے کے اجتماع میں ماحولیاتی یکسانیت نہیں ہے، یعنی کچھ تہیں تو سنگ ریزوں سے بنی ہوئی سنگ متفرقات (Conglomerates) ہیں، کچھ باریک ذرات کی مٹی اور کچھ ریت کی چٹانوں پر منحصر ہیں۔ ابتدا میں ذکر کی گئیں تہوں سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ملبے کا آبائی علاقہ بڑی تیزی سے بلندی کی طرف مائل تھا اور اس زمانے میں بہنے والے ندی اور نالوں میں پانی کا اخراج بھی زوروں پر تھا جس کا سبب زیادہ بارشوں کا نظر آتا ہے جس سے پانی کی فراوانی اور علاقے کی ناہمواری کی وجہ سے پانی کی تیز رفتاری میں تخریبی قوت زیادہ تھی۔
اس کے بعد ان سنگریزوں پر موٹے ذرات کی مٹی جمع ہوتی نظر آتی ہے جس سے اندازہ لگایا گیا کہ آبائی علاقے میں چٹانوں کا اُبھرنا تقریباً ختم ہوچکا تھا اور سطح زمین کی ناہمواری معتدل میدانی شکل (Peneplain) بنتی جارہی تھی۔ اس مٹی کے اوپر بہت باریک مٹی کی چادریں ہیں جو اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ ندی، نالوں کی رفتار میں ٹھہراؤ پیدا ہوچکا تھا اور جہاں کہیں نشیبی علاقے ملتے تھے وہاں پانی ساکت حالت میں جمع ہوجاتا تھا۔
ان باریک ذرات والی چکنی مٹی میں بھی کاغذی موٹائی کی تہیں نظر آتی ہیں جو سالانہ موسمی حالات کو ظاہر کرتی ہیں، پھر اس چکنی تہہ پر ریتیلے پتھر یا سنگ ریگ کی چادر بچھ جاتی ہے جو آب و ہوا کے خشک دور کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب تیز ہوا سے ریت پورے علاقے کو ڈھانپ لیتی ہے تو اس کی موٹائی کہیں کم اور کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ان ریت کے ٹیلوں پر اُگنے والے نباتات کی جڑیں اور ان میں رہنے والے کیڑوں مکوڑوں کے بل پتھر میں جم کر محفوظ ہوچکے ہیں جو اس زمانے کے حیاتیاتی اقسام کا پتا دیتے ہیں۔ اس میں بعض جگہ مرنے والے بڑے جانوروں کی ہڈیوں کے نشانات یا حنوط شدہ باقیات بھی موجود ہیں جن سے حیاتیاتی آثار کے ماہرین اس دور کی طرز زندگی اور قدیم معاشی حالات (Palaeoecology) کا مطالعہ کرتے ہیں۔
کراچی کے میدانی علاقے پر بچھا ہوا ملبہ اس شدید دباؤ سے نہیں گزرا جس میں مربوط آب و ہوا اور دیگر عوامل خلفشار پیدا کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ چکر دوبارہ، سہ بارہ چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی تہیں انتہائی سختی اختیار کرلیتی ہیں اور ان کے معدنی ذرات تک اپنی ہئیت تبدیل کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر چکنی مٹی کی تہیں شکن دار پہاڑی علاقوں میں صلصالی (Shale Rock) چٹانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر منچھر اور گاج طبقے کی چٹانیں جو کراچی کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ بھی آج سے کروڑوں برس بعد اس عمل سے گزریں گی۔
کراچی سمیت سندھ کے بقیہ علاقوں میں پائی جانے والی چٹانوں کا رنگ عموماً بھورا اور گہرا زرد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ریت میں ایلومینیم، فاسفیٹ اور لوہے کے مُرکبات کی آمیزش زیادہ ہے۔ یہ ریت فصل دوم کی ریت (Second Generation Sand) ہے جس میں ابرق کی مقدار بہت کم اور ریت کے دانے چھوٹے، کم نوکیلے (Sub-engular) یا گولائی میں ہوتے ہیں۔ دریائے سندھ سے بہہ کر آنے والی ریت جو کوہِ ہمالیہ کے سلسلے سے بہہ کر آتی ہے، اس ریت کے مقابلے میں سفید رنگت کی ہے جبکہ اس میں ابرق کے ذرات نسبتاً زیادہ ہیں۔
اب اگر وادی لیاری کی بات کریں تو یہ ایک کاسی لف (Syncline) وادی ہے۔ چٹانوں کے درمیان سے اگر ایک عمود (Axis) گرایا جائے تو عمود کے مخالف سمت میں جھکاؤ رکھنے والی چٹانوں کو کوہانی لف (Anticline) جبکہ عمود کی جانب جھکاؤ رکھنے والی چٹانوں کو کاسی لف کہا جاتا ہے۔ کراچی سے لسبیلہ تک کوہانی لف پہاڑوں اور کاسی لف وادیوں کا ایک ایسا متوازی سلسلہ ہے جوکہ ایسی ارضی حرکات کی وجہ سے رونما ہوا ہے جن کو ماقبل ہمالین کوہ سازی (Pre-Himalayan Orogeny) کہا جاتا ہے۔
لیاری وادی کھیرتھر پہاڑی سلسلے کے انتہائی جنوب میں کوہانی لف اور کاسی لف سلسلے میں واقع ہے۔ اس وادی کا مرکزی بہاؤ کراچی کے شمال میں کھبڑی (Khabadi) کی پہاڑیوں سے نکل کر شمال مغرب میں چورن واری (Choran Wari) گھوڑا لکی (Ghorra Luki) اور اورنگی کی پہاڑیوں اور جنوب مشرق میں مُلری ہلز کے درمیان سے گزرتا ہوا سینڈس پٹ کے قریب سمندر میں گرتا ہے۔
1970ء کے دہائی میں کراچی کے 40 کلومیٹرز کے دائرے میں پروفیسر عبدالرؤف خان نے انسان کی قدیم آبادیوں پر تحقیق کی جس کے بعد تمام تحقیقات کی بنیاد وہی تحقیق رہی۔ اس تحقیق سے ڈاکٹر صاحب کو ’میسولتھک‘ (12000 اور 8000 قبلِ مسیح) یعنیٰ درمیانی سنگی زمانے کی بستیوں کے نشان ملے تھے۔ یہ ’پیلیولتھک‘ اور ’نیولتھک‘ کے درمیان کا زمانہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ’شمال سے جنوب کی طرف بہنے والے بارش کے پانی کی گزرگاہوں کے کناروں پر ایسی کئی بستیوں کے نشان ملے ہیں جن میں سے کچھ وقتی پڑاؤ ہیں جبکہ کچھ مستقل بستیاں بھی ہیں۔ ان اوائلی بستیوں سے آخری پیلیولتھک زمانے کے کئی اوزار بھی ملے ہیں۔ یہاں مائیکرو بلیڈ اور درانتی شکل جیسے کئی اوزار موجود ہیں۔‘
اب تک آپ نے جو کچھ پڑھا یہ اس قدیمی اور سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کیا ہوا اس سلسلے کا پہلا پڑاؤ ہے۔ ہمارے اس سفر میں ہمارے ساتھ آرکیالوجی اور اینتھروپولوجی کے ماہرین بھی سفر کررہے ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر ہم معلومات حاصل کرتے رہیں گے۔ ہمارے ساتھ پروفیسر عبدالرؤف خان کے ساتھ ایچ-ٹی-لئمبرک، پائلو بیگی، علی احمد بروہی، ذوالفقار علی کلہوڑو کے ساتھ جیولوجی کے اُستاد بھی ہیں جو یقیناً وقت پڑنے پر ہماری مدد کریں گے۔ تو بہت جلد ملتے ہیں کراچی کی کتھا کے اس سفر کے اگلے پڑاؤ میں!
حوالہ جات
- The Mesolithic Settlement of Sindh.(Report) Paolo Biagi.
- Chronological Dictionary of Sindh. M.H.Panhwer
- Sindh: A General Introduction. H.T. Lambric
- وادی لیاری ۔ مدیر: حمید ناظر۔ 1992۔ کراچی
- کراچی سندھ جی مارئی۔ گل حسن کلمتی۔ 2014۔ کراچی
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔